کوئٹہ
عابد میر
سنگت کی ماہانہ فکری نشست کا انعقاد سولہ نومبر کی شام مری لیب میں ڈاکٹر منیررئیسانڑیں کی صدارت میں ہوا۔ نشست کے دیگر شرکا میں جیئند جمالدینی، جاوید اختر،آغا گل، وحید زہیر، افضل مراد، سرورآغا، نصراللہ وزیر، ڈاکٹر غلام محمد کھیترانڑ، شاہ محمد مری،ڈاکٹر عطااللہ بزنجو، کامریڈ کلیم، کلا خان، عبداللہ دشتی، رازق الفت اور عابد میر شامل تھے۔
نشست کے آغاز میں سنگت اکیڈمی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور ماہنامہ سنگت کے ادارتی بورڈ کے ممبر، براہوی و اردو کے نام ور ادیب عزیز مینگل کی ناگہانی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا گیا۔ جناب وحید زہیر نے دعا کرائی۔
نیز نشست کا اولین مضمون افضل مراد نے عزیز مینگل کی شخصیت سے متعلق پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اُس زمانے میں جب سینئرز ،نئے لکھنے والوں کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے، عزیز جان کا رویہ نہایت دوستانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے ہر موڑ پہ نہ صرف ہماری رہنمائی کی بلکہ ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے۔ افضل مراد نے ان کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی کاوشوں کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا۔ ان کا مضمون عزیز مینگل کی شخصیت سے متعلق سیر حاصل رہا۔ حاضرین نے اسے خوب سراہا۔
دوسرا علمی مضمون پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود خٹک کا تھا، جو بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدرِ شعبہ ہیں۔ ان کا مضمون رازق الفت نے پڑھ کر سنایا۔ ان کے علمی و تحقیقی مضمون کا عنوان تھا؛”خوانینِ قلات کے عہد میں اردو کی سرپرستی اور ترویج“۔ مضمون میں باضابطہ علمی و تحقیقی انداز میں یہ ثابت کیا گیا کہ خوانینِ قلات کے عہد میں اردو کی خوب سرپرستی کی گئی۔ نیز بلوچستان میں اٹھارویں سے بیسویں صدی تک اردو کی ترویج کا بھرپور جائزہ لیا گیا۔ ساتھ ہی اردو میں لکھنے والے اہم شعرا کا تفصیلی تذکرہ بھی کیا گیا۔ حاضرین نے صاحبِ مضمون کو بھرپور داد دی۔البتہ ایک نکتے پر بالاتفاق، اختلاف پایا گیا کہ اردو اس خطے میں خوانین کی سرپرستی میں نہیں بلکہ عوام کے رابطے اور اہلِ قلم کی کاوشوں سے پھلتی پھولتی رہی، نیز ماسواے ملا محمد حسن کے، باقی تمام اردو میں لکھنے والے(بالخصوص جن کا مضمون میں تذکرہ کیا گیا) ،خوانین ، خانیت، قبائلیت اور سرداریت کے خلاف لکھتے رہے۔ جیسے کہ یوسف عزیز مگسی، محمد حسین عنقا، نسیم تلوی، گل خان نصیر وغیرہ۔ مجموعی طور پر اسے ایک بھرپور علمی مقالہ مانتے ہوئے اس کی اہمیت و افادیت کو سبھی نے تسلیم کیا۔
تیسرا مضمون گل خان نصیر کے سال کے سلسلے میں عابد میر پیش کیا۔ اس مضمون کا عنوان تھا؛” گل خان نصیر کی اردو شاعری کا فنی جائزہ۔“ مضمون نگار نے گل خان نصیر کے اردو کلام کا تکنیکی حوالوں سے جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ گل خان نے اردو کے مختصر مجموعہ کلام میں زبان و بیان کے کس قدر متنوع تجربات کیے ہیں۔ مضمون نگار کے بقول گل خان کا کل اردو مطبوعہ کلا چوالیس کلام(غزلوں اور نظموں) پہ مشتمل ہے۔ان کے بقول اس مختصر کلام میں گل خان نصیر نے مجموعی طور پر 43تشبیہات و استعارات،242تراکیب، 106مرکبات، 49ہندی لفظیات،34محاورے،    09 تلمیحات استعمال کی ہیں۔ علاوہ ازیں مضمون نگار نے ان کے اسلوب اور شعری موضوعات پہ بھی بات کی۔ مجموعی طور پہ اس مضمون کو بھی پسند کیا گیا۔ البتہ شاہ محمد مری نے ایک نکتہ یہ اٹھایا کہ ہیئت کے ضمن میں اردو کے احباب ایک بات دیکھ لیں کہ بلوچی میں آزاد، معریٰ، مخمس وغیرہ کچھ نہیں ہوتا، اس میں تو بس ’شیئر‘ ہوتا ہے۔ جس میں بحر کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا، وزن البتہ ہوتا ہے، قافیہ ردیف اور نغمگی پہ زور دیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے گل خان نے اردو میں جو بھی لکھا، اسی بلوچی طرز ”شیئر“میں لکھا ہے۔
صدرِ مجلس نے اپنی گفت گو میں کہا کہ خاصے وقفے کے بعد آج کی نشست بھرپور رہی۔ تینوں احباب نے اپنے مضامین میں نہایت محنت کی۔ افضل مراد نے کافی عرصة بعد سہی، لیکن ایک اچھا مضمون پیش کیا۔ خالد محمود صاحب کو سنگت اکیڈمی میں خوش آمدید کہتے ہوئے ہم ان کی کاوش کو سراہتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں وہ آئندہ بھی سنگت کو اپنی علمی کاوشوں سے نوازتے رہیں گے۔ عابد میر نے گل خان کے کلام کا ایک نئے پہلو سے جائزہ لیا ہے، جو خوب ہے، ہم انتظار کریں گے کہ ان کے مضمون کی تفصیلات جلد شائع ہوں، تاکہ ہم اس سے محظوظ ہو سکےں۔ نیز انھوں نے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
نشست کے اختتام پر یہ طے کیا گیا کہ چونکہ گل خان نصیر کا صد سالہ جشنِ پیدائش کا سال منانے کا اعلان سنگت اکیڈمی کی جانب سے کیا گیا تھا، اور ہم سال بھر اپنی نشستوں میں باقاعدگی سے ان پر مضامین پیش کرتے رہے، اس لیے آئندہ ماہ دسمبر میں، جب کہ ان کی برسی بھی آ رہی ہے اوراُس کے نام سے منسوب یہ سال بھی اختتام کو پہنچ رہا ہے، تو اس سلسلے میں ایک بھرپور نشست کا اہتمام کیا جائے گا۔ جس میں اس بابت سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔ یہ تقریب دسمبر کے وسط میں ہو گی۔ اس سلسلے میں آغا گل، جاوید اختر اور عابد میر پہ مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس تقریب سے متعلق معاملات کا جائزہ لے گی۔
********
 خاران
ضیاءشفیع
سنگت اکیڈمی آف سائنسز خارانہ پوہ و زانت نشست 12 اکتوبر ا گورنمنٹ ڈگری کالج خارانا جوائنٹ سیکرٹری ضیاءشفیع ئے پاگواجی آجم دارگ بوت دیوائے بنگب ” گل خان نصیر و نوکیں لبزانک“ ات نشستہ تہا جی آر شاری داد شاہ مینگل ، عنایت بڑیچ و کالجے بازیں نودرباں بہر ذرت۔ ضیا شفیع آوتی ھیال درشان کرت و گشت کہ گل خانا اگاں مردم نوکیں لبزانکے آدینکا بچاریت گڑامردم ھمے سرپدبیت کہ نوکیں لبزانکے تہا گل خانہ پگرہ واہُند آئی حیال ، آئی شاعرےے رنگ باز گندگ ئے کیت او کہ نوکیں عہد ھیچبر گل خانہ پگر و آئی شاعری آ کدی ہم برداشت دکاں بلیں پداھم نوکیں لبزانکا گل خانہ پد منتگیں مڈی بزاں آئی جہد کہ پہ لبزانکا آئی کرتہ نوکیں لبزانک شہ آئی باز متاثر بوتہ و آئی راہ زرتہ۔ نصیر کبدانی لبزانکی دیوانہ پاکواجہ جی آر ۔ شاری وتی ھیال درشان کرت و گشت کہ بلوچی زبان کہ سئے تھرانی تہا پھر کنگ بوتہ مکرانی رکشانی ، سلیمانی بہر کنگ بوتہ سلیمانی و رکشانی لہجاں گل خان نصیر آزات جمالدینی ، ماما عبداللہ جان ، منیر بادینی، عاقل خان یا کہ دگہ رخشانی آبے لبزانکی جہد کار کہ آیاں بلوچی زبانا ھم جاہا برتگ و ریسنتگ کہ بلوچی زبان گوں دری زباناں ہم کوپک انت ۔
**********
خاران
سنگت اکیڈمی آف سائنسز ماہانہ نشست16نومبر2014 یونیورسٹی آف بلوچستانئے بوائز ہاسٹل جوائنٹ سیکرٹری ضیا شفیع ئے پاگوا جیا جم دارگ بوت دیوانے تہا میر فضل میر، داد شاہ مینگل و علی حمزہ بہر زرت و بلوچی زبانے سر شاعر، میر گل خان نصیرے رومن رسم الخطے سرا گپ و تران کنگ بوت ۔ضیا شفیع ئَ وتی ہیال درشاں کر ت و گشت کہ گل خان نصیر کہ بنیادا کہ رومن رسم الخطے نیمگا بوتا واے حوالہا اَئی بازوار بلوچی ے درائیں شاعر و زانتکارانی مچی ے تہا اے گپ دیما آﺅرت کہ اگاںرومن رسم الخطہ رائج بکناں گڑا بلوچی زبان چیزے مدتے تہا ہما جا ہا سر بہ بیت کہ سر کس فکر کرت ہم ۔ بلیں میر گل خانا ایئر جنگ بوت۔ اگاں آزمانگا گل خانے گپ زورگ بونیں گڑا اے وختا بلوچی زبان دنیائے کنڈا کنڈا وانگ وزانگ بوت و بازیں زبانانی تہا بلوچےے دپتر بدل کنگ بوتاں بلیں گل خانے گپ زورگ نہ بوت کہ مروچی بلوچی زبان بس تا چیر ئے بلوچاں تک محدود انت۔
میر فضل میر اوتی ھیال روشاں کرت و گشت کہ رومن مروچی دنیا ے تہا ہما اولی رسم الخط انت کہ اےشی زورگا پد دنیا ے بازیں گار و بیگواہیں زباناں ردوم زرتگ و مروچی ھما جاھا سرانت کہ آیانی وت گمانا نہ بوت انگہ وخت است اگاںماپروتی باندے واسطہ رومنے وڑیں رسم الخطے ہمرا ھیا بکناں گڑا بلوچی زبان سک زوت دنیائے مستریں زباناں شریکے بیت۔
داد شاہ مینگل ئَ وگشت کہ من یکبرے اسلام آباد اہم چیزے ادیبانی دیما ھمے گپ دیما آ ﺅرت کہ اگاں شما لوئت کہ بلوچی زبان دیمرﺅی بکنت گڑا ایشی واسطہ شما را رومن رسم الخطے سراکار کنگی انت ۔ گڑا منا ھمے گشگ بوت کہ اگاںاستیں رسم یل کنگ بوت گڑا بلوچی زبان 60 سال پدی رﺅت۔ بلیں بلیں من آ واجہاں گشگ لوٹاں کہ سرپدیں مردم ھما اں کہ پہ آﺅکیں باندا فکر بکنت۔ زی شت۔ زی چے بوت چے نہ بوت زی ئَ گوں زییا بل۔ انوں بائدیں بلوچی ے سر پدیں ادیب و شاعرانی ہمراھے پہ بلوچی ے باندایک جوانیں رنگے دیما آﺅرت کنت۔ گوں ھمے گپاں دیوان آسر بوت۔

سنگت سوشل میڈیا واچ

سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رحجان میں سنگت بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اور سنگت کو سوشل میڈیا پہ قارئین کا وسیع حلقہ میسر آیا رہا ہے۔ نئی صورت(نیو لک) کے ساتھ یونی کوڈ پہ منتقل ہونے والی سنگت کی نئی ویب (www.sangatacademy.net)محض تین ماہ کے دوران 3400سے زائد وزیٹرز حاصل کر چکی ہے۔ محض نومبر کے ابتدائی بیس دنوں میں اسے 526لوگوں نے وزٹ کیا(واضح رہے کہ یہ اعداد وشماراُنیس نومبر کو لیے گئے ہیں)۔ان میں سے 1943وزیٹرز کا تعلق پاکستان، 414کا امریکہ، 130 کا یورپ، 118کا آئرلینڈ، 82کا برازیل، 75کا انڈیا،74کا برطانیہ، 60کاعرب امارات، 42کا ساو¿تھ افریقہ اور 38کا سوئیڈن سے ہے۔
سنگت کا فیس بک پیج کوئی سات ماہ قبل بنایا گیا
(https://www.facebook.com/sangatacademy)، یہ اب تک کل 1260لائیکس حاصل کر چکا ہے۔اس صفحے پر سنگت کے نئے پرچے کی منتخب تحریریں رکھی جاتی ہیں، جنھیں بالخصوص یونی کوڈ پہ منتقل ہونے کے بعد قارئین کی وسیع تعداد پسندیدگی سے پڑھ رہی ہے۔ نومبر2014ءکے ٹائٹل کو 101لوگوں نے دیکھا۔ طاہرہ اقبال کو مضمون 82لوگوں تک پہنچا۔ پوہیں بلوچ کے مضمون انسان کو 75لوگ دیکھ پائے۔ طاہرہ اقبال کے ایک اور مضمون ’بلوچستان کا مسئلہ اور اردو افسانہ‘ کو174قاری ملے۔اُس کے افسانے شہ رگ کو 222لوگوں نے دیکھا ،جوانسال بگٹی کی شاعری 190لوگوں نے دیکھی۔ یکم نومبر کو پوسٹ ہونے والا نجیبہ عارف کا مضمون ’اردو اور دیگر قومی زبانیں‘ بیس دنوں میںنہ صرف 800لوگوں تک پہنچا بلکہ اس پہ خاصی بحث بھی ہوتی رہی۔ ڈاکٹر انوار احمد پر لکھے شاہ محمد مری کے خاکے کو 980 افراد نے دیکھا۔سلیم حسنی کی شاعری کو 250قاری ملے۔ غلام عباس کا افسانہ ’کتبہ‘ 198لوگوں نے پڑحا۔ آدم شیر کا مضمون 412لوگوں تک پہنچا۔ آغا گل کا افسانہ ’زہریلا انسان‘کو267قاری دیکھ پائے۔ کرشن چندر کا افسانہ تین غنڈے181قارئین کی نظروں سے گزرا۔ ثروت زہر ا کی نظم 191، منیر رئیسانڑیں کی غزل 272،غنی پہوال295،اور عطا شاد کی بلوچی شاعری 221لوگوں نے پڑھی۔ڈاکٹر نبیلہ کا اٹلی کے شاعر کا ترجمہ 273لوگوں نے دیکھا۔ ستیہ پال آنند کی نظم 180قارئین کو پہنچی۔احمد شہریار کی 13نومبر کو پوسٹ کی جانے والی نظم محض ایک ہفتے میں 268لوگوں کی توجہ اپنی جانب حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے