آج سے کوئی چار برس قبل ، بی ایس او کی تشکیل سے تقسیم تک کی کہانی لکھنے والے عبدالرحیم ظفر کی کتاب پر تبصرہ لکھتے ہوئے میںموضوع کے علاوہ اُن کے اسلوب اور طرزِ بیاں سے متاثر ہوا تھا۔ بلوچستان میں ایسے لکھنے والے (بالخصوص تاریخ اور سیاست پہ لکھنے والے) بھلا کتنے ہوں گے جو اپنی رائے نہایت عاجزانہ انداز میں پیش کرتے ہوں، خود کو حرفِ اول، حرفِ آخر قرار نہ دیتے ہوں، اپنے مو¿قف میں اصلاح کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہوں۔ اس پہ طرہ یہ کہ غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے خود سے ایک عمر جونیئر جوان کو خط لکھ کر شکریہ بھی ادا کریں اور تصحیح کی خواہش کا اظہار بھی؟…. یہ اعلیٰ ظرفی اچھی منظم سیاسی تربیت کے بنا نہیں آتی۔ اور رحیم ظفر تو ایک نسل کو سیاست سکھانے والوں کی نیک تربیت میں رہے ہیں۔

’آزادی کا سفر‘ ان کی تازہ تصنیف ہے، جسے (میرا خیال ہے کہ ) پبلشر نے ’عراق میں بلوچوں کی تحریک کے نمایاں خدو و خال پر ایک منفرد کتاب‘ کی پھڑکتی ہوئی ذیلی سرخی دی ہے۔ یہ 1960ءکی دَہائی کے آخر کا ایک قصہ ہے، جس میں مصنف کو معروف بلوچ ادیب اور سیاسی کارکن واجہ یوسف نسکندی کے ساتھ ’اعلیٰ قیادت‘ کی ایما پر’قومی آزادی‘ کی تحریک میں شرکت کے لیے کراچی سے عراق تک کا ’خفیہ سفر‘ کرنا پڑا۔ آگے کی کہانی سفر کی صعوبتوں سے لے کر عراق میں ان کے ڈیڑھ ، دو برس کے قیام پر مشتمل ہے۔ جو ایک ایسے کارکن کی زبانی ہے، جو اپنے عمل میں نہایت پُر خلوص ہے، لیکن اپنے رہنماو¿ں کے ہاتھوں بیچ راہ میں لٹے جانے پر پُژمردہ بھی ہے۔ جو کہانی کا ہر پہلو، ہر تناظر پورے خلوص کے ساتھ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے من و عن بیان کرناچاہتا ہے۔ آپ رحیم ظفر سے اختلاف کر سکتے ہیں(اور وہ آپ کو اس کی پوری اجازت دیتے ہیں) لیکن ان کا اپنی جدوجہد اور تحریر سے خلوص شک سے بالاتر ہے۔ اور یہ خوبی کم از کم بلوچستان میں آپ کو خال ہی ملے گی۔مثلاً ان جملوں میں ذرا ان کے جذبات کا کرب ملاحظہ کیجیے، جو انھوں نے کتاب کے مرکزی خیال کے ضمن میں لکھے ہیں:

” یہ ہماری غیر ذمہ داریوں(قومی جدوجہد کے زمرے میں) نالائقیوں، نااہلیوں اور لاپرواہیوں کی ایسی کہانی ہے جس نے کئی قیمتی زندگیوں کے چراغ گل کیے، اور کئی لوگوں کی توانائیوں کو بے مقصد ضایع کیا جن کی ذمہ داری کوئی بھی شخص ، ادارہ یا تنظیم قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کہانی کا ہر کردار ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر خود کو بری الذمہ بنانا چاہتا ہے۔“(ص،66)
بنیادی طور پر یہ ایک ’سیاسی رپورتاژ‘ ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ایسا باب جسے ایک عینی شاہد نے خود تحریر کیا ہے، ایک اور عینی شاہد (اکبر بارکزئی) نے اس کا پیش لفظ لکھا ہے ، نیز کہانی کے ایک مرکزی کردار (میرجمعہ خان) کی طویل معروضات کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ نہایت دلچسپ نکتہ ہے۔ میں نے کم از کم بلوچستان میں ایسا کوئی لکھنے والا نہیں دیکھا، جو اپنی کتاب اور نکتہ نظر سے اختلاف رکھنے والے کی معروضات کونہ صرف اپنی ہی کتاب میں جگہ دے بلکہ اس کی جانب سے اصلاح کردہ غلطیوں کی تصحیح بھی کرے۔میر جمعہ خان جو عراق میں ان کے متوقع مہمان تھے، اور جن سے اختلاف کی بنیاد پر وہ ان سے قطع تعلق کر بیٹھے اور عراق میں دربدر رہے، قطع نظر تمام تر اختلافات کے وہ ان کی خدمات کے معترف بھی ہیں اور ان کی قدرافزائی بھی کرتے ہیں۔لیکن ساتھ ہی اپنے سیاسی اختلاف کا بھی نہایت مہذب لہجے میں اظہار کرتے ہیں۔ مصنف نے کمال رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتاب کا مسودہ اشاعت سے قبل، میر جمعہ خان کو بھجوایا ، اوربعد ازاں ان کے تیس صفحات کے اختلافی نکتہ نظر کو من و عن کتاب کا حصہ بنا دیا، اور جہاں جہاںغلطی ہوئی تھی، اس کی معذرت کرتے ہوئے تصحیح کر لی۔’چند ضروری وضاحتیں ‘ کے عنوان سے مصنف نے لکھا ؛

” ….میں میر جمعہ خان سے تہہ دل سے معافی چاہتا ہوں کہ ان کے سسر کے بارے میں میری معلومات انتہائی ناقص و غیر معقول تھیں۔ در اصل یہ خبر اُن دنوں میں نے رشید دیرمانی کی موت کی خبر کے ساتھ ایک اخبار میں پڑھی تھی۔ بہرحال میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ میں نے میر جمعہ خان اور اس کے اہل خانہ کو یہ لکھ کر تکلیف پہنچائی، ہو سکے تو مجھے معاف فرما دیں۔ اس حصے کو میں نے کتاب سے حذف کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میر داد شاہ کے بارے میں جو میری ناقص معلومات تھیں، ان کی بھی درستگی کر دی گئی ہے۔“(ص،65)
جب کہ ان کی نسبت میر جمعہ خان کا اختلافی لہجہ نہایت درشت ہے اور کہیں کہیں وہ اخلاقی حدوں کو بھی پار کرتا نظر آتا ہے۔ جمعہ خان اور مصنف کا اہم اختلاف میر بزنجو کی شخصیت سے متعلق ہے۔ مصنف نے اپنی پہلی تصنیف کی طرح ،یہاں بھی ایک بار پھر ایک جگہ میر غوث بخش بزنجو کو کئی نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ عراق میں میر جمعہ خان سے نشست کے دوران ان کا کہنا تھا:

”ہمارے سیاسی سرداروں کے ساتھ شدید اختلافات ہیں اور نوجوانوں کا ایک اچھا خاصا گروہ نیپ کے سرداروں اور میر غوث بخش کے موجودہ سیاسی طریقہ کار سے سخت اختلاف رکھتا ہے۔اور سمجھتا ہے کہ انھوں نے بلوچستان کی سیاسی تاریخ کو سبوتاژ کیا ہے، قوم سے دھوکہ کیا ہے۔ پہلے قوم سے خون مانگتے تھے، اب خون کی بجائے ووٹ کے طلب گار ہیں۔ اتنے بلوچوں کو مروانے کے بعد ووٹ و اسمبلیوں میں جانے کی بات کر رہے ہیں ۔ اگر یہ سب کچھ کرنا تھا تو پھر اتنے معصوم بے گناہ قبائلیوں کی زندگیاں کیوں داو¿ پر لگائی گئیں۔ بہت سے پڑھے لکھے بلوچوں کا مستقبل کیوں تباہ کیا گیا؟ “(ص،135-6)

حیرت انگیز اور افسو س ناک طور پر میر جمعہ خان نے بجائے اس کا منطقی جواب دینے اور میر بزنجو کی سیاست کا دلیل سے دفاع کرنے کے، طنزاً یہ سوال داغ دیا کہ،” واجہ عبدالرحیم ظفر صاحب، کیا آپ ان نوجوانوں کے ناموں کی فہرست بھیج سکیں گے جن کا مستقبل میر غوث بخش بزنجو نے تباہ کیا؟“ نیز میر بزنجو سے اختلاف کرنے والے نوجوانوں پہ روایتی انداز میں ’ایجنسیوں کے تنخواہ دار‘ ہونے کا الزام ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ جب کہ رحیم ظفر تمام تر اختلاف کے باوجود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ،” میر غوث بخش بزنجو ایک عظیم سیاست دان تھے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے انھوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے انسان بھی تھے۔“(ص، 63)
لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ رحیم ظفر خود کو میر بزنجو کا ’سیاسی وارث‘ بھی سمجھتے ہیں اور ان کے طرزِ سیاست سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ بظاہروہ بزنجو صاحب کو پارلیمانی طرزِ سیاست اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن وہ خود بھی بعد ازاں اسی راہ کے مسافر بنے۔ اگر بزنجو کا یہ نکتہ نظر غلط تھا تو انھیں کم از کم اس راہ سے خود کو الگ رکھنا چاہیے تھا۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ مسئلے کا ’عارضی حل‘ یہی ہے (جس کا اظہار ان کے مضامین میں بھی ملتا ہے، دیکھیے، ’بلوچستان میں بد امنی کے اسباب و عوامل‘)تو پھر اختلاف کا بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ماسوائے اس کے کہ بھری جوانی میں انھیں آزادی کے خواب دکھا کر ، پارلیمنٹ پہ اکتفا کر لیا گیا۔ حالانکہ پہلی کتاب کی طرح یہاں بھی انھوں نے ایک جگہ نواب اکبر بگٹی کا بھرپور دفاع کیا ہے، ان کی آخری ایام کی جدوجہد کو ’ثابت قدمی‘ قرار دیا ہے، لیکن ان کی ماضی کی سیاست پہ کوئی لفظ نہیں کہا۔ وہ نیپ کے سرداروں پہ تو تنقید کرتے ہیں، لیکن نیپ کے سرداروں کو ’زیرعتاب‘ رکھنے میں مددگار بننے والے ’نواب‘ کے متعلق کچھ نہیں کہتے۔مجھے حیرت ہے کہ انھوں نے اپنی دونوں کتابوں میں اس معاملے کا تنقیدی و تفصیلی جائزہ نہیں لیا۔ میری خواہش ہو گی وہ اس پہلو سے اپنا نکتہ نظر ضرور تفصیل سے بیان کریں، شاید یہ نئی نسل کی سیاسی تربیت کے کام آ سکے۔
بہرکیف،نئی نسل بالخصوص بلوچ سیاست سے کسی بھی سطح پر وابستہ نئی پود کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ، ان کی پہلی کتاب کی طرح از حد سود مند ہو گا۔یہ مختصر کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ غیر منظم جدوجہد میں آزادی کا خواب ، کیسے سراب ثابت ہوتا ہے۔رہنما، کیسے معصوم کارکنو ںکے خوابوں کو اپنی خواہشات کی بھٹی میں خشک لکڑیوں کی طرح جلا کر خود کو اس پہ تاپتے رہتے ہیں۔ ’آزادی کا سفر‘ کا ایک پڑاو¿ دیکھیے:
” کچھ سیدھے سادے بلوچ جو میر عبدی خان اور جمعہ خان کی زیر قیادت عراقی کیمپوں میں زیر تربیت تھے، کبھی کبھار چھٹی کے دن اکبر بارکزئی سے بھی ملنے آتے تھے، ان سے عجیب و غریب معلومات ملتی تھیں۔ ان کا آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا ہوتا تھا….کبھی تولیہ اور کبھی صابن پر!“(ص،135)
ان قصوں کی تفصیل دیکھنی ہو، تو کتاب پڑھیے، اور خرید کر پڑھیے۔ میںآپ کو یقین دلاتا ہوںکہ آپ کے پیسے ضائع نہ ہوں گے۔

**********

رحیم ظفر کے اسلوب سے متاثر ہونے کے باوجود حسبِ معمول مجھے ان کی کتاب کی ہیئت اور زبان و بیان کی بے تحاشا غلطیوں پہ شدید تحفظات ہیں۔ آئیے پہلے ہیئت پہ بات کرتے ہیں۔
کتاب کوئی سوا دو سو صفحات پہ مشتمل ہے۔ جس میں اصل موضوع کی کہانی لگ بھگ سو صفحات پہ پھیلی ہوئی ہے۔ تیس کے قریب صفحات پہ اکبر باکرزئی کا پیش لفظ، حکیم بلوچ کی رائے اور خود مصنف کا افتتاحیہ شامل ہیں۔ جب کہ تیس صفحات میر جمعہ خان کی معروضات کو دیے گئے ہیں جو اس کہانی سے ہی متعلق ہیں، لیکن رائج طریقہ کار کے مطابق انھیں اصل کہانی کے بعد شامل کیا جانا چاہیے تھا، تاکہ پڑھتے ہوئے پتہ چلتا کہ انھوں نے مصنف کے کس خیال سے اور کس جگہ پہ اعتراض یا اختلاف کیا ہے۔ جب کہ آخری پچاس کے قریب صفحات میں مصنف کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع شدہ مضامین شامل ہیں۔ جن کا کتاب کے اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ (حتیٰ کہ آخری صفحے پہ اپنی ایک نظم بھی شامل کر دی ہے)۔ مصنف کی پہلی کتاب کا طرز بھی یہی تھا۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ وہ اگر اپنے مضامین الگ سے جمع کر لیں تو یہ ایک اورمکمل کتاب کا مواد ہے۔ اس طرح مذکورہ کتابیں بھی اصل موضوع تک ہی محدود رہیں گی۔
زبان و بیان کا معاملہ حسبِ معمول افسوس ناک حد تک خراب ہے۔ کوئی صفحہ، حتیٰ کہ کوئی پیراگراف ایسا نہیں کہ جس میں زبان کی غلطی نہ ہو، اور جہاں زبان کی غلطی نہیں وہاں پروف کی غلطی اس کی جگہ پُر کر دیتی ہے۔گذشتہ کتاب میں میری اس نشاندہی پہ مصنف نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ مجھے زبان کی چند اغلا ط کی وضاحت بھی کر دینی چاہیے تھی۔ اس لیے اس بار ایسی چند غلطیاں صرف برائے نمونہ پیش ہیں۔ ورنہ کتاب کی حالت یہ ہے کہ اسے ایک بھرپور نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

صرف ایک فقرے میں غلطیوں کا تناسب دیکھئے(درست الفاظ واوین میں درج کیے گئے ہیں):

”….نوجوان خواہش کے سراب میں ایسی تاریخ چاہتے ہیں جو ان کا (کی) پسندیدہ ہو….تاریخ ہماری خواہشوں کا(کی) غلام نہیں، تاریخ کو ہماری (ہمارے) ذاتی اختلاف سے کوئی غرض نہیں ہوتا(ہوتی)، تاریخ اُن بنیادی حقائق کا (کی) طلب گار ہوتا(ہوتی) ہے….“(ص،57)

اس فاش غلطی کے جواب میں اکثر یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ تو زبان کی نہیں، پروف کی غلطیاں ہیں، اس لیے میں محض مصنف کی تشفی کے لیے چند مزید غلطیوں کا اندراج کیے دیتا ہوں، مکمل تسلی کے لیے ’پوسٹ مارٹم‘ کردہ کتاب کی کاپی پیش کی جا سکتی ہے:

(۱)….یہی تحریک سفر کا محرک بنا تھا(بنی تھی)۔(ص،54)

(۲)….معلومات دستیاب نہیں ہو سکا(سکی)۔ (ص،56)

(۳)….جمعہ خان کی (کے)سیاسی سفر کا آغاز….(ص،56)

(۴)….دیگر ممالک کی (کے)خونی رشتوں….(ص،67)

(۵)….یہ لائن 1857ءمیں مکمل ہوا(ہوئی)۔(ص،70)

(۶)….برطانیہ کا(کی) ٹیلی گرام لائن مکمل ہو گیا(گئی)۔(ص، 71)

(۷)….باہمی اتحاد پیدا کی(کیا) جائے۔(ص،82)

(۸)….میرے(میری) ان دھمکیوں کو بڑھا چڑھا کر ….(ص،85)

(۹)….سید ہاشمی نے اپنے(اپنی) صحت کی زبوں حالی(خرابی) کے سبب
معذرت چاہی(ص،86)

(۰۱)….الجزائر کانفرنس منعقد نہ ہوسکا(سکی)۔(ص،88)

(۱۱)….ایک میگزین شائع ہوتی تھی(ہوتا تھا)۔(ص،91)

حالانکہ مصنف خود شاعر ہیں لیکن ایک معروف شعر بھی انھوں نے غلط لکھ دیا ہے؛

حادثہ ایک دن نہیں ہوتا

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
درست شعر یوں ہے؛

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مزے کی بات یہ ہے کہ بقول مصنف اکبر بازکزئی نے کتاب کی زبان و بیان اور املا کی درستگی میں ان کی خاصی مدد کی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ’ مدد ‘نہ ہوتی تو کتا ب کا حال کیا ہوتا۔ اس سے بھی زیادہ مزے کی بات ….لگ بھگ ہر صفحے پر زبان کی غلطیوں سے بھری ہوئی کتاب کے مصنف جب ایک اور بلوچ مصنف (ڈاکٹر نعمت گچکی) کی کتاب( داستانِ الم) کے تبصرے کے آخر میں لکھتے ہیں؛”زبان و بیان کی فاش غلطیوں، ایک ہی بات کو کئی بار دہرانے اور پروف کی غلطیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کتاب چھپنے سے پہلے اچھی طرح اس کی چھان بین نہیں کی۔“(ص،197)، تو آپ بے اختیار مسکرانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
مزید لطیفہ یہ ہے کہ خود مصنف نے اسی تبصرے کے اندر زبان کی فاش غلطیاں کی ہوئی ہیں!
ایک رائے میری یہ بھی ہے کہ داد شاہ سے متعلق میرجمعہ خان کا ڈھائی صفحات پہ پھیلا معلوماتی بیان (ص،76-78)بلوچی میں شائع کیا گیا ہے۔ اگر اسے بلوچی میں ہی شامل کرنا تھا، تو بھی اس کا اردو ترجمہ ضرور دیا جاتا۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کتاب کے قارئین محض بلوچ یا بلوچی جاننے والے ہی ہوں۔

**********

اس کے باوجود ،رحیم ظفر بلاشبہ داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے پہلی بار بلوچستان میں سیاسی تاریخ لکھنے کی داغ بیل ڈالی ہے۔ اس سے قبل صرف بزنجو صاحب کی ، بی ایم کٹی کی مرتب کردہ سوانح حیات سامنے آئی، لیکن وہ بھی مصنف کی وفات کے دو عشرے بعد۔ اس لیے رحیم ظفر کی کتابوں کی اہمیت یوں بھی دو چند ہے کہ نہ صرف ان کتابوں کا مصنف حیات ہے، اور واقعات کا عینی شاہد ہے بلکہ ان کتابوں میں بیان کردہ کہانیوں سے وابستہ کئی کردار آج بھی حیات ہیں، جو بیان کردہ واقعات کی تصدیق و تردید کر سکتے ہیں۔
عبدالرحیم ظفر کے ایک شائق قاری کے بطورمجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ انھوں نے محض ’نادانی‘ یا لاشعوری طور پر نہیں بلکہ بھرپور سیاسی بلوغت کے ساتھ ہمیں بتا دیا ہے کہ ’باشادہ ننگا ہے!‘

اور سرداروں کی بادشاہت والے بلوچستان میں ایسا سچ بولنے کا یارا منصور کی سی دیوانگی کا تقاضا کرتا ہے۔بلوچستان کی سیاسی تاریخ سے متعلق یہ سچ آدھا سہی، لیکن ‘مکمل سیاسی جھوٹ‘ سے کہیں بہتر ہے۔

ہماری نسل، ان کے اس احسان کے زیر بار رہے گی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے