پاک نگر شہر بھر میں عجب نوعیت کا محلہ تھا۔ اسے ہر طرح کی غلط کاریوں میں برتری کا اعزاز تھا۔ آس پاس کے محلوں کے کن ٹٹے پاک نگر آ کر پناہ لیتے تھے اور یہاں کے بدکار دوسرے محلوں میں جا چھپتے تھے۔ پاک نگر میں سائیکل چور سے لے کر کرائے کے قاتل تک مل جاتے تھے مگر باسیوں کی اکثریت سادہ لوح تھی۔ پھر بھی پاک نگر سارے شہر میں سب سے زیادہ بدنام تھا۔ پاک نگر کے باسی کلنک کا ٹیکا سمجھے جاتے۔ انہیں دوسرے محلوں میں پولیس کے سوا کوئی خوش آمدید نہ کہتا۔ پولیس ہر قدم پر خوش آمدید کہتی۔ اچھی خاطر کر کے جان چھوڑتی، جس کی جان نہ چھٹتی، اس کے پیارے چھوٹ جاتے۔ کوئی بندوق اٹھاتا اور کوئی گولی کھاتا۔ پاک نگر کے باسیوں کے لیے سر دردکی گولی مہنگی تھی لیکن سیسے سے بنی گولی وافر ملتی، زیادہ تر ٹھنڈے جسموں میں پائی جاتی۔

پاک نگر میں اکثر سیانوں کا اکٹھ ہوتا۔ وہ لمبی لمبی بحثیں کرتے۔ منہ سے جھاگ اڑاتے۔ کف الٹ الٹ کر آگے بڑھتے۔ دو چار پیچھے سے پکڑتے۔ کچھ کا گریبان چاک ہو جاتا۔ بعض کا نہیں بھی ہوتا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلتا۔ سیانوں نے روز روز کی ہاتھا پائی سے بچاﺅ کے لیے کچھ اور سیانوں کی ایک انجمن بنائی جس کی ذمہ داری پاک نگر کی دیکھ بھال ٹھہرائی گئی۔ انجمن پاک نگر کی خوشحالی کے لیے تو کچھ نہ کر سکی، خود خوشحال ہو گئی۔ سیانے سیانے عہدیدار باسیوں کے خون کی آخری بوند تک نچوڑنے کے لیے نت نئے فارمولے گھڑتے۔ ایسی ایسی منطق پیش کرتے کہ سقراط ہوتا تو زہر کا پیالہ نہ پیتا۔ افلاطون کو اپنی جمہوریہ بھول جاتی ، آمریت کے گن گاتا اور ارسطو خود سکندر کو ڈبو دیتا۔ ان بزرگوں کا فلسفہ تو وہی جانیں لیکن پاک نگر کے باسی کانوں کو ہاتھ لگا بیٹھے تھے۔ پھر کچھ سیانے لال بھبھوکا ہوئے۔ انجمن کے نئے عہدیدار منتخب کئے گئے۔ نئے عہدیدار سواسیر نکلے۔ باسی پچھلوں کو فرشتہ سمجھنے لگے۔ سورج گرہن ہوتا تو وہ دعائیں مانگتے۔ چاند کو گرہن لگتا تو منتیں مانگتے کہ یااللہ! ہمیں پچھلے عہدیدار ہی دے دے۔ ہم دوبارہ شکوہ کناں نہ ہوں گے۔

پاک نگر کو کچھ باسی مسائل کا گڑھ سمجھتے اور کچھ اسے اللہ میاں کی عنایت کردہ میٹھے کی دیگ سمجھتے۔ لیکن چند ایک ہی اس متنجن کا مزہ چکھ پاتے۔ باقیوں پر آفتیں ہی اتنی پڑتیں کہ وہ کچھ محسوس نہ کرپاتے۔ ایک آفت کا نام فرصت بھی تھا جو نوجوانوں کو بے روزگاری کی صورت میں بہت میسر تھی۔ اگلے وقتوں میں کچھ لوگ فرصت کے لمحات کو ترستے تھے ۔ یہاں نوجوان فرصت کے باعث تباہ ہوتے جا رہے تھے۔ ان میں سے جن کے پاس مال تھا ، وہ دوسرے علاقوں میں جا بستے۔ جن کے پاس ہنر تھا، وہ بھی دوسرے محلوں میں چلے جاتے اور جو روٹی کمانے والے علوم سے بہرہ ور تھے، ان کی بھی دوسری جگہوں پر دال گل جاتی۔ اخلاقیات کے علوم سے مالا مال لوگ ٹوٹی پھوٹی میزوں پر بیٹھ کر باتیں گھڑتے یا پھر دوسروں کو قصے کہانیاں سنا سنا کر وقت گزارتے۔ پاک نگر میں کہانیاں سنانے والے بہت ہوگئے تھے۔ کہانی بنانے والے گھٹ گئے تھے۔ یہ بھی ایک مسئلہ تھا، لیکن پریشانیاں اور بھی بہت تھیں۔ بڑی پریشانی تو پریشانیاں سلجھانے کے لیے چنی گئی انجمن تھی جس کے عہدیدار اپنے باسیوں کی بجائے دوسروں کا خیال کرنے میں مصروف رہتے۔ انجمن والوں کو جہاں نوٹ نظر آتے ، وہیں ان کا موڈ بن جاتا۔ جب نوٹ کافی ہو جاتے تو عہدیدار پاک نگر چھوڑ کر خوشحال نگر کو چلتے بنتے۔

پاک نگر میں نوٹ نظر آتے رہنے تھے اور موڈ بنتے رہنا تھا۔ باسیوں نے کڑھتے رہنا تھا، لیکن ایک ہونی ایسی ہوئی کہ اچھے اچھوں کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اکثریت اس کی بھی عادی ہوگئی۔ ہوا کچھ یوں کہ سات محلے چھوڑ کر خوشحال نگر میں کسی نے بڑی بدمعاشی کر دی۔ دو چار بندے مر گئے۔ اس کا ملبہ پاک نگر کے ساتھ بسے بےباک نگر پر گرا جس کا کچھ حصہ پاک نگر کو بھی ملا۔ خوشحال نگر طاقت ور افراد کا گڑھ تھا جو بےباک نگر پر چڑھ دوڑے۔ ایسی آگ بھڑکی کہ تپش پاک نگر میں محسوس ہونے لگی۔

کچھ سیانے کہتے ہیں کہ خوشحال نگر میں بدمعاشی کس نے کی، کبھی طے نہیں ہو سکا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہوئی ۔ خوشحال نگر والے بیباک نگر کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کامیاب رہے لیکن مکینوں کے پہاڑوں ایسے بلند حوصلے نہ توڑ سکے گو بڑا خون بہا۔ خون صرف بیباک نگر میں ہی نہیں بہا بلکہ پاک نگر بھی لہو رنگ ہوا حالانکہ پاک نگر کی انجمن نے خوشحال نگر کو دھاوا بولنے میں مدد دی تھی۔ مدد بھی غیر مشروط طور پر دی گئی۔ بدلے میں انجمن کے عہدیدار مزید خوشحال ہو گئے البتہ پاک نگر کی بیڑی ڈوبنے لگی۔ قصور خوشحال نگر کی طوفانی موجوں کا کم اور ملاحوں کا زیادہ تھا۔

خوشحال نگر والوں نے بیباک نگر پر صرف دھاوا ہی نہیں بولا تھا بلکہ ڈیرے جمانا چاہتے تھے گو بیباک نگر والے ان کی تشریف پر ’چمونے‘ چھوڑ جاتے۔ خوشحالیوں کے ڈنڈے سوٹے ان پر ہی برسا دیتے اور اس زور سے برساتے کہ خوشحالیوں کی پشت پر گجروں کی بھینسوں جیسے نیلے نیلے نشان پڑ جاتے۔ ان میں سے کچھ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہتے اور کچھ چھپتے پھرتے۔ چند ایک دو چار ٹھکانوں پر قبضہ جما کر بیٹھ بھی گئے۔

خوشحال نگر والے اس تھانیدار کی طرح تھے جو اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔ جس گھر میں جی چاہا گھس جاتے اور گھر والوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیتے۔ ان کے پاس بڑے پیسے تھے۔ کڑکتے کڑکتے نوٹ تھے جو بڑے بڑوں کا منہ بند کر دیتے لیکن بیباک نگر میں ان کو الٹے ہی نہیں سیدھے ہاتھ کے بھی تھپڑ رسید ہوئے ۔ نشان چھوڑ جانے والے تھپڑوں سے بچاﺅ کے لیے وہ پاک نگر کی انجمن سے مزید مدد طلب کرتے۔ پاک نگر کے باسی خوشحالیوں کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن انجمن کے کچھ عہدیدار دبتے تھے ، کچھ کڑکتے نوٹوں پر مرتے تھے۔ وہ مدد کے نام پر پاک نگر سارے کا سارا بیچ دینے پر تیار ہو گئے۔ وہ پاک نگر کے باسیوں کو بدمعاش بنا بنا کر خوشحالیوں کے ہاتھ دیتے۔ لیکن کڑکتے نوٹ دینے والے اتنی مدد سے خوش نہیں تھے۔ وہ نوٹ لٹا لٹاکر تنگ آنے لگے تھے۔

خوشحال نگر کی انجمن تو پاک نگر پر دھاوا بولنے تک کا سوچنے لگی کہ ہو نہ ہو پاک نگر سے بیباک نگر کو اندر کھاتے مدد ملتی ہو ۔ اسی مدد سے ان کو ہنٹر مارے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی بار پاک نگر پر چڑھائی کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ پھر خوشحالیوں کی انجمن کے کسی عہدیدار نے انہیں پاک نگر والوں کو آپس میں لڑانے کی ترکیب بتائی۔

پاک نگر میں ایسی لڑائی شروع ہوئی کہ بس ہر کوئی کہیں نہ کہیں لڑتا رہتا۔ کوئی بندوق سے لڑتا۔ کوئی زبان استعمال کرتا۔ کسی نے اپنی کرسی کو ہتھیار بنا لیا تو کسی نے رشوت کی گولی چلانی شروع کر دی۔ ایسی تفریق شروع ہوئی کہ پاک نگر میں کوئی تیسرا آکر گڑ بڑ کر جاتا اور پاک نگر والے ایک دوسرے کو ہی ذمہ دار ٹھہرا کر لڑنا شروع کر دیتے۔ ایسی نفسا نفسی پھیلی کہ ایک بڑی شاہراہ پر تین گھنٹے تک ایک لاش پڑی رہی، کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ کون کمبخت ہے؟ بھوک یہاں تک پھیل گئی کہ بچوں کی انتڑیاں خشک ہو جاتیں اور وہ ہوش میں آنے سے پہلے ہی ہوش کھو دیتے۔ ماﺅں کی چھاتیوں سے دودھ ختم ہو گیا۔ گائیاں چارہ نہ ملنے سے مرنے لگیں۔ جہاں دیکھو لاشیں ہی لاشیں نظر آتیں۔ پاک نگر اپنے نام کے برعکس ہو گیا۔ وہ لاش نگر بن گیاتھا۔

پاک نگر میں پھر ایک ایسا گروہ ابھر آیا جو صرف یہاں رہنے والوں کو نشانہ بناتا تھا۔ وہ کبھی سامنے سے مارتے اور کبھی پیچھے سے وار کرتے۔ جو زد میں آتا اس کی قسمت پھوٹ جاتی۔ یہ گروہ انسانوں پر ایسے گولیاں چلاتا جیسے شادی میں ہوائی فائرنگ ہو رہی ہو یا کوئی انجمن کا عہدیدار تازہ تازہ منتخب ہو کر اپنے حلقے میں آیا ہو۔ اس گروہ کے پاس اپنی گولہ باری کے لیے دلیل موجود تھی۔ دلیل ہر کسی کے پاس ہر کام کے لیے ہوتی ہے۔ اس گروہ کی دلیل لایعنی تھی نہ بامعنی۔ وہ کہتے کہ پاک نگر والوں نے خوشحالیوں کا ساتھ دیا ہے ۔ اب سزا بھی بھگتیں۔ ان خدائی فوجداروں نے وہ تباہی مچائی کہ رہ گیا باقی نام اللہ کا۔ اللہ والے مر کھپ گئے۔

یہ گروہ پاک نگر پر آفت کی طرح نازل ہوا ۔ چشمے کی طرح پھوٹا تھا لیکن اس کے خشک سوتوں کو تر کسی اور زمین نے کیا تھا۔ پاک نگر والوں کو تو سمجھ ہی نہ آتی کہ یہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ وہ اکثر کہتے کہ کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔ انہیں یاد ہوتا بھی تو کیسے؟ جرائم ہی بہت زیادہ تھے۔ کچھ اپنی انجمن اور کچھ پہرے داروں کو قصور وار ٹھہراتے جو خوشحالیوں سے مل گئے تھے۔ کچھ بیباک نگر کے باسیوں پر برستے اور کچھ ایسے بھی تھے جو خدائی فوجداروں کی شان میں قصیدے پڑھتے تھے۔ یہاں چند ایسے بھی تھے جو خدائی فوجداروں کو بڑی بڑی گالیاں بھی دیتے تھے لیکن بیل کہیں منڈھے نہیں چڑھ رہی تھی۔ پاک نگر کے لوگ روز مرتے۔ پہلے وہ مفلسی سے روز کئی مرتبہ جیتے اور مرتے تھے۔ اب سچ مچ مر جاتے تھے۔

اس کے باوجود خوشحال نگر والے شاکی تھے کہ پاک نگر والے تعاون نہیں کرتے۔ بیباک نگر والوں کو شکایت تھی کہ پڑوسی کا حق ادا نہیں ہوا۔ پاک نگر والے چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے۔ جدھر جاتے موت منہ کھولے بانہیں پھیلائے ٹہلتی نظر آتی۔ کچھ ہنسی خوشی موت کو گلے لگا لیتے اور کچھ ٹسوے بہاتے غار میں جاتے۔ جو موت کے منہ میں جانے سے بچے رہتے، ان میں کوئی اور عیب پیدا ہو جاتے۔ پھر بھی ان کے دل میں کہیں تبدیلی کی خواہش موجود رہتی۔

خوشحال نگر کے باسی بھی تبدیلی چاہتے تھے۔وہ دو بدو لڑائی کی بجائے نشانہ باز بھیجنے کو ترجیح دینے لگے۔ ان کے نشانہ باز پاک نگر والوں کو نشانہ بناتے اور بھاگ جاتے۔ نشانہ بازوں نے زندگی اجیرن کردی۔ خوف کے سائے منڈلاتے رہتے۔ کام کاج پہلے ہی ٹھپ تھا۔ اس نشانے بازی نے مزید چولہے ٹھنڈے کر دیئے۔ کئی لوگ بھوک سے مرتے اور کئی گولی کھا کر مرتے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جو آتش گیر مواد کے پھٹنے سے مرتے۔ پھر بھی زندگی کی آس کہیں باقی تھی۔

اسی آس میں پاک نگر کے سیانے پھر اکٹھے ہوتے۔ کچھ سیانے ساری خرابی کا ذمہ اپنوں پر ڈالتے۔ کبھی ملبہ پڑوسی محلے پر ڈالا جاتا اور کئی بار طاقت ور لوگوں کو کوسا جاتا۔ سیانوں میں اختلاف رائے بہت زیادہ تھا۔ اختلاف رائے کے کچھ بیج تو خوشحالیوں کی منطق نے بوئے تھے۔ کچھ کی کاشت مقامی حالات نے کی جن کی برداشت کا وقت آ چکا تھا۔
چند جوشیلے نوجوان خوشحالیوں کے نشانے باز نشانے لگا لگا کر مار دینے کے حامی تھے۔ لیکن کچھ سیانے ڈراتے کہ ہم خوشحالیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان سیانوں کو کوئی جوان بتاتا کہ پڑوسی محلے نے بھی خوشحالیوں کی طبیعت صاف کی ہے، مگر اس کی کوئی نہ سنتا۔ سیانے لوگوں کو ڈراتے ۔ جوش بھی دلاتے ۔ وہ اب تک منہ سے جھاگ اڑاتے۔ کف الٹتے۔ دستر خوان پر غصہ نکالتے ۔ حکیم لقمان سے شراکت کرتے۔ مگر پاک نگر کے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے۔ پاک نگر اب تک جوں کا توں ہے۔ باسی سکھی جیون کی آس میں رینگ رہے ہیں۔ کچھ لنگڑا رہے ہیں ۔کئی یہاں سے بھاگ رہے ہیں ۔پاک نگر اب تک شہر کے سب سے خوبصورت مقام پر اپنی پوری خوبصورتی اور باسیوں کی ساری بدصورتی کے ساتھ کسی مسیحا کا منتظر ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے