یہ فہمیدہ ریاض کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں1980کی شاعری شامل ہے۔اِس کو پڑھنا شروع کریں تو پہلا تا ثرتویہی ملے گا کہ اُس میںبھی شاعرہ نے ہند ی کی زبردست آمیزش کی ہے ۔گوکہ یہ آمیز ش جما لیا تی گزپر پورا تر تی ہے مگر فہمیدہ کے قارئین کا بڑا حصہ تو اُس خطے میں رہتا ہے جوہند ی سے زیادہ بلد اور عادی نہیں ہے ۔لہٰذا اِس کتاب کی اُس کی شاعری کا ابلاغ آدھا ہی ہوسکا ہے، اُس کے قارئین کا نصف تو اُسے پڑھ ہی نہ پایا۔
اگر اُس کی شاعری کا ارتقائی جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ یہاںشعوری طورپر مزیدمیچور ہوتی جارہی ہے۔ایسی خوبصورت فلسفیانہ باتیں اُس کی مزین و جمیل شاعری میں شامل ہورہی ہیں جوبہت زیادہ خوش آمدید کی مستحق ہیں۔

کیا تو بھی ……..

میری شاعری، تو بھی؟

منہ پھیر لے گی ؟ آنکھیں چرائے گی؟

کیا تو بھی نصیحتوں کے نقشین کٹوروں میں

بے حیائی اور آبروریزی کی نپی تلی خوراک پیش کرے گی ؟

میرے ہمدردوں اور خیر خواہوں کی مانند

جو اس تپتی دوپہر میں

اپنے خُنک کمروں میں محو آرام ہیں

فہمیدہ کے تخلیقی سفر پر نظر دوڑائیے تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے فکری تسلسل میں ہمہ وقت آگے کی جانب رواں دواں ہے۔ سرمایہ داری نظام کو مسترد کرنے کا اُس کا اولین طے کردہ مقصد روز بروز منطقی اور مدلل ہوتا جاتا ہے ۔ سرمایہ داری نظام جہاں رات رات کو جَن رہی ہے ،جہاں کی موسیقی محض چیخیں کراہیں ہیں، جہاں پیدائش کا عمل مسخ کردیا گیا ہے، جہاں بازاروں میں چمکتی درامدی اشیا کی شہوت چہار سو موجودہے ،جہاں شہر وں کے بے حرمت جسموں پر پلازوں اور مشینوں کے پھوڑے نکل رہے ہےں‘ جہاں حرامزدگی اور ایذارسانی کی رسی دراز ہے ، جہاں زندگی دلیل اور شاعری کے منہ پر تھوک رہی ہے۔میں اور آپ سرمایہ داروں سے نفرت کے ہزار جملے اور بے شمار کتابیں پڑھ چکے ہوں گے۔مگرفہمیدہ کا تجربہ بالکل انوکھا لگتا ہے۔ اُس نے سرمایہ دار کی تعیش بھری زندگی کو کس طرح لیا، ذرا دیکھےے:

اور چیتھڑے تو یہ اب بھی ہیں

کرسیوں سے بندھے ہوئے

ہر صبح کوئی پراسرار ہا تھ دیوار سے اگتا ہے

اُن سے اُن کی کرسیاں چمکا کر

انہیں پھر واپس باندھ دیتا ہے

کہ یہ دن بھرسرسراتے اور پھنکارتے رہیں

کیا راست باز، کھری بے لاگ شاعر ہے، کیا اچھی شاعرہ ہے ۔ کیا زبردست مشاہدہ ہے ۔وہ یہاں بس نہیں کرتی،اس نے ابھی اور کہنا ہے، کہتے رہنا ہے۔ایک اور جگہ دیکھےے:

تجوریوں پر براجمان سا ہوکار

گندی دھوتیوں کی گانٹھ میں باندھے بیٹھے ہیں

اور پیلے دانت نکالے

کھجار ہے ہےں پھوڑوں بھری رانیں

نوزائیدہ انسانیت کی عصمت دری کرنے کو بے تاب

پانچ ابواب میں منقسم کردہ یہ شعری مجموعہ مارشل لائی پاکستان کا واضح ترین اور سب سے زیادہ تشریح شدہ بیانیہ ہے۔ اس سے بہتر بیانیہ نہ نثر میں ممکن ہے نہ نظم میں۔” نہیں بیٹھی ہوں سمجھوتوں کے سائبانوں میں “ کی شاعرہ مثلاً اِس کے عدالتی نظام کے بارے میں یوں کہتی ہے۔

وکیل کا کیریکٹر پہلے دیکھےے:

کالے کوٹوں میں وکیل

منڈیروں پر کائیں کائیں کررہے ہےں

بھوکے بچے کے ہاتھ سے نوالہ جھپٹنے کو تیار……..

کاش وکیلوں کی تحریک کے دوران یہ صادق شاعری بھی اسی زور شور سے سنی سنائی جاتی جتنا اعتزاز احسن کی ریاست کو ماں بنانے والی فضول آرزو کو سنایا دھرایا جاتا رہا۔
اور پھر فہمیدہ کی تیز و عمیق مشاہداتی آنکھوں سے انہی عدالتوں میں دیمک زدہ منشی ، اہلکار اور افسر کا کرداردیکھےے:

افسروں کے بوٹوں تلے روز کچلی جاتی ہیں

بے اختیار ، بے بس کٹھ پتلیاں!

مگر …….. ان کے بس میں کچھ تو ہے

یہ تمہارا خون چو س سکتے ہیں

تمہارے فق چہرہ کو دلی مسرت سے بھانپتے ہیں

اور تخمینہ لگاتے ہیں……..

” کس میں لہو کی بوند بچی ہے !“

”اسے میں کس طرح چوسُوں!“

اور پھر وہ آپ کو اِس فرعونی عدالتی نظام کے اندر عوام سے عوام الناس سے ،خلقِ خدا سے ملواتی ہے :

کیا تم نے کبھی عوام کو دیکھاہے ؟

کیا تمہیں کبھی وہ

حکمراں کی تقریر

اور اخبار کی سرخی سے باہر ملا ہے ؟

اگر نہیں……..

تو کسی دن سٹی کورٹ آجاﺅ

اسی میدانِ حشر میں وہ پابہ زنجیر ایستادہ ہے

اور اُس پر

غنڈہ گردی، چار سو بیسی اور نقصِ امن کے مقدمات

زیر ِ سماعت ہیں

یہ تو تھا عدالتوں کا منظر نامہ ۔یہ اُس نے محض پڑھا نہ تھا، نہ کسی سے سن رکھا تھا۔ یہ تو خود اُس پہ بیتا تھا۔اُس نے خود اپنی انا پہ بھگتا تھا۔ وہ عدالتوں میں گھسیٹی جاتی رہی۔ آئیے اب اُس کی اپنی پیشی کا نظارہ دیکھےے:

میں نے شعر لکھا

اپنے آنسوﺅں سے !

بلک بلک کر لکھا

خون کی بوندوں سے نقطے ڈالے

اپنے گوشت کو چیر پھاڑ کر ریشے نکالے

اور انہیں قافیہ میں باندھا

بے بسی کے ناخنوں سے

میں نے اپنی ہتھیلی پر شعر گودا

اور تمہیں دکھایا

تم غلیظ ہنسی ہنس پڑے

” آہاہا…….. ننگی شاعری!“

تم نے کہا

اور میرے کلام سے فحاشی کرنے لگے

میں سر پٹکتی رہ گئی

میں سر پٹکتی رہ گئی

ان گیلے دعوت ناموں پر

جو بے حیائی سے مجھے بلا رہے تھے

تمول کی چربی پر پھسلنے کے لےے

اور تمہاری مرغن محفلوں میں جاگرنے کے لےے

ابھی کہاں؟ ۔ابھی تو اُس نے صرف اس نظام کو بیان کیا۔ اس کی سیاست ، اس کی معیشت اور اس کے عدالتی نظام کوبیان کیا۔ ابھی اُس نے اِس دوغلے سسٹم میں اپنی placing کرنی ہے۔توسنو:

میں جب شکست خوردہ تھی

حالات کے پنجے میں بے بسی سے اشکبار

تب تم میری داد دیتے نہ تھکتے تھے!!

لیکن اب……..

جب میں نے جھٹک دیا ہے ناطاقتی کو

اپنے بازوﺅں سے

اور موڑ دیا ہے حالات کا پنجہ

اپنی نہتی کلائی کے بل

جب میری جنم جنم کی حسرت نے

اپنی دھرتی کی محرومیوں کی جانب دیکھا

اور روتی ہوئی یوں اُن کے گلے جا لگی

جیسے بیٹی بچھڑی ماں سے لپٹ جائے

تم اتنے خوفزدہ ہوگئے ہو!

تم نے میرے پیچھے پولیس لگادی ہے !!

سمن اور وارنٹ جاری کرتے ہو!!

اپنے سارے خوف کی رسیوں کو بٹ کر

مقدموں کی پھانسی میرے سر پر جھلانے لگے ہو!!

آپ لاکھ آزاد عدلیہ بولیں، ” ریاست ہوگی ماں کے جیسی “ والی لفاظی کی جگالی کرتے پھریں ،نظام بدلنے کے بجائے ایک پی سی او والے جج سے من و سلوی مانگتے رہےں مگرسچی بات تو یہ ہے کہ ایک طبقاتی سماج میں ریاست ہمیشہ اقتدار والے طبقہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ریاست کبھی بھی ماں نہیں بن سکتی جب تک کہ خود اُس کی آنکھیں پھوڑنہ دی جائیں، اس کا دل نکال کر اُس میں عوام دوستی کا سٹیشن نہ بنایا جائے۔ ریاست پہ عوام کا قبضہ کےے بغیر ریاست ہمیشہ ڈائن رہے گی، کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔حتیٰ کہ اس کو ہم نے ” ڈائن ماں“ بنے ہی دیکھا ہے۔ عدلیہ ریاست کا دست و بازو اور اسلحہ و ہتھیار ہوتا ہے اس لےے عدلیہ ہمیشہ برسرِ اقتدار طبقے کی طرفدار ہوتی ہے۔کوئی اور جانے نہ جانے مگر،فہمیدہ خوب خوب جانتی ہے کہ :

سب کچھ جوں کا توں رکھنے کے لےے

تم نے ٹینک لگا دےے میری سڑکوں پر !

سب کچھ جوں کا توں رکھنے کے لےے

تم نے بندوق تان لی میرے سینے پر!

فہمیدہ اپنے خیالات میںبہت واضح ہے۔ اوروہ عوام الناس کی ترجمان ہے ۔ اُسے ساختیات و پس ساختیات و ذات کی صلیب و اندر کی آزادی جیسی باتیں لغو لگتی ہےں۔ سیدھی بات کرتی ہے اور سیدھی بات یہ ہے کہ:

اور پھر کہا

” لکھو…….. خلقت کا نام لے کر

جو زمینوں پر محیط ہے

اور زمانوں تک رواں ہے

جو عظیم ہے اور کبیر ہے

فہمیدہ کلیشے جگالی نہیںکرتی ۔ ظالم و مظلوم کے بیچ جنگ میں وہ بازاری پن اور غیر سنجیدگی نہیں کرسکتی:

میں گواہی دیتی ہوں

اپنے مظلوم لوگوں کی دلیری کی

میں گواہی دیتی ہوں

ان کی فتحِ مبیں کی

میں گواہی دیتی ہوں!

…….. اور وہ میں کون ہے ؟۔ جب حق و باطل کا معاملہ ہو تووہ میںتو آپ ہیں، میں ہوں، وہ ہے، اور ہم سب ہیں:

میں انسان ہوں …….. ایک انسان

جانتے ہو؟ انسان کیا ہوتا ہے ؟

سنو، اور خوف سے پیلے پڑ جاﺅ

انسان…….. شہید کا امکان ہے

آہا ۔ کیا حسین و لطیف نتیجہ ہے۔ اس بے آسرا سماج میں انسان برباد ہے۔ اسی لےے تو فہمیدہ ایک ہستی کو نہیں بھولتی ۔ اُس بڑی جنگ میں اُس ہستی کی مدد اور حمایت بہت ضروری ہے ۔ وہ مظلوموں کی جدوجہد میں اُن کی امید، اُن کی ڈھارس اور ان کی پشت بان ہے ۔مظلوم کی آہ اور پکار ہے۔وہ اُس منصفِ کائنات کو یوں پکارتی ہے :

مصنف ِ کائنات ! اپنی دوزخ کے در کھول دے

تیرے عذابوں کے مستحق

ان سے بڑھ کر کون ہیں؟

کہ جس سرمایہ پر انہوں نے ہاتھ صاف کیا

وہ تو مسکینوں کا تھا!

مجبوروں اور بے سہاروں کا!

مفلسوں اور ناداروں کا !

کبھی تم نے ایک میز پر بیٹھ کر

سرکاری مخبر کے ساتھ …….. چائے پی ہے؟

جب وہ بھی جان لے

کہ تم جانتے ہو

وہ بات کہ تم کہہ نہیں سکتے

پھر بھی وہ سن سکتا ہے

پھر چائے کی پیالیوں میں کیا رہ گیا؟

کیا برف کا ٹکڑا؟

اسے حلق سے اتارنا ہے

ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہو

اور وہ بے چارہ، پیٹ کا مارا

تم سے بڑھ کر مضطرب نظر آتا ہے

زیادہ تربیت یافتہ نہیں شاید!

اے خدا، عزتوں اور ذلتوں کے

مخبری کی تربیت کے لےے

کتنا ایک عرصہ کافی ہوتا ہوگا؟

ایک سال، ایک دن ؟

یا ایک لمحہ، دباﺅ سے کمزور پڑا؟

کیا یہ ممکن نہ تھا

کہ تم اسے نہ پہچانتے

کیا یہ کہیں زیادہ بہتر نہ ہوتا؟

مگر اب تو وہ پھیکی ہنسی ہنستا

رنجیدہ آنکھیں پھڑ پھڑاتا

باتیں کےے جاتا ہے، کےے جاتا ہے

یہاں تک کہ تمہاری بے چینی

تھکن سے پتھرا جائے

یہاں تک کہ تمہیں رونا آنے لگے

اور ہاتھ پھڑکنے لگیں

اسے جھنجھوڑنے کے لےے، چیخیں مارتے ہوئے

بدنصیب! بدنصیب

اب میں آتا ہوں اپنے نتائج پر ۔ آپ کو یاد ہے پیچھے کہیں میں نے کہا تھا کہ فہمیدہ کا مجموعہ ”بدن دریدہ“ اُس کی بہترین کتاب ہے ۔ مگر اب تو اُس کا مجموعہ ” کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے؟“ بھی سینہ ٹھوک کر آمنے سامنے آگیا ۔

بدن دریدہ نے مجھ سے میرے سابقہ فیصلے پر قائم رہنے کے بھروسے پہ کہا” میں اچھا“،
”تم پورا چاند نہ دیکھو گے؟ “نے کہا ”نہیں، نہیں ۔ تم بہت فرسودہ زمانے کی تخلیق ہو۔ مجھے مزید سیاحت ، مزید مطالعہ، مزید ٹکنالوجی اور مزید تجربے کی نعمت حاصل ہے۔ اس لےے میں اعلیٰ“۔
میں حیران کھڑارہاکہ کسے افضل قرار دوں ، کسے عزیز کہہ دوں…….. کہ” تسلسل “میں ادنیٰ اعلیٰ کی تفادت مجھے جائز نہیں لگتی ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے