شاہ لطیف اور رومی کے افکار کے تناظر میں

اقلیم عشق کی وسعتیں اہل خرد کے نزد جتنی محدود ہیں اہل دل کے لےے اتنی ہی لامحدود اور لا منتہا ہیں۔ عشق کی یہ لامنتہایت ہمیں فقط ان ہستیون کے احوال و افکار میں نظر آتی ہے جہاں وسیلہ عقل کے بجائے دل رہتا ہے۔ جہاں عقل کے استدلالی قدم لرکہڑاتے نظر آتے ہیں جہاں دل کے پر پرواز کی آوازسالک کی دمساز و ہمراز ہوتی نظر آتی ہے۔
اس مقام و منزلت کے اہل کسی زبان ، رنگ ، نسل یا علاقے کی شناخت محدود کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ ان کی آماجگاہ دلان زندہ دلان مکان لامکان کے مکین بے کمین ہوتے ہیں۔ ناموں کے تفاوت سے زبانوں کے تنوع کے اثبات اور زمین کے سینے کی شادابی کے اظہارکے لےے صرف نام بدل کر آتے ہیں۔ یہ معجزہ کہیں شاہ عبدالطیف بہٹائی سے سندہی میں، کہیں مولانا جلال الدین رومی سے فارسی کی رنگ میں نمودار یوتا ہے
شاہ لطیف کے نزد عشق کا محورا ور منبع در اصل وہ ذات مطلق ہے جہاں صوفیا کو اپنی اصل و اساس کا جلوہ ملتا ہے یعنی وہ عاشق و معشوق دونوں کے روپ میں موجود ہے ۔ شاہ سائیں فرماتے ہیں
وہ خود ہی عاشق ہے خود ہی معشوق
خود ہی خوبصورت تخلیق کرتا ہے
خود ہی اس کو چاہتا ہے
جبکہ مولانا رومی کے ہاں یہی تصور اور مقام اپنی پوری حقیقت کے ساتہ موجود ہے ان کے نزد انسان اپنی اصل سے جدا ہوکر اس دنیا میں آیا ہے اور واپسی کے لےے بے تاب ہے۔ اور اسکی اصل شاہ سائیں کی طرح وہی حق ہے جو خود تخلیق بہی ہے اور خالق بھی۔
وہ انسان کو بانسری کے استعارے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ مجھے میرے اصل سے جدا کردیا گیا ہے جبکہ میں نے اپنی اصل کی جانب لوٹنا ہے ۔
کز نیستان تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جویید روزگار وصل خویش
شاہ کے ہاںعشق کے مضمون کی نیرنگی بہت وسیع ہے وہ عشق کی زبانی ساری بات کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
ان کے نزد کائنات کی اصل اکائی عشق ہے
ہر فرد محبوب کی پرستش کرتا ہے
عشق کی زبان آنکھ ہے ،سو چو سمجھو
جو بات میرے دل میں ہوتی ہے محبوب جان جاتا ہے
عشق کی زبان آنکھ ہے ،سو چو سمجھو
عبداللطیف جو بولتا ہے وہ تمہاری آواز ہے
شاہ لطیف کا عشق حق کا مظہر ہے ان کا اظہار حق کا اظہار ہے۔ جو بات ان کے دل میں ہوتی ہے وہ محبوب جان لیتا ہے۔ اقبال کے بقول۔ گفتہِ او گفتہِ حق می شود۔
اسی حوالے سے مولانا رومی کے ہاں عشق اصل ہے اور حق ہے ان کے ہاں جوبھی ہے حق اور مظہر حق ہے۔ ان کے نزد سب کچھ اس واحد مطلق سے ہے وہی آغاز وہی انجام
جز ب باد او نجنبد میل من
نیست جز عشق احد سرخیل من
ان کے ہاں عشق کی مثال ایک الگ اور جداگانہ دلیل رکھتی ہے ۔ وہ عشق کو خدا کی شناخت اور نزدیکی کی علامت سمجھتے ہیں
علت عاشق علتہا جداست
عشق اصطرلاب اسرار خداست
یعنی عشق کا معاملہ جہان اور جس سے بھی ہو اس کا اصل و ماوا وہی ہے۔
عاشقی گر زین سر و گر زان سرست
عاقبت ما را بدان سر رہبرست
سائیں کے ہاں عشق کا مقام زندگی کی حقیقتوں سے ہوتے ہوئے دار و رسن کی بلندیوں تک جاتا ہے جس طرح خواجہ فرید الدین عطار عشق کی سات دشوار گزار وادیوں سے گزار کر سالک کو منزل مقصود تک پہنچا تا ہے اسی طرح شاہ سائیں بھی عاشقوں کو دار کی نوید دیتا ہے۔
دار عاشقوں کو بلا رہا ہے
اگر تجھے وصل کی آرزو ہے تو قدم پیچھے نہ ہٹانا
سر کو الگ رکہ پہر عشق کی بات کر
۔۔۔۔۔۔
دار عاشقوں کی زیب و زینت ہے
پیچہے بڑہنا ان کے لےے معیوب ہے
آگے بڑہنا ان کا شیوہ ہے
عاشقوں نے شروع ہی سے مرنا قبول کیا۔
جلال الدین رومی کی فضائے عشق شاہ سے کچھ الگ نہیں ہے ان کے ہاں عشق میں ہر تکلیف فخر اور کامیابی ہے ہر مشکل منزل کی نوید ہے۔
این چہ بلبل این نہنگ آتشیست
جملہ ناخوشہاا ز عشق او را خوشیست
ان کی نظر میں خوشی اور غم آپس میں مد غم ہوکر رہ جاتے ہیں اور عاشق ہر مرحلے کو بخوبی قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یعنی اس کی نظر میں بہار اور خزاں ایک ہو جاتے ہیں وہ ہر موسم میں عشق کے موسم کے بہار میں سر سبز ہی رہتا ہے
باغ سبز عشق کو بی منتہاست
جز غم و شادی درو بس میوہاست
عاشقی زین ہرر دو حالت برترست
بی بہار و بی خزان سبز و ترست
ان ہستیوں کے ہاں عشق عبادت کی طرح ہے کہ اس کو جتنا پوشیدہ رکہو گے اتنا ہی کامل ہوگا یعنی اس میں بہی دکھاو ے اور خود نمائی کی گنجائش نہیں ہے۔
شاہ فرماتے ہیں :
میں انہیں کیسے عاشق تسلیم کروں جو روتے ہیں
اور اپنے آنسو دنیا والوںکو دکہاتے ہیں
مولانا رومی کے ہاں بھی یہی مضمون ان کے اپنے انداز میں بار بار ذکر ہوا ہے۔ ملاحظہ ہے
عشقہایی کز پی رنگی بود
عشق نبود عاقبت ننگی بود
ان کی نظر میں عشق عاشق کی ایک دایمی ریاضت ہے جو اس کو اندر اندر گہلاتا اور سجا تا ہے۔ اور یہی وہ عمل ہے جو عاشق کو بام عروج تک پہنچا تا ہے۔ ان کی نظر میں عاشق آرام اور خوراک تک سے بے نیاز ہوتا ہے ان کے زیان میں ہی سود ہوتا ہے۔
عشق نان بی نان غذای عاشق است بند ہستی نیست ہر کو صادقست
عاشقان را کار نبود با وجود
عاشقان راہست بی سرمایہ سود
شاہ کے ہاں اس خیال کو کہ عاشق اپنے عشق کا خود مدعی ہے وہ جو ہے جیسا ہے اس کی خبر دوسروں کو نہیں ہونے دیتا۔ اس کا رونا ہنسنا سب کچہ اس کی خلوت میں ہوتا ہے۔وہ یوں اظہار فرماتے ہیں۔
لطیف کہتا ہے جن کو عشق کا آزار ہوگیا ہے ،
اور جن کا عشق کامل ہے ، ان کی رات روتے ہوئے گزرتی ہے
جبکہ رومی کی نظر میں ان کا وجود عدم میں وجود پا جاتا ہے
عاشقان اندر عدم خیمہ زدند چون عدم یک رنگ و نفس واحدند
اور یہ بہی کہ عشق لازوال ہے یہ بقا ہے اور کسی کا محتاج نہیں ہے
ماییم مست و سرگران فارغ ز کار دیگران
عالم اگر برہم رود عشق تو را بادا بقا
اس حوالے سے شاہ لطیف بھی کئی مقامات پر فرما چکے ہیں کہ عدم عشق ، عشق کا وجود ہے اور عشق کا مرض عشق کی شفا ہے۔
جس کو مرض لاحق ہوا اسی کو صحت ملی
عاشقوں کو درد پیارا ہوتا ہے
ان عظیم شعرا کے ہاں ایسا نہیں کہ عشق کو ایک لامکان اور انسانی جہان سے بالاتر شے سمجھ کر آدمی کی دسترس سے کہیں دور لے جا کر کھڑا کریں۔ بلکہ عشق کی تفہیم ان کے ہاں عام انسانوں کی عام زندگی کے ساتہ ساتہ کرواتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ہماری داستانوں میں عشقیہ کردار ان کے حقیقی کردار ہیں۔ ایک مثال شاہ کے خرمن سے جو سر سوہنی میں فرماتے ہیں۔
سوہنی پر ازل سے عشق کی نوازش تہی
مہیوال کی محبت اسکی زندگی کا جزو بن گیا
مولانا رومی کے ہاں سے ایک مثال ملاحظہ ہو جو زلیخا اور یوسف کے عشق کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوے? فرماتے ہیں۔
عشق زلیخا ابتدا بر یوسف آمد سال ہا
شد آخر آن عشق خدا می کرد بر یوسف قفا
لیکن ان کا عشق در اصل روز الست کا عشق ہے جو ازل سے ابد کی ایک مکمل سفر کی دلیل ہے۔ شاہ فرماتے ہیں۔
وہ نشہ مے الست سے سرشار ہیں
سوز عشق سے تلاش حق میں سر گرداں ہیں
جبکہ یہی نکتہ مولانا رومی کے ہاں کچھ اور حسن و زیبائی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔
ملت عشق ازہمہ دینہاا جداست
عاشقان را ملت و مذہب خداست

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے