کبھی یاد آﺅ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمنائیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہیں رنگ رنگ نکھاردیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ بحر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آﺅ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنون بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کِھل سکو شبِ وصل میں
کبھی خون جِگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناﺅ تو اِس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراﺅ تو اِس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاﺅ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاﺅ ں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذاب ِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اجڑ سکیں، نہ سنو ر سکیں
کبھی دل دکھاﺅ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاﺅ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آﺅ تو اس طرح!!!
کبھی یاد آﺅ تو اِس طرح !!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے