اُس نے اپنی پوری زندگی میں اپنے گاﺅں کے متعلق اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہاں کیا چل رہا ہے ،کیا ہو رہا ہے ۔لیکن آج دو تین ماہ کے بعد شہر کا چکر لگاتے، ایک کراٹے کلب میں اپنے جوان بھتیجوں ، بھتیجیوں اور چچا زاد بھائیوں، خالہ زادبہنوں کے تنومند بیٹوں کو شہر کے نوجوانوں کے ساتھ جوڈو کراٹے کھیلتا دیکھ کر بڑی گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے اور گہرے خیالات میں ڈوبا دریا بادشاہ کے بند والے راستے سے گاﺅں لوٹ رہا ہے :

” ہو ں …….. یہ سب لڑکے تو جوان ہوگئے ! …….. ہاں …….. دیکھتے ہی دیکھتے اتنے کڑیل جوان …….. ! بھلا ان لڑکوں کے لےے لڑکیاں کہاں سے آئیں گی ؟ بھلا یہ لڑکے جو ڈاکٹر ، انجینئر، پائلٹ اور ایکٹر بننے کے خواب سنبھالے بڑے ہورہے ہےں، تو یہ ان بڑی بڑی جیبوں والی اَن پڑھ ، گنوار گا گروں والیوں کو پسند کریں گے ؟“۔ وہ را ہ چلتے ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرتا ہے اور اس کے ذہن کے پردے پر ایک ایک ہوکر سب جوان لڑکیاں گزرنے لگتی ہیں، خوبصورت ، گوریاں،سیدھی سادیاں ، دو چار سندھی جماعتیں خواندہ، سیاہ ، سبز، سرخ رنگا رنگ کشیدہ کاری والے گا گرے پہنے ہوئی لڑکیاں۔

” چچا ! کیا وہ لڑکی اس بڑی جیب میں کوئی طوطا پالے گی؟“۔ اپنے بیٹے کی بات یاد آتے ہی اس سے ایک قہقہہ چھوٹ جاتا ہے ۔ جمی کا عاشق، اس کا بیٹا جو بچپن سے ہی اُسے بابا کے بجائے چچا کہہ کر بلاتا ہے اور وہ ایک انسپائریشن کے ساتھ گہری ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور اپنے گردوپیش پر ایک نگاہ ڈالتا ہے ۔

نیلے نیلے آسمان میں سفید سفید بادل دوڑتے جارہے ہیں ۔ سورج ٹھنڈا ٹھنڈا اور بڑا ہوتا جارہا ہے۔ آسمان میں تاڑو نامی پرندے کی آوازیں برکھا برسنے کے لےے چیخ کی صورت تیرتی جارہی ہیں اور کھیتوں میں چھوٹی نسل کے سفید بگلے ایک دوسرے کے پیچھے ایک ڈار بنائے آہستہ آہستہ اپنے گھونسلوں کی طرف اڑتے جارہے ہےں۔ اور ہواﺅں میں بارش کے بعد اٹھی سوندھی مٹی کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ چلتے چلتے محسوس کرنا ہے کہ پورے گاﺅں کی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ وہ جب سے پیدا ہوا ہے اس نے تو یہی محسوس کیا ہے اور اب جبکہ وہ چونتیس برس کا ہوچکا ہے ۔ تب یہ بات اُسے شدت سے محسوس ہونے لگی ہے۔ اسے گاﺅں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن پھر بھی محسوس کرتا ہے کہ گاﺅں کی نئی نسل کے ساتھ، جواب جوان ہورہی ہے ، وہی سلوک نہیں ہونا چاہےے جو اب تک ہوتا آیا ہے۔وہ پورا دوش گاﺅں کے بوڑھے بوڑھیوں کے سر تھوپتا ہے جو اپنے تئیں بڑے کہلواتے ہیں اور بڑے بااثر ہیں۔ جو چاہتے ہیں ، وہ ہوجاتا ہے ۔ جو قینچی کی طرح کاٹ کر ہمیشہ دو ٹکڑے کردیتے ہیں۔ اسے اب اپنے ماموں پر غصہ آنے لگتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے :

” ہوں…….. پورا دوش اسی یوروپین ماموں کا ہے ۔ جہاں جہاں بھی گئے ، پورا سندھ لتاڑآئے، لیکن ماما نے کیا کیا ؟“ اور وہ چلتے چلتے اپنے ماموں کے کردار پر غور کرتا جارہا ہے اور اس کے Imaginationمیں ماموں کا جیون ایک فلم کی صورت دھندلا دھند لا گزرنے لگتا ہے۔

ایک آدمی ، شاندار لباس ، آنکھوں پر سنہری کمانی والا چشمہ، بالکل جیسے کوئی انگریز ادا کار۔ کبھی فراٹے بھرتی گاڑی میں سوار، کبھی بید سے لوگوں کی پٹائی کررہے ہےں۔ کبھی ٹیلیفون پر بات کررہے ہےں ، کبھی بڑے بڑے دفتروں سے تیز تیز گزررہے ہیں۔ کبھی لائبریری میں کتابوں میں گم ہیں، کبھی کچھ لکھ رہے ہےں۔ کبھی دکھی ہیں ، نیند میں تڑپ رہے ہےں ، جیسے سپنے میں رورہے ہوں۔

اور وہ Imaginationکی اتھاہ گہرائیوں سے نکل آتا ہے اور اسے خواہ مخواہ محسوس ہوتا ہے کہ آج ماموں بہت دکھی ہوں گے ۔ وہ جب سے جوان ہوا ہے اور اسے یاد پڑتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماموں سے کچھ دوری پر رہا ہے ۔ وہ دونوں بس دس پندرہ برسوں میں یونہی کسی عید یا خوشی کے کسی اور موقعہ پر دس پندرہ مرتبہ ملے ہوں گے اور وہ بھی پانچ دس منٹوں کے لےے، جیسے کوئی نا تا نہ رشتہ! وہ سوچتے ہوئے دکھی ہوجاتا ہے اور پھر یادوں کی گہرائی میں اُتر جاتا ہے۔

ایک گورا چٹا شخص، انگریزوں جیسا کھلاڑی، اکیلا دو پناہ گیر اساتذہ کے ساتھ ٹینس کھیل رہا ہے اور پھر اس کے کان میں پتہ نہیں کہاں سے ماموں کی آواز گونجنے لگتی ہے :

” گمان ! تمہیں پتہ ہے ، جب تمہارے ماموں علیگڑہ سے طلائی تمغے کے ساتھ ایم اے کرکے لوٹے تھے تو اس شہر کے کیا ہندو کیا مسلمان، سب قطار بنائے اسے سٹیشن سے یوں لے آئے
تھے جیسے وہ کوئی حجِ اکبر کر آئے ہوں “۔

اسے چلتے ہوئے کچھ اور دھند لا سا یاد آنے لگتا ہے ، پرانے کسی خواب کی طرح:
دریا بڑی مستی میں ہے ۔ وہ کم سن ہے ۔ چمکدار ساڑھیوں میں بڑی بڑی ہندوانیاں ہیں اور سفید سوٹ پہنے ہوئے ہیں ماموں اور ماموں جیسے بڑے بڑے لوگ، باتیں کرتے، قہقہے مارتے، دریا کے کنارے کھڑے ایک بڑے جہاز پر آتے ہیں۔ وہ جہاز پر دھرے تختے پر چڑھتے ہوئے ڈرتا ہے ، ایک ہندوانی اسے گود میں اٹھا کر چومنے لگتی ہے اور ماموں قہقہے لگاتے ہیں۔

اور وہ دھند کے ایک اور پردے میں چلا جاتا ہے :

وسیع و عریض بنگلہ ہے، چہارا طراف ایک باغ ہے اور تھوڑے سے فاصلہ پر ایک جیل نما جگہ ہے، جس میں ٹانگوں کے بیچ لکڑیاں پھنسا کر باندھے گئے لوگ الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ تحصیلدار بڑے غصہ میں ہیں۔ اپنے ما تحتوں کے سامنے ایک دھاڑ کی صورت چلاتے ہیں، ” وہ اور ہوں گے بزدل تحصیلدار، بیواﺅں کے ساتھ سینہ زوریاں کرتا ہے ۔ اُس وڈیرے ، کتے کے بچے کی پگڑی اتار کر، اسے گلے میں ڈال کر یہاں لے آﺅ۔ اگر وڈیرہ گھرمیں نہ ہو تو اس کی بیوی کو لے آﺅ“۔

اور دوسرے لمحہ:

دوسرے لمحہ میں پولیس والے ہیں۔ نصف مونچھ کٹا وڈیرہ ہے اور تحصیلدار کی چھڑی ہے ۔ تحصیلدار اپنی چھڑی سے وڈیرے کی چمڑی اُدھیڑ ڈالتا ہے ۔ وڈیرے کی قمیص لیر و لیر ہوجاتی ہے۔ تحصیلدار اسے اُس وقت تک مارتا ہے، جب تک وہ غش کھا کر اس کے قدموں میں گر نہیں جاتا : ” سائیں ! میری توبہ۔ یا حسین! میری توبہ ۔ گھوڑا ڑے میری توبہ “۔ تحصیلدار کے ایک ٹھڈے سے وڈیرہ کی ناک سے لہو کا فوارہ چھوٹ جاتا ہے اور وہ اپنے آپ میں سمٹا جاتا ہے۔

” کتیا کے بچے ! کان کھول کر سن لو، دوبارہ اگر تم نے غریبوں کو مارا، تنگ کیا تو تیری بیوی انہی ماچھیوں سے اٹھوالوں گا۔ ہوگے تم کسی منسٹر کے بھڑوے، میں ایرے غیرے کی پرواہ نہیں کرتا“۔ اور تحصیلدار تیز قدم اٹھاتے منشی کو ڈانٹ پلا دیتے ہیں:

"Three months jail, One thousand rupees fine”

وہ راہ چلتے سوچوں کے بھنورسے نکل آتا ہے اور پھر گردوپیش کا جائزہ لیتا ہے۔ سندھیا پر رات کا دھند چڑھتا جارہا ہے۔ پھر نہ جانے کہاں سے اس کے کانوں میں انجانی سی آوازیں گونج اٹھتی ہیں:

” بابا! تمہارے ماما جیسے لوگ کہاں! مولا پاک کی قسم ہمارے ہاں تحصیلدار تین ماہ کے اندر بستر گول کر جاتا ہے …….. لیکن تمہارے ماموں …….. تمہارے ماموں نے وہ صاحبی چلائی کہ کسی انگریز نے بھی نہ چلائی ہوگی۔ بابا ! ہر حرامی بدچلن کے گلے میں پھندہ، چاہے کوئی کتنا بھی خانِ خاناں کیوں نہ ہو۔ سب کو نکیل ڈال دی انہوں نے ۔ خدا کی پناہ !“۔

“ تو کیوں آخر ماموں اپنے گاﺅں میںاتنے ٹھنڈے ہیں؟“۔ اس کے ذہن میں سوال کلبلاتا ہے اور وہ اپنے ماموں کے اپنے گاﺅں کے اندر اٹھنے بیٹھنے کے طریقے پر غور کرتاہے ۔

Imagination:

وہ پیدل جارہا ہے اور اس دوران ماموں سینکڑوں بار موٹر میں زناٹے سے گذر جاتے ہیں۔

ماموں لائبریری میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

ماموں ایزی چیئر میں سر جھکائے اور پاﺅں تپائی پر رکھے بی بی سی سُن رہے ہیں۔

ماموں پوتے، پوتیاں ،نواسے اور گاﺅں کے چھوٹے بچے بڑی سی گاڑی میں لئے کہیں گھومنے جارہے ہیں۔

ماموں نیند میں ہیں کہ بیدار پتہ نہیں۔ نیند ماموں سے کوسوں دور ہے ماموں نیند میں تڑپتے ہوئے سے لگتے ہیں۔

ماموں قہقہے لگارہے ہےں ، جیسے ہمیشہ لگاتے ہیں ۔ بڑے بڑے قہقہے ، جن میں شور زیادہ، خوشی کم ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ماموں دکھی ہیں اور جیون میں پہلی مرتبہ اس کے دل میں تڑپ سی اٹھتی ہے کہ کبھی ماموں کے ساتھ بیٹھنا چاہےے۔

وہ چلتے ہوئے پھر اردگرد کا جائزہ لیتا ہے ۔ اس کے گاﺅں کی روشنیاں جل اٹھی ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گاﺅں کا وہ پہلے جیسا دیہاتی حسن ختم ہوچکا ہے ۔ گاﺅں اب کراچی کی شر ف آباد یا گلشن اقبال جیسی آبادی محسوس ہوتا ہے یا پھر کوئی نئی تعمیر ہونے والی پناہ گیر کالونی۔

وہ گاﺅں میں نئی بڑی جامع مسجد کے سامنے کھڑی ماموں کی سُرخ گاڑی دیکھ کر گھر جانے کے بجائے ماموں کے گھر چلا جاتا ہے۔

” صلح کرنے میں کیا برائی ہے ؟…….. ہیں ؟ میں کوئی نوکری لینے یا کسی کی سفارش کرنے تو نہیں جارہا ۔ کب تک ہم یونہی اجنبی سے رہیں گے ؟“ وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ماموں کے گھر میں داخل ہوتا ہے ۔ گھر کے تمام مکین اسے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔ بے بی الوینا اسے چھیڑتی ہے اور و ہ اسے اٹھا کر گول چکر دینا شروع کرتا ہے

"Where is uncle?”

”He is sleeping“۔ بے بی پرانی جگہ کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ دروازہ بند ہے ۔ وہ کھڑکی سے سوئے ہوئے ماموں پر نظر ڈالتا ہے ۔ اسے زندگی میں پہلی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ ماموں بوڑھے ہوتے جارہے ہےں۔ الوینا اسے نئی دو منزلہ عمارت میں لے آتی ہے۔

"Papa says, this for me, "Good home?”

"Yes, very nice, Beautiful”

وہ اس نئی جگہ میں پہلی مرتبہ آیا ہے۔ پوری جگہ کو اچھی طرح دیکھتا ہے اور بالکنی سے ہوکر بے بی کے ساتھ چھت پر چلا آتا ہے ۔

” Shall we play Ping Pong?”

"No, I am feeling tired” وہ جان چھڑاناچاہتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ ماموں پتہ نہیں کب اٹھیں گے ؟ اسے اپنے گھر لوٹ جانا چاہےے ۔ وہ نیچے اترتا ہے تو ماموں اسے باتھ روم سے نکلتے نظر آجاتے ہیں۔ ماموں اس پر ایک خوشگوار نظر ڈالتے ہیں۔

” کب آئے ہو؟“۔

” ابھی، تھوڑی دیر پہلے۔ آپ تو ابھی سوئے ہوئے تھے !؟“۔

” نہیں، یونہی لیٹا ہوا تھا ۔ میں تمہاری آواز سن رہا تھا ۔ کیسے آنا ہوا ؟“۔

” یونہی، دل نے کہا اور میں چلا آیا“۔

” سچ…….. !“ ماموں چشمہ صاف کرکے آنکھوں پر چڑھاتے اور اسے یوں دیکھتے ہیں کہ جیسے انہیں یقین نہ آرہاہو۔

” طبےعت تو ٹھیک ہے نا؟“ وہ ماموں سے پوچھتا ہے۔

” ہاں ۔ طبیعت کو کیا ہوگا؟ طبیعت تو آدمی کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے“۔

وہ ماموں کی اس بات پر مسکرادیتاہے ۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ ماموں وہی ہیں ۔ ان میں کوئی چینج نہیں آئی، اگر تبدیلی آئی ہے تو صرف یہ کہ اس کے بیٹے بوڑھے ہوگئے ہیں ۔ ماموں وہی ینگ، سمارٹ اور ہینڈ سم ہیں۔

” تمہارا کالج کیسے چل رہا ہے ؟“۔

” ٹھیک ہے ۔ بس چل رہا ہے “۔

” آ…….. ہا …….. کیا زمانے تھے ! ٹیچرز لائف بھی ٹیچرز لائف ہے ۔” ماموں ایک پل کے لےے گہری سانس لے کر اپنی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔

” ماموں ! کیا رکھا ہے اس لائف میں؟“۔

” ہوں …….. میں نے سات آٹھ برس ٹیچرز لائف گزاری ہے ۔ مجھے سب پتہ ہے ۔ کیا شاندار لائف ہے ! بس صرف آدمی کی اپنی کوالٹی ہونی چاہےے“۔

” :پھر آپ نے ٹیچنگ لائف کیوں چھوڑدی؟“۔

” ارے بھائی! چھڑائی گئی۔ میں تو ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے ٹیچنگ لائف چھوڑ کر اپنے آپ کو توڑ دیا تھا، اپنے آپ کو کولہو کا بیل بنانے کے لےے ، وہ بھی جان بوجھ کر۔ کبھی کبھی آدمی قربانی کا بکرا بن جاتا ہے “۔ ماموں بڑی دیر تک خاموش ہوجاتے ہیں۔ممانی چائے لے کر آتی ہے۔ ایک پل کے لےے دونوں چپ ہوکر چائے کی چُسکیاں لیتے رہتے ہیں۔

” کوئی کام تو نہیں؟“۔

” نہیں تو “۔ وہ فوراً جواب دیتا ہے۔

” پتہ نہیں کیوں کوئی کام کے بغیر میرے پاس آتا ہی نہیں ہے ! ” ماموں بہت دکھی ہوجاتے ہیں۔

اور ممانی کسی گولے کی طرح اچانک پھٹ پڑتی ہے : ” کسی کو پاگل کتّے نے کاٹا ہے کہ تمہارے پاس آئے گا ۔ جو بھی آتا ہے ، اس کا چہرہ نوچ لیتے ہو۔ پھر کہتے ہو کہ میرے پاس کوئی آتا ہی نہیں ہے“۔

ممانی کی بات پر ماموں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ کھل اٹھتی ہے اور ماموں اسے آنکھ مارتے ہیں، ” پتہ نہیں کیوں لیکن اب تم پسند آنے لگے ہو؟ سچ بتاﺅ، کام سے آئے ہونا ؟ تم اگر غلط کام بھی کہو گے تو وہ بھی کردوں گا“۔

” نہیں، بائی گاڈ! میں صرف آپ کو دیکھنے کے لےے آیا تھا“۔

” ہُوں …….. ارے بھائی! مجھے سب پتہ ہے ۔ پھٹے منہ تمہارا ،

"Really, She is fine girl”

” جی ! “ و ہ گھبرا جاتا ہے۔

” ارے ! کپ اُلٹ رہا ہے ، پھر کہتے ہو کہ میں ڈانٹتا ہوں ۔ مجھے پتہ ہے ، تم پانچ برسوں کے بعد پانچ منٹ کے لےے آتے ہو تو صرف مجھے دیکھنے کے لےے نہیں، نہ ہی کسی کام کے لےے۔ میں ٹیچنگ لائف میں بچے نہیں جوان پڑھایا کرتا تھا“۔

”Thanks“۔ وہ ماموں کی بات پر شکریہ ادا کرتا ہے۔

"Really you are a lucky person and gentle fellow”

ماموں اس کا جائزہ لیتے ہوئے مسکراتے ہیں لیکن بڑی تکلیف کے ساتھ اورممانی کام کاج کرتے ہوئے دور سے اسے خبردار کرتی ہے:

” ارے بھاگ جاﺅ۔ یہ ہنستے ہنستے، سہلاتے سہلاتے اچانک بگڑ بیٹھے گا“۔

” میں چلوں ؟“۔

” کیوں؟ اس بوڑھی کی بات دل کو لگ گئی کیا؟“۔

نہیں تو ۔ پھر کبھی اچھی سی کمپنی کریں گے“۔

” ہاں۔ زندگی ہے تو کمپنیاں ہی کمپنیاں ہیں“۔

ماموں کپ کو تپائی پر رکھتے ہیں اور وہ اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ماموں ویسے نہیں تھے ، جیسا اس نے انہیں سمجھا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے