قبائے شہرِ زرغوں
کیوں ترے دا من، تری گلیوں میں
افسردہ لہو بہتا ہی رہتا ہے
اٹھے ہیں ہاتھ ان کی فاتحہ پڑھنے
کہ جنکے نام سے واقف نہیں ہیں
اے مرے چلتن کی آزردہ ہواﺅ
تم نے تو لک پاس پہ بھی امن دیکھا تھا
ہزارہ بستیوں میں پھول دیکھے تھے
یہ کیسا ماتمی موسم ہے
خوں آشام صبحیں ہیں
دوپٹوں کی سفیدی، سرخ ہوتی جارہی ہے
کسی بھی آنکھ ہیں آنسو نہیں رکتے
جنازے سسکیوں ہی کا کفن پہنے
گزرتے جارہے ہےں
نہیں معلوم قاتل کون ہے
کسنے ہے لوٹا، امن،
میرے گھر دریچوں کا
کبھی جو مرثیہ لکھتے
انیس، آکے یہاں
قلم سے خوں ٹپکتا
اور آنکھیں پوچھتیں تم سے
مرے اے شہرِ زرغوں
کن بلاﺅں نے تجھے گھیرا ہوا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے