سچی بات یہ ہے کہ وہ بھی چکر میںآگیا ہے۔اور پھر چکر کیوں نہ ہو؟
اب وہ بیچاری انٹرنیشنلزم کی حامی عورت اوراس کے ساتھ سماجی مصلح بھی۔بہت خوبصورت، بااخلاق ، بامروت،کندن ایسی عورت، جو سندھ ایسے پچھڑے ، پسماندہ ملک میں رہتے ہوئے بھی چین،جاپان،امریکہ ،روس،افریقہ،انڈونیشیا ، مڈل ایسٹ کے لوگوںکے لےے ہی نہیں بلکہ وائلڈ لائف کے لےے بھی سوچے۔ازل اورابدتک سوچے۔ اب اس بیچاری کو کیا خبر کہ یہ عشق و شق کیا ہوتا ہے ۔ بس جب سے اخبار میں، پتہ نہیں کیسے ، اس کی فوٹو چھپی ہے لوگ دھڑا دھڑا س پر عاشق ہونے لگے ہیں۔ ایک ایکٹر قسم کا لڑکا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا ہے اور اس بیچاری کے لےے ہے پائے ماندن نہ جائے رفتن۔ وہ کل بھی میرے پاس شکایت لے کرآئی تھی اور آج بھی ٹیلیفون کیا ہے کہ میں پریشان ہوں ، آرہی ہوں اور اس کا پورا پروگرام چوپٹ ہوگیا ہے ۔ وہ بڑی الجھن میں پھنس کر خیالوں میں گم ہوجاتا ہے۔
توبہ۔ عشق کون کرے ہے اور دردِ سر میرے لےے ! پگلی ! اگر لڑکوں سے جان چھڑانی ہے تو پھر بال بوائے کٹ بنوانے، یورپی اسکالر عورتوں کی طرح اونچی ایڑی والا سینڈل پہن کر فوجی انداز میں ٹاپ ٹاپ کرکے چلنے کے بجائے پھسپھسا کر چلے۔ بھلا …….. اتنے شاندار انداز میں چلنے کی ضرورت بھی کیا ہے اور یہ دودھ کی مانند اُجلے کپڑے پہننے کی کیا حاجت ؟ یوں تو ہر مرد شاندار عورت کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے ۔ اور وہ اپنے پروگرام کے درہم برہم ہوجانے پر مزید جُز بُز ہوجاتا ہے۔
” اب بھلا اس کو ٹیلی فون پر کپکپانے کی کیا پڑی تھی ! چھورا اس کے ساتھ عشق کررہا ہے ، قتل تو نہیں کرر ہا اس کا ؟“۔
وہ اپنے تئیں سرگوشیاں کرتا ہے اور گھنٹی کی آواز پر منہ پھلا کردروازے کی طرف بڑھتا ہے ، جونہی دروازہ کھلتا ہے تو وہ پسینہ میں شرابور اندر داخل ہوتی ہے۔
” خیریت تو ہے ؟“۔
” خیریت تمہارا ٹھینگا “۔ وہ کُولر سے پانی کا گلاس بھرتی، ہانپتی کانپتی ، پنکھے کے نیچے بیٹھ جاتی ہے اور گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگتی ہے ۔
” ارے بھائی ! اب تو وہ گلے پڑ گیا ہے !“۔
” اوہو! میں تو یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ تم تھرڈ ورلڈ وار کی علامات کے متعلق کوئی بڑی اہم خبر پڑھ کر آئی ہو“۔
” توبہ ۔ تو کیا تھرڈ ورلڈ وار کی علامات نہیں ہیں کیا؟ لیکن یہ چھورا میرے جیون میںہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے “۔ وہ بڑے جوش بھرے انداز میں کہتی ہے ۔
” تو کیا اُس نے آج پھر کوئی شرارت کی؟“۔
” آج تو صاف صاف بدمعاشی پر اُترآیا۔ دیکھو! میں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ وہ تمہارے دوست کا بھائی ہے ۔ مجھ سے کچھ ہونہ جائے۔ میں اسے ایسا ہاتھ دکھادوں گی کہ اسے ماں یاد آجائے گی۔ پتہ نہیں لوگ کیسے کتیوں کی طرح بچے پیدا کرتے اور سڑک پر پھینکتے جاتے ہیں“۔
” کچھ بتاﺅ تو سہی کہ ہوا کیا ہے ؟“ وہ شدید بے زاری کے عالم میں چیخ اٹھتا ہے۔
” آج اُس نے پارک میں پیچھے سے آکر میری آنکھوں پر اپنے ہاتھ یوں رکھ دےے جیسے میں نے پہلے سے اسے وقت دے رکھا تھا ۔ کیا زمانہ آگیا ہے ۔ آدمی کسی پارک میں دو منٹ بھی چین سے بیٹھ نہیں سکتا “۔
” اچھا …….. عقب سے اس نے تمہاری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دےے!“۔
” تو کیا میں بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہوں ؟ اوپر سے بے شرمی کا یہ مظاہرہ کہ کہنے لگا ، کاش! اللہ سے کچھ اور مانگتا !“۔
” تو پھر تم خاموشی سے دیکھتی رہیں! ایک تھپڑ جڑ دیتیں“۔
” تھپڑ؟ عجیب آدمی ہو ! اب مجھے اور کوئی کام تو ہے نہیں،بس ! لوگوں کو تھپڑ مارتی پھروں اور ہاں مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ تمہارا سٹوڈنٹ ہے ۔ ہائے ، ہائے ! توبہ !! کیا فائن آرٹس کے طلبا ایسے ہی ہوتے ہیں؟“۔
” میر ایسا کون سا شاگرد ہے ؟ میرے تو سبھی شاگرد بڑے احمق ہیں ، اونٹ ہیں، ہی ہم ، ہی ہم کرکے چلتے ہیں“۔
” بھئی ! تمہارا شاگرد ہے ۔ وہی جس نے لارڈ جِم کا کردار اد اکیا تھا ۔ بالکل مرسا …. کیا کہتے ہیں ….اوٹول جیسا۔ بس صرف بال اور آنکھیں سیاہ ہیں۔ چلتا بھی بڑے کروفر کے ساتھ ہے“۔
” اوٹول جیسا چھورا…….. میرا شاگر د! میرے تو شاگرد رنگیلے جیسے ہیں“۔ وہ اپنے آپ سے کہا ہے ۔
” ہاں، تمہارا شاگرد بھی اگر نہیں تو تمہارے کالج میں پڑھتا ضرور ہے اور ہے بھی تمہارے دوست کا چھوٹا بھائی“۔
” بھائی ! کون سے دوست کا ؟“۔
” بھئی ! حیرت ہے ۔ وہ تمہارا دوست نہیں جس کی ایک بہن ہے گوری اور لمبی لمبی ۔ تمہارے حافظہ کو کیا ہوگیا ہے ! وہ لڑکی …….. جس کے لےے میں نے کہا تھا کہ یہ جنگ کے موضوع پر بنائی گئی فلم ” ہیون نُون مسٹر علی سن “۔ والی ڈیبورا کیئر جیسی لگتی ہے “۔
” اوہ ……..! حافظہ خراب ہوگا تمہارا ۔ تم نے کہا ، ” تمہارے ساتھ کتنا خاموش پیار کرتی ہے ۔ شادی کیوں نہیں کرلیتے اس کے ساتھ ؟‘ وہی نا!“۔
اس بات پر وہ بڑے تکلیف دہ انداز میں کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے ۔
” بھئی ! دیکھو ! شادی تمہارا اپنا مسئلہ ہے ، کسی دیہاتن کے ساتھ کرو یا کسی سویپرلیڈ ی کے ساتھ ۔میں تمہارے ساتھ اس لڑکے کے متعلق بات کرنے آئی ہوں“۔
” کچھ ہوش سے کام لو …….. بی ایزی…….. پلیز بی اِیزی…….. !“ وہ فِرج سے کوک کی دو بوتلیں نکال کر گلاسوں میں ڈالتا ہے۔
” کیوں گھر والے آگئے ہیں کیا ؟“۔ وہ سہم کر دھیما پن اختیار کرلیتی ہے۔
” ارے بھئی ! وہ سب بڑے آدمی ہیں، اس طرح کے واہیات گھرمیں کیوں رہنے لگے۔ میری تو بس اللہ نے سن لی ہے ۔ ہوسٹل لائف تو ڈوگز(Dogs)لائف ہے “۔
” بھئی! میں ڈوگز لائف پہ فلم دیکھ چکی ہوں۔ تم بے کار باتیں کیوں کےے جارہے ہو؟ اس لڑکے نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ میں نا کبھی سڑک پر چلتے چلتے ڈھیر ہوجاﺅں گی“۔
” اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ بے ہودگی سے پیش آیا ہے ؟“۔
” او …….. نو …….. ایسا بھی نہیں ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ جو ناول وہ پڑھتا ہے ، اس کے ڈائیلاگ میرے کانوںمیں انڈیلتا رہتا ہے ۔بائی گاڈ! باتیں کرنے کے معاملہ میں بڑا سﺅر ہے ۔ گفتگو کرتے وقت ہونٹ، آنکھیں، ناک ، سب اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ سامنے والے کو بالکل جکڑ میں لے لیتا ہے “۔
”اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ذہن پہ چھا گیا ہے ؟ لیڈی ! یُو آر اِن لَو“۔
” کیا بکتے ہو ؟ دنیا کے سب مسائل تمام ہوئے اور باقی رہ گیا ہے پیار ۔ ارے بھئی ! یہ سب فراغت کے چونچلے ہیں“۔ وہ کوک کا گھونٹ بھرتی اور بیزاری سے اس کے چہرے کو گھورتی ہے اور وہ اپنی رِسٹ واچ میں وقت دیکھنے لگتا ہے ۔
” کیا ہم کل اس مسئلہ پر بات نہیں کرسکتے …….. ؟ آج میرادل تپتی دوپہر میں شاپنگ کرنے کو چاہتا ہے ۔ جب دن تپ کر دوزخ بن جاتا ہے نا تو چیزوں کے دام گر جاتے ہیں۔ میں ایک اچھی سی شڑت لینا چاہتا ہوں اور میرے پاس شلوار قمیص تو ہے نہیں“۔
” مجھے سب پتہ ہے، لیکن کیا آج تم یہ بوڑھی عورتوں کی شاپنگ کا پروگرام کینسل نہیں کرسکتے ؟ بائی گاڈ! میں بہت پریشان ہوں“۔ وہ روہانسی ہوجاتی ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
” او۔ کے! آخری مرتبہ وہ تم سے کس طرح پیش آیا؟ اس کا رویہ کیساتھ تھا اور اس نے کیا کیا کہا ؟“۔ وہ صوفہ پر لیٹنے کے لےے اپنے آپ کو پھینک دیتا ہے۔
” رویہ ؟ بالکل ایک نارمل بندے جیسا۔ چمکتی آنکھوں کے ساتھ بہت ساری باتیں کرتا رہا۔ کہہ رہا تھا، برسوں بیت گئے، تم پہلی عورت ہو جس کے لےے میں چکرا گیا ہوں۔ ذہنی طور پر ہائلی انسپائر اور کہا کہ مجھے تمہاری اتنی ضرورت ہے جتنی ایک شیر خوار بچے کو ماں کے دودھ کی۔ یہ بھی کہا کہ میں شادی وادی یا ایسے ہی کسی اور چکر میں نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی لالچ ہے۔ میں تو صرف لٹُّو اور ڈوری جیسا ساتھ چاہتا ہوں۔ بھلا اتنے مختصر ملاپ میں کیا رکھا ہے ؟“۔
” بھئی واہ ! …….. یہ تو کوئی ونڈرفل لڑکا ہے۔ جیسے میرا اور تمہارا ساتھ ایک ننھے، بلکتے نوزائیدہ بچے جیسا پیارا رشتہ ہے ، بھلا اسی طرح اس کے ساتھ دو قدم چلنے میں کیا برائی ہے ؟ ہوں …….. ہوں ……..“ وہ ایک ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور پھر اُس پر دھونس جماتا ہے ، ” میں بھی تمہارا رشتہ دار ہوں نا ؟…….. بتاﺅنا …….. میرا اور تمہارا کیا رشتہ ہے؟“۔
” حیرت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمام جہاں کے ساتھ فرینڈ شپ کرتی پھروں؟“۔
” تو تمام جہان کے ساتھ نہیں ہے کیا ؟ تم یہ کیوں بھول رہی ہو کہ تم ایک رائٹر ہوں، ملک کی جانی مانی ادیبہ، جیتی جاگتی ہیروئن ، چلتی پھرتی یونیورسٹی۔ سارے جہان کی قلمی دوستی کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے ، مگر دوست نہیں ہے تو صرف یہی ایک لڑکا……..!؟“۔
” ہاں۔ اس نے میری آنکھوں پر ہاتھ کیوں رکھے۔ جان نہ پہچان ، میں تیرا مہمان۔ اب تجھے کیا پتہ کہ میں اُس وقت کیا سوچ رہی تھی؟“۔ وہ خالی گلاس زور کے ساتھ میز پر رکھتی ہے ، ” میں اس لفنگے کے ساتھ آدھا گھنٹہ بھی دوستی رکھنے کے لےے تیار نہیں ہوں۔ ایسے چھچھورے میرا آئیڈیل نہیں ہوسکتے ، ایک پَل کے لےے بھی نہیں……..“۔
” لیکن تم تو اس کی آئیڈیل ہو اور مُکرتی کیوں ہو؟ ابھی تو تم نے کہا کہ وہ بہت serious تھا“۔
” یہ میں نے کب کہا ……..؟ کب کہا میں نے ؟“۔
” اوہ……..! تم Absent minded writer ہو۔ تم نے پتہ نہیں کیا کیا کہا ۔ ٹھنڈا مزاج ، ناک، آنکھیں، ہونٹ ، سب اس کے کنٹرول میں۔ کیا یہ سب ایک سنجیدہ نوجوان کی علامات نہیں ہیں؟“۔
” توبہ …….. “۔ وہ پھر غصہ میں آکر کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے اور تیز تیز بولنے لگتی ہے ، ” اب تو تم بھی مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہو۔ میرے پاس دوستوں ووستوں کے لےے وقت نہیں ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو کہ میں ایک Pure writer ہوں۔ میرے پاس سوچوں کے وسیع افلاک ہیں۔ بھئی ! مجھے میری نئی کتاب اپنی زندگی سے بھی پیاری ہے اور اس کے لےے میں اپنی صحت و حت کی پرواہ بھی نہیں کرتی۔ اس کتاب کو لکھنے کے لےے میں نے پندرہ برس کشت کاٹے ہیں۔ کبھی کبھی تو کاغذ بھی میرے لےے پرابلم بن جاتا ہے ۔ تم ہی کہو، میں بھلا کوئی پرائز جیتنے کے چکر میں ہوں ؟ ارے بھئی ! مجھے میری کتاب مکمل کرنے دو ، پھر چاہے میرے جسم کی بولی لگادو۔ میں اتنی بولڈ ہوں کہ تمہیں بروتھل میں بھی بیٹھ کر دکھاسکتی ہوں۔ کان کھول کر سن لو ، میں اس صدی کے لےے ایک چیلنج ہوں۔ میرے ناول کا تھیم ؟ میرے ناول کا تھیم ازل سے آج تک ہوتی آئی خون ریزی کا داغ داغ سرخ لہو ہے ، جو صدیوں کے دھماکوں سے سیاہ پڑ چکا ہے ۔جو لہو اب بہت زیادہ اور مزید گندہ ہوچکا ہے ۔ بڑا حبس ہے اور دم گھونٹنے والی بدبو ہے “۔ وہ پاگلوں کی طرح آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر رونے لگتی ہے۔ دھاڑیں مار کر روتی ہے اور پھرا چانک کتابیں اٹھا کر جانے کے لےے سیڑھیوں کی طرف دوڑ لگاتی ہے کہ اس کا اُونچی ایڑی والا سینڈل زینے میں پھنس جاتا ہے اور وہ چیخ مارکر قلابازیاں کھاتے ہوئے گر جاتی ہے ۔ وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچتا ہے۔
” چوٹ تو نہیں لگتی؟“۔
” میں فولادی اعضا کی مالک ہوں“۔ اس کے آنسو ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتے۔ وہ اسے اپنی بانہوں میں اٹھالیتا ہے اور وہ بچوں کی طرح ہاتھ پاﺅں مارتی جاتی ہے ،” چھوڑ مجھے …….. میں نے کہا نا …….. میرے ہڈ مضبوط ہوچکے ہیں۔ مجھے بہت کچھ لکھنا ہے “۔
” خاک لکھنا ہے تجھے ۔ تم اس صدی کی سب سے واہیات رائٹر ہو ، کمزور اور Un-natural “۔
” ہاں، سچ ہمیشہ واہیات ہی لگتا ہے ۔ تم Un-natural رائٹر ہو اس لےے تمہارا رہن سہن بھی Un natural ہے ۔ جس طرح زندگی میں پانی، روٹی ، کپڑا گھر ضروری ہے ۔ اسی طرحMaleکے لےے Female اور Female کے لےے Male۔ چونتیس برس کی ہوگئی ہو۔ بتاﺅ اور کتنا وقت تنہا رہوگی؟ تم ادھوری ہو ، اس لےے تمہاری تحریریں بھی ادھوری ہیں“۔ وہ قہر آلود نگاہوں سے اسے گھورتا ہے۔
” کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟“۔
” ہاں ۔ بھلا تم مردوں سے اتنی الرجک کیوں ہو؟ جس طرح سب عورتیں خراب نہیں ہوتیں اسی طرح سب مرد بھی بُرے نہیں ہوتے“۔
”……..“۔ وہ آنکھیں پھاڑے اس کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔
” ٹھیک ہے، میں اشتہاری فلموںکا چھوٹا ایکٹر ہی سہی، لکس نِرالا لکس کرنے والا۔ لیکن میں نے تم جیسے ہزاروں رائٹرز کو پڑھا ہے ۔ تم نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پورے کنبہ کی تباہی کی ذمہ دار ہو۔ تمہارے رشتہ دار ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ تم اگر کسی بینک میں منیجر ہی ہو تیں تو آج تمہارے پاس کار ہوتی ، بنگلہ ہوتا“۔
” تم تو یوں کہہ رہے ہو جیسے خود بڑے گریگوری ، مارلن برانڈو، لنکا سٹر یا دلیپ بن گئے ہو۔ ایک نہیں چار شادیاں کےے بیٹھے ہو“۔
” ٹھیک ہے ، تم ٹی وی کے لےے سکرپٹ لکھو، میں کام کرتا ہوں ۔فن اور آرٹ کی دنیا کا ہر آدمی پیسوں کے لےے نہیں بلکہ فن کے لےے زندہ رہتا ہے۔ بہترین آرٹسٹ سکرپٹ کا محتاج ہوتا ہے اور شادی…….. شادی کے لےے ایک بمباسٹک لڑکی میری نظر میں ہے“۔
”!Really“ وہ ایک ہی لمحے میں اپنے تمام دکھ درد بھول سی جاتی ہے اور بڑی محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتی ہے۔ جیسے اسے اپنے کانوں پہ اعتبار نہ آرہا ہو۔
” تو پھر ٹھیک ہے، جس دن تم شادی کرو گے، اس دن میں بھی کنواری نہیں رہوں گی“۔
” میری بات مان لو، اسی لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ اس کو میں نے ہی تیار کیا ہے ، اس کی ہمت بڑھائی ہے ۔ ورنہ وہ تو چھپ چھپ کر تمہاری راہیں دیکھا کرتا تھا“۔
” کیا !؟“۔
” ہاں“۔ وہ مسکرادیتا ہے ۔
” سوری جینٹلمین ! اس لڑکے کے ساتھ صرف دوستی رکھی جاسکتی ہے۔ شادی ہر آدمی کا ذاتی مسئلہ ہے“۔
” قسم قرآن کی ! ایسا شاندار لڑکا تجھے پوری روئے زمین پر نہیں ملے گا“۔
” میں نے کہا نا، میرا سر مت کھاﺅ۔ میں شوہر ڈھونڈنے کے معاملے میں شیر ہوں“۔وہ تھک ہار کر کہتی ہے، کیا تم شاپنگ کے لےے نہیں جاسکتے؟ مجھے تنہائی چاہےے“۔
” جاتا ہوں، جاتا ہوں ۔ مری کیوں جارہی ہو……..؟ میں نے کہا خواہ مخواہ اپنے آپ کو لکھنے کی مشین مت سمجھو۔ تم لکھ لکھ کر اپنے آپ کو تباہ کرچکی ہو۔ ایک خواب آور گولی لے کر سو جاﺅ۔ میں کوئی اچھی سی فلم دیکھ کر لوٹ آﺅں تو پھر تم اپنی ماں کے پاس چلی جانا ۔”Remember, No writing, Okay“۔
”O Kay“ وہ دھیرج کے ساتھ آنکھیں موندے، نرم تکیہ کو سر کے نیچے سہلاتے ہوئے کہتی ہے۔
” واہ ! تم تو پہلی رات کی دلہن کی طرح سیج پر روٹھ بھی گئیں ! دروازہ اندر سے بند کرنے کے لےے کیا تمہارے باپ کا نوکر آئے گا؟ ارے بھائی ! زمانہ خراب ہے ، یہاں پانچ برس کی بے بی پردس دس آدمی چڑھ جاتے ہیں۔ میں رات کے دس بجے سے پہلے نہیں آﺅں گا“۔ وہ تیزی کے ساتھ سیڑھیاں نیچے اُتر جاتا ہے اور باہر والے دروازے کے بند ہونے کی تیز آواز سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔
وہ اٹیچ باتھ روم کے دروازے کو دیکھ کر اپنا سر کُھجاتی اور نیچے جا کر بیرونی دروازہ بند کرکے اوپر آجاتی ہے اور پھر گھومتے پھرتے قمیص اتارتی جاتی ہے نہا کر ٹھنڈا ٹھار ہوکر سونے کے لےے ۔ اور کمرے میں ایئر کنڈیشنر اور پنکھے کی آوازوں کے ساتھ سیٹی بجنے کی سُریلی آوازیں گونجنے لگتی ہےں اور ریڈیو پر گیتا کی آواز میں گیت۔
” اپنے پہ بھروسہ ہے ، اک داﺅ لگالے“۔
گونجتا رہتا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے