جو کچھ بھی ہوچکا ہے

جو کچھ بھی ہورہا ہے

مرضی خوشی نہ خواہش

میری ہے اس میں شامل

خاموش تھا میں کل بھی

خاموش آج بھی ہوں

پر آج اور کل کی

ہے فرق خامشی میں

کل کی جو خامشی تھی

تھی لاش کی خموشی

آنکھیں پھٹی تھیں جس کی

اور مُنہ کھلا ہوا تھا

اتنے بڑے جہاں میں

وارث نہیں تھا جس کا

بے گوروبے کفن وہ

جو دھوپ میں پڑا تھا

ہاں خامشی جو کل کی

دیوار پتھروں کی

تھی، اس پہ اُپلے تھاپے

یا پوسٹر لگائے

مرضی تھی یہ نگر کی

چاہے تو اس پہ تھوکے

چاہے تو اُس پہ مُوتے!

پر آج کی خموشی

کل کی نہیں خموشی

اس خامشی کے پیچھے

بس پل کے فاصلے پر

مندر میں سنکھ ، گرجا

میں گھنٹیاں بجیں گی

مسجد میں بانگ ہوگی!

ہاں آج کی خموشی

میں سوریہ کے سواگت

کا شور بھی ہے شامل

ہاں آج کی خموشی

ساتوں سمندروں پر

طوفاں سے پہلے والی

ہے خامشی اے سائیں!

بہانا

میں بارش میں بھیگا تھا

رویا نہیں تھا

تمہارے لےے!

( میں رویا تھا، بارش میں بھیگا نہیں تھا

تمہارے لےے!)

( میں بارش میں بھیگا بھی تھا

اور رویا بھی تھا میں

تمہارے لےے!)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے