اُلجھتی، ہارتی نظروں کا ہمر کاب تو تھا
ہزار ٹوٹا ہوا تھا وہ ایک خواب تو تھا

میں اُن سے کہتا تھا اِک دِن بچھڑ ہی جائیں گے ہم
سو ہم کو سوجھتا پہلے سے کچھ حِساب تو تھا

اب اِس پہ کوئی نہ منزل نہ کوئی دوست سہی
مگر یہ راستہ ہی میرا انتخاب تو تھا

اُسی کی ضوہی سے روشن تھے رات دن میرے
وہ دور بھی مرا مہتاب و آفتاب تو تھا

کسا ہوا عجب اک راہ پر رہا جیون
کہ سخت سچ مرا مجھ پر اک احتساب تو تھا

کچل ہی رکھا تھا جس نے مجھے مرے اندر
وہ باہر آن مری ، میری آب و تاب تو تھا

وفا کچھ اس سے تھی نالاں مگر دل آجانا
اک اور رخ پہ بھی ، اک زندگی کا باب تو تھا

وہ جس نے مجھ کو نیا آدمی کیا کاوش
نظر نہ آیا مگر ایک انقلاب تو تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے