اس سے پہلے کہ ہونٹ سِل جائیں

اس سے پہلے کہ لفظ مر جائیں

اس سے پہلے کہ آنکھ کا پانی

خشک ہوجائے، ہاتھ کٹ جائیں

انہیں ہاتھوں کو جوڑ کر تم سے

عرض ہے ، صرف اک گذارش ہے

ایک شاعر ہے ملتجی سائیں!

صرف تھوڑا سا، صرف تھوڑا سا

عفو اور درگذر سے کام بھی لو

رات اُماوس ہے تو دےے کی طرح

روشنی کے نقیب بن جاﺅ!

پل اَپل کے لےے ذرا سوچو

سالہا سال انتقام کے نام

نسل در نسل قتل و غارت کیوں؟

جو کبھی جیت ہی نہیں سکتے

ایک ایسی فضول جنگ کے نام

جیتنے کا جنون کس کے لےے

امن اور آشتی کی دھرتی پر

بے سبب کُشت و خون کس کے لےے

پل اَپل کے لےے ذرا سوچو

یہ زمیں پر لہو لہان ہے جو

وہ بھی اک بہن کا تھا ویر جوان

وہ بھی اک باپ کا سہارا تھا

وہ بھی اک ماں کا نین تارا تھا

وہ بھی دولہا تھا ایک دلہن کا

باپ تھا پھول جیسے بیٹے کا

ایک کھلتی کلی سی بیٹی کا!

سر جو تن سے کٹا ہوا ہے آج

خوشہ تھا وہ کسی کی کھیتی کا

اور فضاﺅں میںتھی مہک اس کی

دھول میں جو پڑا ہے بے حرکت

کل ہواﺅں میں جھولتا تھا وہ

جیسے دولہا دلہن ہوں لاﺅں* میں!

سندھ کے باسیو! ذرا سوچو

شرق اور غرب میں کئی سورج

اُبھرے ڈوبے ہیں، ڈوبے اُبھرے ہیں

اور اس بے حصار عرصے میں

عورتیں کتنی ہوگئیں بیوہ

کتنے بچے یتیم ہوگئے ہیں!

جو کنواری تھیں دودھ سے اُجلی

بنا کارن ہی ہوگئیں ” کاری“!

اور وہ گبھرو جوان شہزادے

جن پہ پہلی بہار آئی تھی

وہی اُن پر بہارِ آخر تھی!

پَو پھٹے اوس میں یہ بھیگے پھول

صبح کی پہلی اُجلی کرنوں میں

شاخ سے ٹوٹے کچلے مسلے پھول

چومنے کے لےے جو مکھڑے تھے

اپنے ہی خون میں وہ لت پت تھے

وہ جو دن سے بھی اجلے اجلے تھے

بنا کارن ہی ہوگئے ” کارے“!

سندھ کے وارثو! ذرا سوچو

اپنے دل کو ذرا ٹٹولو تو

بے سبب نفرتوں کی دوزخ میں

بستیاں کتنی ہوگئیں ویراں

کتنے گھر ہنستے بستے گھر اُجڑتے

گاﺅں کے گاﺅں جل کے راکھ ہوئے!

اس سے پہلے کہ سندھ سارا سندھ

اپنے ہی ہاتھ سے لگائی ہوئی

آگ میں جل کے راکھ ہوجائے

اور ہوا راکھ اُڑا کے لے جائے

آﺅ سب پیٹرول کے بدلے

نفرتوں کے بھڑکتے شعلوں پر

اپنے ہاتھوں سے ڈال دیں مَٹی!

____________

* لاﺅں۔ سیج پر دولہا دلہن کے سر ٹکرانے کی رسم

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے