جب اسکے ہاں چو تھی بےٹی پیدا ہوئی تو کئی لوگ اسے پُرسہ دےنے آئے۔پانچوےں بیٹی کی پیدائش پر اسکا شوہر صابر حسین بھی خوب دھاڑےں مار مار کے روےا اس لئے نہیں کہ اس کے ہاں پانچوےں بار رحمت کی موسلا دھار بارش اتنی زور سے پڑی تھی کہ سےلِ بےکراں کی طرح جو سامنے آئے بہا لے جائے بلکہ اس لئے کہ جےسے اب وہ انسانوں کے اس جنگل مےں واحد نادےدہ اور قابلِ ترس جانور ہو جس کو کسی نے چاروں ہاتھ پاﺅں باندھ کر کسی درخت سے اُلٹا لٹکا دےا ہو اور پاس سے گزرنے والا ہر انسان اسے قابلِ رحم نظروں سے دےکھتا ہو اور اب کی بار تو ےہ پانچوےں رسی اسے اپنی گردن مےں محسوس ہوئی تھی۔ےکا ےک اسکا جی چاہا کہ اپنے لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھے اور اپنے بوجھل سر کو کسی آہنی سلاخ سے کچل دے۔ےا اور کچھ نہیں تو اندر سے آتی ہوئی اس باریک اور پتلی آواز والی رحمت کی پو ٹلی کو اُٹھائے اور زور سے گھما کر دور کہیں کسی نادےدہ سےارے کی اور اچھال دے۔شاےد وہ اےسا کر بھی دےتا کہ اچانک اُسے اپنے کاندھے پر دباﺅ سا محسوس ہوا۔
”بس کر بھےّا لوگ دےکھ رہے ہےں ۔۔۔چل اُٹھ۔۔پرلے کمرے مےں چل۔۔“سےاہ اور سفےد بالوں کے سر کو خوب تےل سے چپڑ کر کس کے گتھی گئی چٹےا والی ےہ عورت اپنے لب و لہجے سے ہی نہیں شکل و صورت سے بھی کافی ہوشےار اور موقع شناس معلوم ہوتی تھی۔
گھر مےں آنے والے مہمان اگرچہ نشستن برخاستن کے لئے ہی آتے تھے لےکن اس مختصر سی مدّت مےں بھی اپنے خاموش لبوں مگر بولتی آنکھوں سے افسوس اور صدمے کے تاثرات عےاں کر جاتے۔اےک بی بی نے تو بڑی لجاحت اور دلجوئی سے کہا۔”حوصلہ کر فاطمہ ۔۔شاےد رب کی ےہی مرضی تھی۔“اور فاطمہ کو ےوں لگا کہ اس نے زندگی کو نہیں موت کو جنم دےاہو۔اس نے اےک مردہ اور بے جان سی نظر سے اپنے ساتھ لےٹے اس ننھے اور معصوم وجود کو دےکھا جو اپنی پیدائش پر ہونے والے اس پُر جوش استقبال سے بے خبر اےک جہانِ غفلت مےں محوِ خواب تھا۔جس کے لئے خود اسکے اپنے دل مےں مامتا کا کوئی ٹھاٹھےں مارتا سمندر موجود نہ تھا ہاں اگر کوئی چےز تھی توکنڈلی مارے بےٹھا ہوا خوف کا سانپ جو ہر تھوڑی دے بعد اسے ڈس لےتا ےہ سوچ کر کہ” جانے صابر حسےن اس بار مےرے ساتھ کےا کرتا ہے؟“اور وہ اندر تک دہل جاتی۔
ویسے تو تیسری بیٹی کے بعد سے ہی صابر نے خود کو مظلوم اور ستم رسیدہ سمجھنا شروع کر دیا تھا،مگرچوتھی کی پےدائش پر تو اس نے فاطمہ سے بولنا چالنا بھی تقریباً چھوڑ دےا تھا،یہ اور بات کہ جب اس نے یہ بات اپنی چھوٹی بھابھی کو بتائی تو اس نے ہم دردی کی بجائے مسکراتی نظروں سے اس کے پانچویں مرتبہ پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھنا شروع کردیا تھا،وہ اسے کیسے بتاتی کہ وہ تو بار بار فیل ہو جانے والے بچے کی طرح پھر ایک دفعہ کمرہ امتحان میں دھکیلی گئی تھی۔ حالانکہ تنہائی کی ملاقاتوں کو بار آور کر سکنے والے لمحوں میں بھی وہ اپنی چبھتی ہوئی طنزےہ باتوں اور طعنوں سے اسکی روح کو کھرچ کھرچ کر زخمی کر دےتا۔اسکی نسوانےت مےں سو سو کےڑے نکالتا جو ہر بار بےٹی کی صورت مےں عود کر آجاتی تھی۔آخر دنےا مےں ہزاروں لاکھوں عورتےں تھےں جو بےٹا جنتی تھیں تو پھر اسکی کوکھ مےں کونسا عےب تھا جو وہ بیٹے کے نام کا تاج اپنے سر پر نہیں پہن سکتی تھی۔ےہ کانٹوں بھری زندگی آخر اسی کے لئے بطورِخاص کےوں بچھائی گئی تھی۔اس نے آہوئے صحرا کی طرح خود کو اسی دشت مےں بھٹکتے دےکھا تھا۔اسکی معصوم بچےاں باپ کی شکل دےکھتے ہی سہم جاتی تھےں۔اس کے غصّے اور نفرت کی دھتکار نے تو انھےں بہت پہلے ہی باپ کے وجود سے ڈرنا سکھا دےا تھا۔اگر کبھی بچےوں کے لئے اس کے دل مےں کوئی نرم گوشہ کسمساتا تو وہ بھی اس حد تک کہ وہ کہ وہ خزےنہءخداوندی مےں سے کوئی نعمت انکی طرف حقارت سے اچھال دےتا جسے وہ سہمی ہوئی بلےوں کی طرح اسکے جانے کے بعداپنے بلوں سے باہر آکراُٹھا لےتےں۔۔۔وہ تو کب کا دوسری شادی کر چکا ہوتا اگر اسکے باپ نے مرنے سے پہلے اپنی مختصر سی جائداد اسکے نام کرتے ہوئے وصےّت مےں دوسری شادی نہ کرنے کی شرط نہ رکھی ہوتی۔شاےد اسکا باپ اس سے بڑا جواری تھا۔
تبھی اچانک اس ننھے وجود نے پوری قوت سے چےخ چےخ کر اپنے ہونے کا احساس دلاےا اور فاطمہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اٹھا کر چھاتی سے لگا لےا۔
©©©©”ےہ گڑےا بہت پےاری ہے نا ماں ۔۔؟“تبھی اسے ےاد آےا کہ اس بار تو اس کی ساس نے بچےوں کی ساری گڑےاں چھےن کر آگ مےں جھونک دی تھےں۔”کم بختو ہر وقت گڑےوں کا کھےل کھےلتی ہو اس لئے تو گڑےا پہ گڑےا چلی آتی ہے۔۔“اور وہ معصوم روتی رہ گئیں۔اسے لگا کہ جےسے اسکی ساس نے گڑےا نہیں بلکہ اس کی قسمت کو آگ مےں جھونکا ہو۔مگر ےہ قسمت اےسے ارزاں داموں مےں کہاں پیچھا چھوڑنے والی تھی۔
”اماں اُٹھو نا۔۔۔بہت بھوک لگی ہے کھانا دو نا ۔۔“چھوٹی نازو نے ماں کا پلّو کھےنچا۔
”اماں ہم نے آج کچھ نہےں کھاےا ہے۔۔“بڑی مدےحہ منمنائی۔۔۔”آج شبّو پھوپھی نے جب اپنے بچوں کو کھانا دےا تو ہم نے بھی مانگا تھا انھوں نے کہا جاﺅ منحوسو اپنی ماں کا کلیجہ کھا لو۔۔“وہ سہمی سہمی بولی۔
اس کے دل مےں دھکّا سا لگا۔روےّے اےسے بدل جاےنگے اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔وہ ضبط کرتے ہوئے بڑی مشکل سے جی کڑا کے اُٹھی۔آہستہ آہستہ دےوار کا سہارا تھامتی ہوئی وہ رسوئی کی جانب بڑھی۔پورے گھر مےں موت کا سا سکوت تھا۔۔۔کےا تھا کتنی عورتےں زچگی مےں مر جاتی ہیں وہ کےوں نہ مری آخر مو ت ہر بار اسے زندگی کی طرف دھکّا کےوں دے دےتی ہے۔اسکی تو ساری عبادتےں ساری رےاضتےں بھی اکارت گئےں تھےں ۔آخر سب مل کر اسے ایک بےٹا نہےں دلوا سکتی تھےں۔
تبھی اس نے سارے خےالات کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے بچےوں کے لئے کھانا نکالا اور انھےں پےار سے چمکارا۔۔وہ بھوکوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑےں ۔ اس نے غور سے انکے سہمے اور وےران چہروں کو دےکھا ۔اس عمر کے بچے تو کبھی بھی اےسے نہیں ہوتے۔اسکا دل بلکنے لگا۔اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے گالوں پہ بہتے اس سےال مادے کو صاف کےا اور بچےوں کو خود سے بھےنچ لےا۔
آج ہفتہ ہونے کو آےا تھااس نے صابر حسےن کی شکل تک نہیں دےکھی تھی۔دن مےں اےک دو بار باہر سے اس کی آواز آ جاتی تھی جس سے فاطمہ کو اس بات کا تو احساس ہو گےا تھا کہ اب وہ اپنا زےادہ وقت اس جہنم سے باہر ہی گزار کر آتا تھا۔اسکی جھرےوں زدہ چہرے والی بوڑھی ماں جھولےا ںاُٹھا اُٹھا کے آسمانوں کے خالق سے اسکی خوشی مانگتی جو اب صرف اےک بےٹے سے مشروط تھی۔چاروں لڑکےاں ہر وقت ساتھ والے کمرے مےں دبکی رہتےں۔نہ شور نہ شرابا،نہ لڑائی نہ جھگڑا۔شاےد گھر کے باقی مکینوں سے ملنے والی نفرت کی سرد لہر نے انکے بچپن جےسے جذبات کو بھی منجمد کردےا تھا۔
آہستہ آہستہ اذےت دےتا وقت دو اور سال کاٹ گےا۔بے اعتنائی اور سرد مہری کے پروان چڑھتے روےوں کے باوجود وقت اور صیاد نے پھر اسکی کوکھ مےں اےک بیج لا کر پھینک دےا اور ایک ننھا پودا پروان چڑھنے لگا۔پتہ چلنے پر گھبراہٹ مےں جو پہلی چےز سمجھ مےں آئی وہ سکینہ دائی کی منتےں تھیں کہ کوئی اےسی دوائی دے دے کہ بچہ ضائع ہو جائے مگر جب سکینہ دائی نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ استغفار کی تو اس کا جی چاہا کہ چھت سے کود جائے۔
اب کی بار تو اس نے کوئی دربار کوئی درگاہ نہ چھوڑی جہاں چادر نہ چڑھائی ہوےا جہاں ماتھا نہ ٹےکا ہو۔۔ہر طرح کے تعوےز بھی گھول کر پئے۔لب پہ چوبےس گھنٹے اےک دعا تسبےح کی طرح جاری رہتی۔۔”ےا اﷲ!اب کے بےٹا نہ ہو تو مےرا جنازہ اٹھے۔۔“شوہر کی بے اعتنائی اور سرد روّےہ دن رات چابک کی طرح اسکی کمر پر پڑتا اور وہ مرےل جانور کی طرح زندگی کی سڑک پردوڑنے لگتی ۔اور تےز۔۔۔اور تےز۔۔
پھر وہ وقت بھی آےا جب ایک بار پھر اس کی سات پشتوں کو تونبا جانا تھا،اس کے لئے حشر لگنا تھا۔اسکا گناہ ےا اس کا اجر اسکی زندگی کے ترازو کو کسی اےک سمت مےں جھکانے والا تھاگھر مےں پھر ہجوم لگنے لگا۔اسکی بچےا ں آنگن سے بھاگ کر کمروں مےں چھپ گئےں۔صابر حسےن کو خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گھر مےں ٹھہرے ےا کہیں دور بھاگ جائے۔
”فاطمہ حوصلہ کر۔۔۔“سکینہ دائی اسے حوصلہ دے رہی تھی۔
”تھوڑی سی اور۔۔۔ ہمت ۔۔اور حوصلہ۔۔۔“اس نے خود کو ڈھارس دی۔درد اتنا شدےد تھا کہ اسے لگا کوئی اسکی روح کو بھی ہولے ہولے چےر رہا ہے۔
”اگر پھر سے بےٹی ۔۔۔“اس کی ہمت ٹوٹنے لگی۔
”کےا پتہ اب کی بار ۔۔۔“اس نے اپنی ڈولتی سانسوں کو پکڑنا چاہا۔
”لےکن اگر۔۔۔“اسکی سانسسےں تےز تر ہو گئےں۔
”ہمت کر فاطمہ۔۔۔اور ہمت کر۔۔“سکینہ دائی زور سے چےخی۔
اچانک فضا مےں اےک چےخ گونجی۔۔اےک زور دار زندگی سے بھرپور آواز۔۔فاطمہ نے اپنے سرد ہوتے ہوئے حواسوں کو جوڑنا چاہا۔لیکن حوصلہ ٹوٹ رہا تھا۔۔ہمت چھوٹ رہی تھی۔۔
”فاطمہ اری فاطمہ دےکھ اﷲ نے تجھے کےسا پےارا بےٹا دےا ہے۔“دائی نے فاطمہ کی آنکھوں کے آگے بچّے کو فتح کے جھنڈے کی طرح لہراتے ہوئے کہا۔
مگر فاطمہ کے سر د جسم کی ادھ کھلی آنکھوں کی پتلی تو وہیں خوف کے اےک پل مےں ٹھہر گئی تھی۔ےوں جےسے وہ حشر کا بس یہی اِک پل دےکھنے تک زندہ تھی۔

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے