اے امامُِ سخن‘ وارثِ حرف و صوت و شبیہہ
فکرِفردا و امروز کے اے امیں
دل مرا‘ طاقِ بازار میں رکھ کے بھولا ہوا اک کھلونا نہیں
میں قلم کی حفاظت پر مامور‘ سارے فرشتوں کو سمجھا چکا
فکر کی ہر بلندی سے جھانکا ہے سوئے زمیں……..تب یہ سمجھا کہیں
فکر گزرے ہوئے ہر زمانے کی بس ہے خبر
آنے والے زمانوں کی شاید بشارت بھی ہو
ہاں مگر!……..اس میں لذت نہیں‘ جسم جیسی حرارت نہیں‘ عشقِ آدم نہیں
فکر‘ صفحاتِ تاریخ پر‘ سبز پتوّں پر ٹھہری ہوئی بارشوں کی نمی
آپ بارش نہیں……..جس میں تہذیب چٹکے وہ نیساں نہیں
عہدِ نو میں مگر
فکر ،سائنس کی شاخ ثمر بارہے……..    نوعِ آدم کو تقسیم کرتی ہوئی،ایک دیوار ہے
دور سرمایہ میں ایک کنیزِ سخن…….. مطربِ خوشنوا‘نفع خُو‘ اک دّرک
جس سے انسان گہنا گیا
اس کے مقتول‘ مرنے کی حسرت کے مقروض ہیں
موت جن کیلئے کوئی محبوبہ‘ ماہ ِلقا
قلعہ ِہست کے طاقچوں میں چنا مرگ خواہ
استخوانِ بریدہ پہ جمتی ہوئی خون کی پپڑیاں    ……..فکرِ عصرِ رواں
ایک سرمایہ پرور‘ ریاکار سی ساحرہ
اپنی‘ اپنی ضرورت کی فتنہ گری کے جلو میں جواں
نظم ِغارت ِگر جام و دل …….. ہے شکستِ دلیل و دعا
باغِ بادام سے چھین کر لے گئی……..عصمت ِگل سے مہکی ہوئی چاندنی
فلسفہ،شعر و حکمت کی قدروں کے اے ترجماں
اے امام سخن
دل شہنشہ مرا
کارِشیشہ گری ِمعیشت سے کب رک سکا
عشق ِآدم کا یہ کارواں
دل کہ…….. سود و زیاں کی کشا کش سے آزاد ہے
یہ خرابوں میں بیٹھا ہوا…….. کوئی سادھو ،فقیر
جس کی مٹھی میں سارے جہانوں کے خوابوں کی تعبیر ہے    ……..ایک قطرہِ خوں
اک قطرہ ِخوں……..دل مرا
طاقِ بازار پہ رکھ کے بھولا ہوا اک کھلونا نہیں
دل مساوات ہے…….. عشق ہے‘ ایک تہذیب ہے
غم کی تہذیب جس میں نہیں    ……..کوئی فتنہ گری
اور مساوات سے اس طرف اک قدم ،
لود و عنبر سے مہکی ہوئی ایک قربان گہ…….. حرّیت آشنا
ایک طرزِ عبارت ہے اک خواب ہے
یا کہ پھر
خواب کے واسطے جینے‘ مرنے کا فن!
اے امام سخن……..!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے