عورت کے کئی روپ ہیں۔کئی کرداروں میں عورت کو اہم ہستی سمجھا جاتا ہے۔ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کی روپ میں اس کی عزت و عظمت مسلمہ رہی ہے۔خون ریز لڑائیاں عورت کے بیچ میں آنے سے رک جاتی تھیں۔عورت ہی کے خاطر خون ریز لڑائیاں بھی تاریخ کا حصہ رہی ہیں
موجودہ دور میں عورت ایک کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔اسکی سماجی حیثیت کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔عورت سے درد ناک واقعات کا پیش آنا روز کا معمول بن گیا ہے۔
حال ہی میں جنوبی افریقہ کے صوبے لمپوپو میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا جس کو سنتے ہی رشتوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔سرکاری نشر یاتی ادار ے ساو¿تھ افریقہ براڈ کاسٹنگ کار پوریشن کے سر براہ موتسو اینینگ کو علاقے کے دورے کے دوران دس نوجوان لڑکیاں دکھائی گئیں۔جن میں سے ایک 23 سالہ لڑکی کو انھوں نے پسند کیا۔اور وہ لڑکی اسے تحفے میں دی گئی۔اس موقع پر لڑکی کے والدین بھی موجود تھے۔گویا وہ بھی اس قبیح عمل میں شریک اور راضی تھے۔اب کس رشتے پر اعتبار کیا جائے۔
نائیجیریا میں شدت پسند تنظیم بو کو حرام نے سکول کی 300 لڑکیوں کو پڑھنے کے جرم میں اغوا کر کے انھیں نیلام کرنے اور غلام بنانے کا اعلان کیا۔
نیپال کے ایک دور دراز پہاڑی علاقے میں عورت کو ایک عجیب قسم کی سزادی جاتی ہے۔خاص ایام میں عورت گھر سے باہر ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں منتقل کی جاتی ہے۔اس سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتاہے۔کھانے پینے کے برتن الگ کئے جاتے ہیں۔ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا جاتاہے۔ان مخصوص ایام میں عورت کو ناپاک سمجھا جاتاہے۔
اسرائیل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی عورتیں ہیں جن کے شوہر ان کے ساتھ نہیں رہتے۔اسکے باوجود وہ طلاق نہیں لے سکتی ہیں۔
ہندوستانی ریاست کیرالا میں نائر قبیلا کے لوگ اپنی لڑکیاں اور عورتیں برہمن قبیلا نبودری کے سامنے برھنہ کر کے لاتی ہیں۔اور برہمن ان میں سے اپنی پسند کی لڑکی کا انتخاب کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران میں بھی عورت مذہبی استحصال کا شکار ہے۔عراق اور افغانستان جنگ میں سب سے زیادہ ظلم کا شکار عورت ہی رہی ہے،پڑھا لکھا پنجاب میں عورت کی استحصال کی خبریں بھی میڈیا کا موضوع بنتی رہتی ہیں۔حال ہی میں بلوچستان کے کچھ علاقوں میں مذہب کے نام پر عورتوں پہ تیزاب ڈالا گیا۔ان کو تعلیم سے دور رکھنے کی دھمکی دی گئی۔
دنیا میں عورت کے ساتھ ظلم ،ذہنی و جسمانی استحصال کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ایسے واقعات عورت کی ترقی اور سماجی رتبے میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ایک طرف تو مرد و زن میں مساوات کی بات کی جاتی ہے، اُن کو آگے بڑھنے کے برابر کے مواقع دینے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔لیکن ایسے واقعات سامنے آنے سے سماجی تضاد کا خطر ناک چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کبھی روایات اور کبھی کسی اور نام پر عورت کا استحصال ہمیشہ ہوتا رہے گا۔کیونکہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے