بلوچستان اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔قدرتی وسائل سے مالامال خطہ پسماندگی کا شکار ہے۔سونے کا پانچواں بڑا ذخیرہ ،قدرتی گیس اور دیگر معدنیات کے ذخائر دنیا کا بہترین ساحل سمندر اس سر زمین کی تقدیر کو بدل نہ سکا لوگوں کی اکثریت افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبو ر رہے۔کسی بھی حکمران نے چاہے مقامی ہو یا غیر مقامی ،نام نہاد جمہوری ہو یا مسلط کردہ کسی نے بھی ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی وہ صرف خود کو امیر اور بلوچ عوام کو غریب کرتے رہے۔واضح رہے کہ بلوچستان کے حکمرانوں کا فیصلہ بلوچ عوام نہیں کرتے بلکہ انکا فیصلہ پنڈی اسلام آ باد اور لاہور میں ہوتا ہے۔اس مرتبہ بھی یہی حال ہے ہر جگہ تباہی و بربادی ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ امن اور امان کا ہے۔ہر طرف افراتفری کا عالم ہے نہ شہر محفوظ ہیں اور نہ سڑکیں محفوظ ہیں۔علاقے ایک دوسرے سے کٹے ہوئے ہیں حد تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ وزارءاور عوامی نمائند ے بھی اپنے علاقوں میں نہیں جا سکتے ہیں۔شام ہوتے ہی لوگ گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں۔امن و امان کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے دعوو¿ں کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں اور روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے تعلیم ضروری ہوتی ہے۔بد قسمتی سے بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ بھی تباہ ہے۔تھوڑے بہت تعلیمی ادارے اگر ہیں تو صرف شہروں میں ہیں۔انکی حالت بھی خراب ہے دیہاتوں اور دور دراز علاقوں میں پہلے تو تعلیمی ادارے ہیں ہی نہیں اگر ہیں تو نہ عمارت ہے نہ فرنیچر اورنہ ہی درسی کتب۔اگر کوئی قوم تعلیم حاصل نہیں کرے گی تو آگے کیسے بڑھے گی۔لگتا ہے ایک سازش کے تحت بلوچ قوم کو جاہل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔تعلیم پر بھی کثیر رقم خرچ کرنے کے دعوے کے باوجود بھی نتیجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔مجبوراً لوگ اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبور ہیں جو تعلیمی ادارے کم کمرشل ادارے زیادہ لگتے ہیں۔

صحت کا شعبہ بھی تباہ ہے۔اکیسویں صدی میں بھی 70% سے زیادہ آبادی صحت کی سہولیات سے محرم ہے۔سوائے چند بڑے شہروں کے کہیں کوئی قابل ذکر مرکز صحت نہیں بلڈنگ ہے تو ڈاکٹر نہیں ،ڈاکٹر ہے تو دوائی نہیں ،آواران اور زیارت کے زلزلوں اور نصیر آباد کے سیلاب نے تمام سرکاری دعوو¿ں کی قلعی کھول دی تھی۔کہ ضلعی ہیڈکواٹر ہسپتالوں میں نہ ایکسرے مشینیں تھیں اور نہ سانپ ڈسنے کی دوائی۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز کے لوگ پرانے زمانے کے ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں۔ٹائفائیڈ بخار والے کو بکری کا کھال پہناتے ہیں اور کینسر والے کو دم کرتے ہیں۔موجود حکمران خود ایک مسیحا ہیں مگر اسکا بھی اس طرف توجہ نہیں۔

بے روز گاری بھی بلوچستان کا اہم مسئلہ ہے۔تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیکر پھرتے ہیں مگر روز گار نہیں۔اگر تھوڑے بہت روز گار کے مواقع ہیں بھی تو ان پر غیر مقامی لوگ قابض ہیں۔بلوچستان کے ہر کونے اور ہر ادارے مختلف گیس فیلڈ ز اور گوادر پورٹ میں آپ کو غیر مقامی لوگ نظر آئیں گے جویہاں کے لوگوں کے ساتھ نہ انصافی ہے۔بلوچستان کو جاہل اور نہ اہل سمجھا جاتا ہے اور ان پر شک کیا جاتا ہے۔

بے روز گاری کی وجہ سے نوجوان جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں جن سے سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں۔

بلوچستان میں مواصلات کا شعبہ انتہائی خراب ہے دو تین سڑکوں کے علاوہ کوئی راستہ سفر کے قابل نہیں۔ہر دفعہ ہر سال اربوں روپے بد عنوانی کے نظر ہو جاتی ہیں۔سڑکو ں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آتی۔

بلوچستان کے ان بنیادی او ر اہم مسائل کو حل کرکے بلوچستان کو ایک خوش حال اور ترقی یافتہ خطہ بنایا جا سکتا ہے۔یہ تب ہو گا جب بلوچستان کو حقیقی قیادت میسر ہوگی اور وہی قیادت نیک نیتی سے کام کرتے ہوئے بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے