دل بھی مدت سے ہم کلام نہیں
اس خموشی کا کوئی نام نہیں

دشتِ جاں میں عجب ہے سناٹا
تیری یادوں کا بھی خرام نہیں

لوگ ڈرنے لگے بصارت سے
روشنی سے کسی کو کام نہیں

رنج کا دن ڈھلا مگر نہ ڈھلا
رنج کے دن کا کوئی شام نہیں

اس سخن ناشناس دنیا میں
نرم لہجوں کا احترام نہیں

ربطِ دل خاک ہوگیا شاید
اب کسی سے دعا سلام نہیں

جس پہ چلتے رہے ہیں مجھ جیسے
رہ گزر خاص ہے وہ عام نہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے