کتنی عجیب بات تھی کہ بصراں نے اس ننھے سے وجودکو فٹ پاتھ پر جنم دیا تھا ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا اور اس پر دُور میونسپلٹی کے بلب سے آنے والی میٹالی روشنی بصراں کے وجود پر پڑرہی تھی۔ دائی کو اندھیرے میں بڑی تکلیف ہورہی تھی اور بچہ بھی پیدا ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا ۔دائی نے غصہ میں کہا ،” حرام کا بچہ جننا بھی اتنا آسان تو نہیں ہے ناں“۔ بصراں تکلیف اور شرمندگی کی شدت اور بدنامی کے خوف سے چیخی نہ جواب دے سکی۔
سرد رات کی سرد ہوا کے باعث اُس کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔ کبھی کبھی ہلکی سی کراہ نکل جاتی ۔ فٹ پاتھ پر سوئی فقیرنیوں اور دوسروں نے گردنیں اٹھا کر بصراں کی طرف دیکھا اور اندھیرے میں ایک آواز ابھری:
” بصراں! کیا پیدا ہوا ؟ “۔
” ٹھینگا“۔ دائی نے غصہ میں پھنکارا۔
” دیکھنا بیٹی جنمے گی “۔ دوسری آواز ابھری۔
” وہ بھی اپنی ماں کی طرح ہی ہوگی“۔
بصراں کی تکلیف اور شرمندگی کی شدت کا احساس مزید بڑھ گیا۔ آہستہ آہستہ پھر خاموشی چھاگئی۔
دائی نے بھنبھناتے ہوئے کہا، ” ایک تو اندھیرا ہے ، کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا ہے ……..“۔
” گناہ اندھیرے میں ہی ہوتے ہیں۔ روشنی ہوگی تو پوری دنیا دیکھے گی “۔ اندھیرے میں کسی نے جواب دیا ۔
” خالہ! ماچس جلاﺅں؟“ بانھے نے بیٹری کا وہ اَدّھا جو فٹ پاتھ پر پایا تھا ، جلاتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں ، بیٹے! جلاﺅ تو ذرا“۔ دائی نے جواب دیا۔
” نہیں، مجھے شرم آرہی ہے “۔ بصراں نے احتجاج کیا۔
”واہ! اسے شرم آرہی ہے !! منہ کالا کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟“۔ بصراں کے جواب دینے سے پہلے ہی دانہ جلا ، روشنی ہوگئی۔ بانھے شہدے پن کے ساتھ تیلیاں جلاتا رہا۔ اُس نے شرم کے مارے آنکھوں پر بازو رکھ دیا اور جب بچے کے رونے کی آواز ابھری تو وہ چونک اٹھی۔ بازو اٹھا کر دیکھا ، دائی کی گود میں ننگا اور چھوٹا سا وجود تھا جو غُوں غُوں کررہا تھا ، جیسے اپنے آنے کی اطلاع دے رہا ہو۔ فٹ پاتھ پر سوئے اندھے، لولے، لنگڑے اور بیمار جسم گھسٹ کر قریب چلے آئے، ” کیا ہوا ؟ کیا جنما؟“۔ ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں۔
” لڑکی! “ دائی کی آواز بصراں کو چیرتی چلی گئی۔ وہ تو اُس کے رونے کی آواز سے ہی سمجھ گئی تھی کہ لڑکی ہوگی۔ کوئی کپڑا تک نہ تھا کہ اُس معصوم وجود کو لپیٹا جاتا۔ بصراں خود بھی تو نیم عریاں تھی، اس کے کپڑے بھی دھجیاں دھجیاں تھے۔ جو پائی پائی بھیک مانگتی، وہ پیٹ کا دوزخ بھرنے میں خرچ ہوجاتا ، اس کے لےے کہاں سے لاتی۔معصوم وجود سردی میں کانپ رہا تھا۔ کسی نے راہ میں پڑے کاغذ اُٹھائے اور اس کی بیٹی کو ان میں لپیٹ دیا۔وہ کاغذوں کے بَل پر کچھ دیر کے لےے خاموش ہوگئی۔
” اب اس کا کیا کروں؟“۔ دائی نے بصراں کے کان میں سرگوشی کی۔ بصراں چونک اُٹھی ۔ اُسے تو پتہ بھی نہ تھاکہ اس کا باپ کون ہے ؟۔ بہت سارے تھے؟ سیٹھ عمر بھائی، وڈیرہ جمال خان ! رئیس اللہ دتہ ! تھانہ دار! پولیس کا سپاہی ! چپڑاسی ! دکاندار ! چمکتی موٹروں والا ! بڑے بنگلہ والا اور پتہ نہیں کتنے تھے۔ ہر رات نیا راہی ۔ پتہ نہیں یہ کسی کی دَیا تھی!؟۔
برسات کی راتوں میں جب فٹ پاتھ پر ہڑ بڑی پھیلتی اور ہر ایک اپنا آپ چھپانے کے لےے چھپریا سایہ ڈھونڈتا، تب ان بیمار جسموں کو کہ جن سے سڑاند آتی، کوئی سر چھپانے کی جگہ تک نہ دیتا۔ ایسی راتوں میں اُس کے جوان وجود کو ٹھکانہ مل جاتا، اس کے بدلے میں اُسے اپنا آپ بیچنا پڑتا ۔ کئی دن مانگتے مانگتے کچھ بھی نہ ملتا، تب بھی وہ اپنا بدن بیچنے پر مجبور ہوجاتی اور پھر ہر روز چند ٹکوں کے عوض نئے نئے گاہکوں کی بانہوں میں ہوتی۔ اس کا کوئی نہیں تھا۔ اس نے جب آنکھ کھولی تھی تو وہ فٹ پاتھ پر رہتی اور بھینک مانگتی تھی۔ اُسی فٹ پاتھ پر آج بھی اس کی زندگی گزرتی ہے ۔ اُس کا ماضی یا مستقبل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی حال ہے۔ وہ تھی اور زندگی تھی ۔ کبھی فٹ پاتھ کے پتھروں پر تو کبھی عالیشان بیڈ رومز میں۔ لیکن کیا اس طرح بھی ہوگا؟ ۔یہ تو اسے پتہ ہی نہ تھا اور آج جب اس کے مسلے ہوئے وجود سے ایک نئے وجود نے جنم لیا تو وہ سوچنے لگی کہ اس کا مالک کون ہے ؟ لیکن اس کے سامنے تو پوری پلٹن تھی ، کس کی شناخت کرتی۔
” اسے کچرہ کے ڈرم میں پھینک دو “۔ کسی نے مشورہ دیا ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سب اسے تکے جارہے تھے اور وہ آنکھیں بند کےے پڑی تھی۔ وہ خاموش ہوگئی ۔ کچھ اب تھک چکے تھے اور گھسٹ کر واپس اپنی جگہ پر چلے گئے۔ دو پولیس والے گشت کرتے ہوئے سیاےوں کی طرح گزر گئے۔ ان سب کو جیسے سانپ سُونگھ گیا ۔ اگر پولیس والوں کو پتہ چل جائے تو سب کو بڑے گھر لے جائیں۔
” گلا دبا دوں؟“ دائی نے سرگوشی کی۔
” اَدھ موئی توپہلے سے ہی ہے۔ مار ڈالو“۔کسی نے سرگوشی کی ۔ بصراں خاموش تھی۔ نئے وجود نے آہستہ آہستہ غُوں غُوں کی آواز بلند کی تو سب چونک اٹھے کہ جیسے کوئی بھوت آگیا ہو۔ پولیس والوں کے جوتوں کی کھٹ کھٹ سن کر دائی نے فوراً بچی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔
” آج تو یقینا مارے گئے…….. بصراں ہماری روزی روٹی پر لات مارے گی “۔ کسی نے غصہ میں کہا۔ وہ خاموش رہی ، کسی اعلیٰ ہستی کی طرح خاموش۔
” اب کچھ پُھوٹو بھی …….. پیدا ہوئی ہے تو اسے کہا ں رکھو گی ؟“۔ مختلف سرگوشیاں اس کے کانوں میں پڑیں۔
” چپ چاپ گلا دبا دو اس کا “۔ کسی نے کہا ۔ دائی نے دزدیدہ نگاہوں سے عزرائیل کی طرح بصراں کی طرف دیکھا۔ بصراں دولخت ہوچکی۔ اُس نے اچانک کوّے کی طرح جھپٹا مار کر بچی کو اُچک لیا اور سب کے سامنے کسی بھی شرم و حیا کے بغیر چھاتیوں سے پھٹی چولی ہٹا کر اسے دودھ دینے لگی اور بچی بھی چُو س چُوس کر پینے لگی۔ سب نے حیرانی کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بصراں ہاتھوں کا سہارا لیتی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی۔ اس کے نیچے گندی نالی بہہ رہی تھی ۔ بصراں کی چیتھڑا قمیص اس میں بھیگنے لگی، لیکن اس کے جذبات نے وہ پلٹا کھایا کہ وہ پل بھر میں ہر چیز سے بے نیاز ہوگئی اور اُس کی تخلیق اس کی چھاتیوں سے چمٹی ہوئی تھی اور یوں دودھ پی رہی تھی کہ جیسے پھر کبھی ملنا ہی نہ ہو۔ خاموشی میں سڑپ سڑپ کی آواز بھر رہی تھی۔ سب کی حیران پھٹی نگاہیں بصراں پر تھیں۔
’ ’ بصراں ! کیوں ہمیں بے گھر کرنے پر تُلی ہوئی ہو ۔ پولیس دیکھے گی تو ہمیں اُجاڑ کر رکھ دے گی “۔کسی نے خوف کا اظہار کیا سب دوبارہ جمع ہوگئے۔ اس سوال کے جواب کے لےے سب نے بانھے کی طرف دیکھا۔فٹ پاتھ بانھے کی جاگیر تھا ۔ وہ سب سے چار چار آنے لیتا اور پولیس کو ٹال دیتا۔ اس کا گزارہ بھی انہی پیسوں سے ہوتا ، جن سے وہ بھنگ، بیڑیاں اور دال روٹی کرتا۔ کبھی قسمت جاگ اٹھتی تو تین چار جوئے میں جیت لیتا ورنہ فٹ پاتھ کی کمائی بھی ہار آتا۔
بانھے نے جو سب کو اپنی طرف دیکھتے پایا تو اسے اپنی جاگیر خطرہ میں پڑتے نظر آئی۔ بانھے نے تحکمانہ انداز میں کہا، ” بصراں! تمہیں اگر یہاں رہنا ہے تو اس کتے کی بچی کو ڈرم میںپھینک دو، ورنہ تم بھی یہاں سے چل دو “۔ اس کی آنکھوں میں دنیا جہان کا غصہ بھر آیا۔ بصراں کا دل لرزا اٹھا۔ وہ سب بانھے کو تحسین بھرے اندا ز میں دیکھ رہے تھے۔
بصراں دیوار کا سہارا لےے، سر جھکائے اپنی تخلیق کو دیکھ رہی تھی۔ اُس نے سوچا کہ اس بھرے پرے جگ میں ،میں اپنا پیٹ نہیں پال سکتی تو اس کا کہاں سے پال سکوں گی؟ ۔پل بھر کے بعد ممتا کے جذبات اس کی خود غرضانہ سوچوں پر حاوی ہوگئے۔
تھوڑی دُوری پر پولیس کی سیٹی نے خاموشی کا سینہ چیڑ دیا ۔ بانھے اور دوسرے اسے تک گُھورے جارہے تھے ۔
” بتاﺅ کیا کہتی ہو ؟“۔ بانھے نے کسی جاگیر کی طرح آواز دی۔
” یہ فٹ پاتھ سرکارکی ہے ، تمہاری تو نہیں“۔ بصراں نے بے نیازی سے کہا۔ وہ بڑی کمزوری اور تکلیف محسوس کر رہی تھی پھر بھی پہاڑ کی طرح اٹل ہوگئی۔ حالانکہ اس کا انگ انگ دکھ رہا تھا ، کتنی تکلیف اٹھائی تھی اُس نے اِس بچی کی تخلیق کرتے ہوئے ۔ تو پھر کس طرح اپنی تخلیق کو پھینک دے۔
” سرکار کی ہے تو جا کر سرکار سے لے “۔یہ کہہ کر بانھے نے اس کا بازو پکڑا اور جھٹکا دیا تو وہ اچھل کر سڑک پر جاگری، تارکول کی سیاہ سڑک پر ۔ اس کا بیمار وجود تڑ پ اٹھا۔ اُس کی بیٹی اس کی بانہوں میں بلونگڑے کی طرح میاﺅں میاﺅں کررہی تھی۔ بصراں کے سر کو چکر آگیا، لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی، بیٹی کو گود میں لیا، سر اٹھا کر دیکھا، ہر کوئی اپنی مقبوضہ جگہ کی طرف کھسکتا جارہا تھا ۔ صرف بانھے ہی جما کھڑا تھا اور اسے گُھور رہا تھا۔ وہ اندھیری رات میں بیٹی کو لے کر نکل آئی۔ سردی کی لہر میں اس کے وجود سے سنسناتی گذر رہی تھیں۔ اُس نے ایک اُداس نظر فٹ پاتھ پر ڈالی، سب یوں بیٹھے ہوئے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اسی فٹ پاتھ پر اس کی زندگی کے کئی برس گزرے تھے اور آج جیسے ایک آمر کے حکم پر جلا وطن ہورہی ہو۔صرف ایک گناہ کے سبب ، جو اس زمانہ میں ہر ایک کرتا ہے ، لیکن عذاب کوئی کوئی اٹھاتا ہے۔
یہی گناہ جب گھر کی مقدس چار دیواری میں ہوتے ہیں ، تب شرافت اور عزت کا بھرم رکھنے کے لےے یوں دبا دےے جاتے ہیں کہ باہر کچھ بھی نہیں نکلتا۔ یہی گناہ طوائف کے گھر میں جنم لیتے ہیں تو وہ انہیں پال پوس کر بڑا کرتی ہے ، کیونکہ وہ اس خود ساختہ سماج سے ڈرتی نہیں ۔ شاید معاشرہ اس سے ڈرتاہے کہ وہ معاشرہ کے ٹھیکہ داروں کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی ہے ۔ لیکن وہی گناہ جب فٹ پاتھ پر جنم لیتا ہے، تب جسمانی اور روحانی عذاب بن جاتا ہے ۔ آج بصراں وہی جسمانی اور روحانی عذاب برداشت کررہی تھی۔
وہ قبر سے نکلی لاش کی طرح جس کا گوشت اور چمڑہ کیڑے کھالیتے اور ہڈیاں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اُس کا سر چکرانے لگا۔ میونسپلٹی کا بلب سورج کی طرح جلنے لگا۔ وہ کہاں جارہی تھی ؟ اسے کچھ پتہ نہ تھا ۔ گندی گلیاں پار کرکے بندر روڈ پر کھڑی ہوگئی ، جو موت کی طرح خاموش تھا۔ کبھی کبھار کوئی موٹر تیزی کے ساتھ اس کے سامنے سے گزر جاتی۔ اس نے سوچا ، ” کاش! مجھے پتہ ہوتا کہ اس کا باپ کون ہے ؟“۔
وہ بندر روڈ کی کشادہ سڑک پار کرتے چونک اٹھی۔ پولیس والا اسے گُھور رہا تھا۔ اس نے بڑی حیرت کے ساتھ اس کی گود میں موجود خون آلودہ بچے کی طرف دیکھا اور پیشانی پر بَل ڈالتے ہوئے پوچھا:
” کہاں جارہی ہو؟“۔
وہ خاموش۔
” بھاگ آئی ہو؟“۔
جواب خاموشی۔
” یہ خون آلود بچہ کس کا ہے؟“۔
” میرا “۔ اُس نے نحیف آواز میں کہا۔
” جھوٹ بول رہی ہے۔ یہ نوزائید ہ ہے “۔ دوسرے نے درمیان میں کہا۔
” دو گھنٹے ہوئے ہیں کہ میں نے اسے جنم دیا ہے “۔ اس نے جواب دیا ۔ پولیس والوں پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔
” بھُتنی تو نہیں ہوناں؟“۔ ایک نے حیرت سے پوچھا۔
” بچے جننے والی بُھوتنی ہوتی ہے کیا؟ “۔ اُس نے طنز کیا۔ وہ دونوں شرمندہ ہوگئے۔
” حرامی ہے ؟“۔ ایک نے سوال کیا۔
” میں اور اس کا باپ دونوں حرامی ہیں، یہ حلالی ہے “۔ نئے وجود کو دی گئی گالی اس سے برداشت نہ ہوئی۔ ان دونوں کو یقین ہوگیا کہ بچہ حرام کا ہے۔
” پرائیویٹ ہو؟“۔ ایک نے سوال کیا۔
اس نے سوچا کہ جواب دوں لیکن خاموش رہی۔
” نہیں، فقیرن ہے “۔ دوسرے نے اس کے چیتھڑوں کی طرف دیکھ کر کہا اور وہ ان دونوں کے الفاظ کے درمیان پِس رہی تھی اورانہیں جیسے ایک تماشا ہاتھ لگا۔
” مجھے جانے دو“۔ وہ بھبھنائی۔
” ایک شرط پر “۔ وہ اپنے فرض کے کپڑے اتار کر ایک پَل میں ننگے ہوگئے۔
” میں بیمار ہوں“۔ اُس کے شہدے پن کو سمجھتے ہوئے بصراں نے حقارت سے انہیں دیکھا اور زمین پر یوں تھوک دیا جیسے یہ تھوک تمام کائنات پر مل رہی ہو اور وہ آگے بڑھ آئی۔ وہ پہاڑ کی طرح اٹل محسوس ہورہی تھی۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی لیکن اس لمحے بصراں نے اپنے آپ کو ٹوٹتے بکھرتے محسوس کیا۔
سردی کی ٹھنڈی لہر سے اس کی بیٹی بلند آواز رونے لگی ۔ اسی رونے میں بصراں کا وجود ڈوبتا چلا گیا ۔ اس معصوم سے وجود کے لےے اسے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑی تھیں۔اس کی ٹانگیں دکھ رہی تھیں، دماغ چکرا رہا تھا اور دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ۔ اسے یوں لگا کہ وہ وہیں گر جائے گی ، کسی پرانی عمارت کی طرح۔
اس کی بیٹی کا رونا ویران سڑک پر گونجنے لگا ۔ پتہ نہیں کیوں اس کے اس طرح رونے سے وہ سہم گئی۔چلتے چلتے اُس کے قدم کانپنے لگے۔ وہ ڈینس ہال کے فٹ پاتھ پر نڈھال ہوکر گر پڑی۔ اس نے آنکھیں بند ہوتے وقت اپنی بیٹی کی جگر پھاڑ دینے والی چیخ سُنی جو خاموشی میں گونج بن کر لہراتی چلی گئی۔
سورج نکل کر آسمان پر چمکنے لگا۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ڈینس ہال کے فٹ پاتھ پر پڑی تھی۔ نحیف و نزار ۔ اس کے سامنے دو تین آنہ پڑے ہوئے تھے ، لیکن وہ وجود نہیں تھا جس کے لےے اس نے لمبا سفر کیا تھا۔اس کا ہر عضو خستہ ہوچکا تھا ۔ فٹ پاتھ پر صرف لہو کے داغ تھے جو سورج کی کرنوں میں مزید چمک رہے تھے۔
منزل کی طرف جاتے درمیان میں لٹ چکے مسافر کے احساس کی طرح وہ بھی اپنے آپ کو لٹتا ہوا محسوس کررہی تھی۔ اُس نے ہانپتے کانپتے دیوار کا سہارا لیا ، اُٹھی ،لرزتا ہوا پیر آگے بڑھایا، تب اس کی نظر بائیں گلی کے فٹ پاتھ والے کچرے کے ڈھیر پر دھری بچی کی لاش پر پڑی جسے کتے سونگھ رہے تھے اور راہگیریوں دیکھے گزر رہے تھے کہ جیسے یہ روز کا تماشا ہو ۔
اس نے ایک گہری نظر لاش پر ڈالی اور اپنے پرانے فٹ پاتھ کی طرف لوٹ گئی۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے