”ساتھیو! آپ مجھے ایک موقع دیں۔ میں علاقے کی تقدیر بدل دوں گا۔ گلیاں پکی کرا دوں گا۔ ٹوٹی پھوٹی، گندی میلی سڑکیں میرے بوٹوں کی طرح چم چم کرنے لگیں گی۔ ہسپتال بناﺅں گا جہاں مفت علاج ہوگا۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے کالج بنواﺅں گا۔ بس مجھے ایک بار آزما کے دیکھیں۔ میں کوئی باہر سے نہیں آیا۔ سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا۔ میں آپ جیسا ہوں۔ اس لیے مجھے ووٹ دو۔ میں ہی آپ کے قیمتی ووٹ کا اصلی حق دار ہوں….“
معراج دین نے چودھری رب نواز کی تقریر سنی اور محسوس ہوا جیسے یہ الفاظ پہلے بھی سن رکھے ہیں۔ انتخابات کا زمانہ تھا۔ ہر رہنما ایک جیسے وعدے کر رہا تھا۔ معراج دین بچپن سے وعدوں پر جیتے جیتے پچپن سال کا ہو گیا لیکن تقریر بدلی نہ تقدیر…. پھر بھی وہ جلسوں میں شرکت کرتا اور ووٹ ڈالتا۔ کبھی اسے خار پشت کی پشت جیسے کانٹوں بھرے نظام پر پورا یقین تھا لیکن اب یقین کی سِل میں سوراخ ہونے لگے تھے۔
معراج دین نے ایک روز پہلے وڈیرے بادل کی تقریر سنی تھی۔ دو روز پہلے سردار حیات کے جلسے میں شریک تھا۔ کل عاشق خان کی تقریر سننے کا سوچ رکھا تھا۔ نبیلہ رانا اور ساجد علی کے سیاسی اکٹھ میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ نبیلہ کو پسند نہیں کرتا۔ ساجد علی پڑھا لکھا اور کچھ ٹھیک معلوم دیتا لیکن کمزور تھا۔ اس کے متعلق وہ کشمکش کا شکار تھا۔ ابھی طے نہیں کیا تھا کہ ووٹ کس کو دے۔ اس بار کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔
معراج دین کا چھوٹا بیٹا فیروز دین ہربار ابا کے کہنے پر ووٹ ڈالتا ہے۔ بڑا بیٹا محمد دین کبھی ووٹ ڈالنے نہیں گیا۔اس نے قسم کھا رکھی ہے۔ معراج دین اور محمد دین میں اسی لئے اَن بن رہتی ہے۔ اسے معراج دین کا جلسوں میں خوار ہونا پسند نہیں۔ کئی بار چخ چخ ہوئی لیکن معراج دین کیا کرے، اسے چسکا ہے۔ ساری عمر ریلوے کی کلرکی میں سیاست ہی کرتا رہا۔ محلے میں بھی سیاسی لوگوں کے آگے پیچھے پھر کر وقت کاٹ رہا تھا۔ محمد دین جب اسے وقت ضائع کرنے سے منع کرتا تو معراج دین ایک ہی بات کہتا۔
”انہی سیاسی لوگوں کی وجہ سے تھانیدار نے فیروز دین کو چھوڑاتھا۔“
محمد دین کے کان یہ بات سنتے سنتے پک چکے تھے لیکن معراج دین کہتے کہتے نہیں تھکا۔ محمد دین کے خیال میں فیروز نے ویسے بھی کچھ دے دلا کر چھوٹ جانا تھا۔ جب معراج دین چودھری رب نواز کے جلسے سے فارغ ہو کر گھر آیا تو محمد دین نے آتے ہی گھیر لیا۔
”چودھری کے جلسے میں گئے تھے؟“
”ہاں۔ کیوں؟ تجھے کیا تکلیف ہے؟“ معراج دین پہلے ہی بے زار تھا۔
”کچھ نہیں۔ ایسے ہی پوچھا۔ آج بسیں غائب تو نہیں ہوئیں ناں؟“ محمد دین نے چھیڑا۔
”نہیں۔ جا، جاکر میرے لیے سگریٹ لا۔ زیادہ باتیں نہ کر۔ تو چار لفظ پڑھ کر زیادہ سیانا نہ بن۔“ معراج دین کو غصہ آ گیا۔ اس کا تعلق ایسے طبقے سے تھا جسے بات بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ غصے کا اظہار نہ ہو تو آنسو آجاتے ہیں۔ غصہ اور آنسو ایک ہی ماں کے بچے لگتے ہیں۔ خوف شاید چچا زاد ہے۔ یہ تینوں اس سفید پوش طبقے کو بہت پیارے ہیں جس کی دھجیاں بکھیری جاچکی ہیں۔ معراج دین کا طبقہ سرے سے ختم ہو چکا ہے۔ پہلے وہ متوسط طبقے میں تھا۔ اب غرباءمیں شمار ہوتا ہے۔ جبھی غصہ بڑھ گیا ہے۔
معراج دین کو پہلوٹی کے بیٹے محمد دین کی کھوپڑی شروع سے الٹی لگتی ہے۔ ہر بات پر بحث کرتا ہے۔کوئی کام کہو تو فوراً کردیتا ہے لیکن کوئی کام کرو تو کیڑے نکالتا ہے۔ معراج دین کو اکثر حیرانی ہوتی۔ بحث یوں کرتا ہے جیسے ابھی لڑ پڑے گالیکن حکم ٹالتا بھی نہیں۔ سوائے ایک بات کے کہ کئی بار کہنے پر ووٹ ڈالنے نہیں گیا۔معراج دین کے اصرار پر وہ یہی کہتا۔
”ابا! یہ سب فراڈیئے ہیں۔ میں اس گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ “
”اوئے !جمہوری نظام میں سب غلط نہیں ہوتے۔“ معراج دین سگریٹ کا دھواں چھوڑتا تو محمد دین کا جواب پہلے سے تیار ہوتا۔
”ابا! کونسی جمہوریت؟ مال بنانے کا کھیل ہے۔ “
”چل میرے منہ نہ لگ۔“ معراج دین جل کر بات ختم کر دیتا۔ اب تو اسے بھی یہی محسوس ہوتا لیکن پھر بھی وہ ووٹ ڈالتا ہے۔ ساجد علی کے بارے میں اس کا خیال تھا وہ تبدیلی لاسکتا ہے، ملک میں نہ سہی، علاقے میں تو کچھ بدلے گا مگر اسے یقین تھا ساجد علی کبھی نہیں جیتے گا۔ اس کے پاس جاگیریں ہیںنہ کارخانے ،جلسے پر خرچنے کے لیے پیسے بھی نہیں…. وہ ووٹ خرید نہیں سکتا تو جیتے گا کیسے؟
معراج دین کی بیوی مقصودہ بھی ایک جماعت کی سودائی ہے۔ مقصودہ کے ابا نے ہمیشہ اسی جماعت کو ووٹ دیا۔ اس جماعت کے پاس بے مثال نعرہ تھا۔ معراج دین دوسری جماعت کا دیوانہ ہے۔ فیروز دین بھی اسی کے جھنڈے اٹھائے پھرتا ہے جس کا امیدوار چودھری رب نواز ہے۔ اس نے معراج دین سے وعدہ کیا تھا کہ فیروز کو پولیس میں بھرتی کرادے گا۔ معراج دین جانتا تھا جیت چودھری رب نواز کی ہوگی۔ اس کا باپ بھی جیتا کرتا تھا۔ اس کا دادا بھی بڑا سیاستدان تھا۔ معراج دین اکثر اپنے باپ دادا کے متعلق سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کا باپ چھابڑی لگاتا تھا۔ اس کا دادا ناشتہ لگاتا تھا۔ نسل در نسل چلنے والے چکر کا پھیر بدلنے کے لئے اس نے محمد دین کو خوب پڑھایا۔
معراج دین کو محمد دین پر بڑا مان تھا۔ محمد دین سکول جاتا تو اسے چڑھتا سورج محسوس ہوتا۔ سکول سے واپس آتا تو دوپہر کی تمازت محسوس ہوتی۔ رات کو چاند جیسی ٹھنڈک سینے میں اطمینان کی لہر دوڑا دیتی اور وہ میٹھے خواب دیکھتا۔ معراج دین نے اپنے بچپن میں کئی خواب دیکھے تھے۔ ان کے ٹوٹنے پر دکھ بھی ہوا لیکن محمد دین سے وابستہ خواب ٹوٹے تو اسے باغ اجڑا اجڑا لگتا۔ ساری زندگی کی محنت پر پانی پھرتا محسوس ہوتا۔ فیروز دین تو چلو تھا ہی نالائق ڈھکن لیکن محمد دین کا حال رائج الوقت نظام کے منہ پر طمانچہ تھا۔
محمد دین کو جب کسی نے افسر نہیں بنایا تو معراج دین نے سمجھایا کہ ریلوے میں بھرتی ہو جائے۔ محمد دین کلرک نہیں بننا چاہتا تھا۔ افسر اسے کوئی بناتا نہیں تھا۔ افسر بننے کے لئے جس تیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے تلوں میں نہیں تھا۔ تب محمد دین نے ریڑھی لگانے کو ترجیح دی۔ معراج دین اپنے اول درجہ میں ایم ایس سی کرنے والے بیٹے کو دیکھ کر کڑھتا رہتا مگر محمد دین خوش رہتا، گالیاں نکالنے کے باوجود مسکرانے کی کوشش کرتا۔ معراج دین زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن بے وقوف بھی نہ تھا جو ہنسی کے پیچھے چھپا کرب محسوس نہ کر سکے۔ وہ محمد دین کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ چودھری سے بات بھی کی لیکن سامنے وہی کلرکی تھی۔
محمد دین سے تلخ کلامی کے باوجود وہ انتخابی مہم کے آخری دن چودھری رب نواز کے جلسے میں چلا گیا۔ چودھری رب نواز کا جلسہ بہت بڑا تھا۔ معراج دین کو جلسہ گاہ دیکھ کر یاد آیا کہ پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کو بسوں میں ٹھونس کر نہیں لایا جاتا تھا۔ سیاستدان گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے تھے۔ یہ الگ بات ہے دوبارہ انتخابات تک شکل نہ دکھاتے۔ معراج دین جلسے میں اپنی یادوں میں کھویا رہا۔ تقریر کا ایک لفظ بھی اس کے دماغ میں نہ گھس سکا۔ کان پھاڑنے اور دل دہلانے والے نعروں کی گونج میں معراج دین نے اپنی دنیا بسا لی۔
معراج دین کو یاد آیا جب اس نے بتایا تھا کہ چودھری رب نواز کا والد ووٹ مانگنے آتا تو ابا کے گلے ملتا حالانکہ ابا کے کپڑے بھی صاف نہیں ہوتے تھے۔ معراج دین کی یہ بات سن کر فیروز اور مقصودہ کی آنکھیں چمک اٹھیں لیکن محمد دین مسکرا رہا تھا۔ محمد دین کو مسکراتے دیکھ کر اسے محسوس ہوا جیسے محمد دین اسے بے وقوف سمجھتا ہے۔
”ہنس کیوں رہا ہے؟“ معراج دین نے رعب سے پوچھا۔
”یونہی….“ محمد دین قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
”مجھے پتا ہے ت±و مجھے سائیں سمجھتا ہے۔“
”نہیں۔ ابا تمہارا وہم ہے۔“ محمد دین نے سنجیدگی سے کہا۔
”ابا! یہ اتنے مکار لوگ ہیں کہ لومڑی کی کھال بھی بیچ دیں۔ ان کےلئے جذباتی نہ ہوا کرو۔“
”پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔“ معراج دین نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”اچھا انگلیاں برابر نہیں ہوتیں توان کے محل کیوں برابر بڑھتے رہتے ہیں؟“
”وہ کام کرتے ہیں،الو کے پٹھے،تیری طرح ریڑھی نہیں لگاتے۔“ معراج دین کو تاﺅ آ گیا۔
”ہاں۔ یہ بات تو صحیح ہے۔ میں ریڑھی لگاتا ہوں۔ وہ کام کرتے ہیں…. ہماری جیبوں سے پیسے نکالنے کا….“ محمد دین یہ کہہ کر کھسک گیا۔ معراج دین کو یاد آیا محمد دین ہمیشہ ایسے ہی تیلی لگا کر غائب ہو جاتا۔ وہ جلسہ گاہ میں کھڑا محمد دین کی باتوں کی جگالی کر رہا تھا۔
”ابا !تمہارا کیا ہے؟ تم تو نعروں پہ بک جاتے ہو۔ “
”تم سب بکاﺅ مال ہو۔ تمہاری تقدیر کیا بدلے گی۔“
”تقدیریں نالیاں بنانے سے نہیں ، انصاف کرنے سے بدلتی ہیں۔“
”تمہارے لیڈروں کی تدبیریں صرف زنجیریں بدلتی ہیں۔ “
”ابا تم ان لوگوں کےلئے اتاولے ہوئے جاتے ہو، جو تمہاری محنت پر پل رہے ہیں اور کاٹتے بھی تمہی کو ہیں۔“
معراج دین کو جیسے جیسے بیٹے کے الفاظ یاد آ رہے تھے،اس کا دھیان ہٹتا جا رہا تھا۔ وہ چودھری رب نواز کے سامنے کھڑا تھا لیکن اس کا دماغ کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ تقریر کے دوران نعرے اور تالیاں دماغ پر ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتیں مگر وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ نہ کوئی تالی…. نہ کوئی نعرہ….یونہی گم سم کھڑا جلسہ ختم ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ تقریر ختم ہوئی تو ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا شروع ہو گیا۔ وہ دھکے کھاتا اور دیتا ہوا پنڈال سے نکلا اور گھر آگیا۔
محمد دین ابھی واپس نہیں آیا تھا۔ فیروز دین چودھری ربنواز کے ساتھ ہی تھا۔ معراج دین کچھ دیر مقصودہ سے باتیں کرتا رہا۔ پھر نیند کی گولی کھائی اور سو گیا۔ جب وہ سو کر اٹھا تو محمد دین روٹی کھا رہا تھا۔ معراج دین جا کر بیٹے کے سامنے بیٹھ گیا جو کھانا کھا رہا تھا۔ معراج دین کے لئے بھی کھانا آ گیا جو اس نے کھانا کھاتے ہوئے محمد دین سے پوچھا۔
”یار! تم مجھے واقعی بکاﺅ مال سمجھتے ہو؟“ محمد دین مسکرایا اور معراج دین کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
”ہم سب بکاﺅ مال ہیںبلکہ غلام ہیں۔“
” وہ کس طرح؟“ معراج دین نے آنکھیں جھپکائیں۔
”خدا نے ہمیں انسان بنانے کے لئے صحیفوں کی صورت میں قوانین بناکر بھیجے لیکن یہ تمہارے سیاستدان قانون بناتے ہیں ہمیں غلام بنانے کے لئے۔ “ محمد دین نے بات مکمل کرکے گردن ہلا کر نوالہ یوں نگلا جیسے کہیں کچھ پھنس گیا ہو۔ معراج دین ایک گہری ”ہوں“ کے بعد چپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ کھانا کھا کر چنگیری پرے رکھ دی۔ معراج دین کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر محمد دین بولا۔
”ابا! ایک بات بتاﺅ۔“
”ہاں پوچھ۔“ معراج دین کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس کی عمر ایسی تھی جس میں گورو مانے جانے کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے۔
”آپ کبھی اصلی ریشم کے بستر پر سوئے ہیں؟“
”نہیں۔“ معراج دین نے حیرانی سے جواب دیا۔
”آپ کو پتا ہے اصلی ریشم کے بستر پر نیند کیسے آتی ہے؟“
”نہیں۔ جب میں سویا ہی نہیں، مجھے کیا پتا ہو کیسے آتی ہے۔“معراج دین کی آواز میں تیزی در آئی۔
”تو پھر اصلی ریشم کے بستر پر سونے والے کو کیا پتا ہو۔ تمہیں بید کی چارپائی پر نیند کیسے آتی ہے۔“
”کی مطلب اے تیرا؟“ معراج دین نے فٹ پوچھا۔
”ابو ! بھرے پیٹ والا خالی پیٹ کی تکلیف نہیں جان سکتا۔اگر جان لے تو ولی نہ ہو جائے۔“
”ہاں۔ یہ تو ہے۔“ معراج دین قائل نظر آنے لگا تو محمد دین نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔ ”سگریٹ لاﺅں۔“
”نہیں۔ “ معراج دین نے سوچ میں ڈوبتے ہوئے جواب دیا، جب وہ سوچتے سوچتے تھک گیا۔ گھر سے نکلا۔ چودھری کے ڈیرہ نما انتخابی دفتر پہنچا جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں۔ چودھری کی تعریف میں زمین و آسماں کے قلابے ملائے جا رہے تھے۔ دوسروں کے کالے کرتوت بیان کیے جا رہے تھے۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ قرابت ثابت کرنے میں مصروف تھا۔ معراج دین خاموش بیٹھا ،سب کی سنتا رہا۔
معراج دین اجازت لے کر رخصت ہونے لگا تو چودھری نے کان میں کہا، ”معراج دین! فکر نہ کرنا۔ تمہارا بیٹا بھرتی ہو جائے گا۔“
معراج دین دعائیں دیتا رخصت ہوا۔ اب اس کا رخ چائے والے کی دکان کی طرف تھا۔ گلیوں کی نکروں پر لوگوں کی ٹولیاں ذرائع ابلاغ کے برقی دانشوروں کی عینک سے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو دیکھا جا رہا تھا۔ معراج دین سب سے پہلو کتراتا قہوہ خانے پہنچا۔ یہاں کافی لوگ جمع تھے لیکن اندھیرا بھی تھا۔ ٹی وی سے نکلنے والی شعاعیں تاریکی کم کر رہی تھیںجس پر پنجابی گانے چل رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا دھیان چائے پر کم اور سکرین پر زیادہ تھا۔ چند سیاسی گفتگو میں مصروف تھے حالانکہ چائے والے نے لکھ کر لگایا ہوا تھا،”سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔“
معراج دین پرانے یار غلام علی کے پاس بیٹھ گیا۔ حال چال پوچھنے کے بعد بولا۔
”کس کو ووٹ دینا چاہیے۔“
”پتا نہیں یار۔ جس کو جی چاہے دے دو۔“غلام علی نے لاتعلقی سے جواب دیا۔
معراج دین نے حیرت سے دیکھا، ”کیا بات ہے؟ آج تم اپنی جماعت کی حمایت میں شور نہیں مچاﺅ گے؟“
”روٹی پوری نہیں ہوتی۔ کسی کی حمایت کیا کروں؟“
”ہاں۔ یہ بات تو ہے۔ پھر بھی کسی نہ کسی کو ووٹ دینا ہے۔“
”جسے مرضی دے دو۔ ہمیں آٹا ملے گا نہ پانی، بجلی ملے گی نہ گیس، بس بل ملیں گے۔ وہ بھی ڈبل ٹرپل۔“ غلام علی نے ایک اور چائے کا کپ منگوایا۔ ایک وہ پہلے ہی پی چکا تھا۔ معراج دین اپنے دوست کے لہجے میں پائی جانے والی خشکی سے پریشان ہو گیا۔ پریشانی میں سگریٹ سلگایا۔ معراج دین پریشان ہو تو چپ نہیں رہتا،زیادہ باتیں کرتا ہے۔ وہ نئی بات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ بتی چلی گئی۔
”لو بتی چلی گئی۔ پہلے ہی دو گھنٹے بعد آئی تھی۔ اب پھر دو چار گھنٹے پار سمجھو۔“ غلام علی نے کہا، ”آﺅ ، باہر چلیں۔“
دونوں دکان سے باہر آ گئے۔ محلے میں تین چار گھر بتی جانے کے باوجود روشن تھے۔ ایک غلام علی کی جماعت کے سیاستدان کا تھا، دوسرا معراج دین کے امیدوار کا تھا۔ سرکاری افسر کے گھر کے باہر لگا برقی قمقمہ روشن تھا۔ صنعت کار کے بنگلے سے بھی روشنی راستہ تلاش کرتی باہر آ رہی تھی۔معراج دین نے اپنے امیدوار کے روشن گھر کو دیکھ کر غلام علی سے کہا۔
”اس بار چودھری ربنواز کو ووٹ دے دو۔“
”کیوں؟“ غلام علی چونکا۔
”اس نے ہسپتال بنوانے کا وعدہ کیا ہے۔ مفت علاج ہوگا۔“
”یہ وعدہ تو اس کے باپ نے بھی کیا تھا۔“ غلام علی ہنس پڑا۔
”تمہارے امیدوار نے بھی پچھلی بار یہی وعدہ کیا تھا۔ “ معراج دین نے حساب برابر کیا تو غلام علی کچھ کہے بغیر گھر کی طرف چل پڑا۔ معراج دین کچھ دیر اسے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اپنے گھر آگیا۔ محمد دین قمیص اتارے سرکار کو چھ چھ من وزنی گالیوں سے نواز رہا تھا۔ مقصودہ پسینہ میں تر بتر سوئی ہوئی تھی۔ وہ تھک ہی اتنا جاتی کہ سوتے سمے کچھ ہوش نہ رہتا۔ فیروز دین ابھی باہر کہیں جھنڈے لہرا رہا تھا۔ معراج دین بھی چھت پر جاکر لیٹ گیا اور اوٹ پٹانگ سوچیں پالتے پالتے سو گیا۔
وہ صبح دیر تک سوتا رہا جب اٹھا تو حالت ایسی تھی جیسے نہا یا ہو۔ جلدی جلدی نیچے آیا۔ مقصودہ کو کھانا لانے کے لیے کہا۔ ہاتھ منہ دھونے کےلئے غسل خانے میں گھسا لیکن نل میں پانی نہیں تھا۔ مقصودہ تھی چٹی اَن پڑھ لیکن گھر گرہستی میں بڑی گنی تھی۔ آدھی رات کو اٹھ کر دو تین بڑے برتن پانی سے بھر لیتی تھی۔ معراج دین نے بالٹی سے پانی کے استعمال میں کنجوسی کی۔ کھانا کھاتے ہوئے فیروز دین اور محمد دین کا پوچھا۔
”فیروز چودھری ربنواز کے بندوں کے ساتھ گیا ہے۔ محمد دین صبح صبح ریڑھی لے کر چلا گیا۔ کہہ رہا تھا۔ آج بکری زیادہ ہو گی۔ “ مقصودہ نے پسینہ پوچھتے ہوئے بتایا۔ معراج دین نے حلق میں جلدی جلدی نوالے گھسیڑ کر کپڑے بدلے اور چودھری کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ اسے ڈیرے سے بس میں بٹھا کر انتخابی مرکز پہنچایا گیا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے پرچہ ملا۔ جب مہر لگانے لگا تو کئی بار سوچا کہ کس پر مہر لگائے؟
معراج دین ووٹ ڈال کر ناک کی سیدھ پر گھر آگیا۔ وہ ٹی وی پر خبریں سننا چاہتا تھا لیکن بتی نہیں آ رہی تھی۔ وہ جھنجھلا کر صحن میں آیا جہاں مقصودہ محمد دین کی کتاب پکڑے خود کو ہوا دے رہی تھی۔ معراج دین صحن میں کچھ دیر چکر کاٹتا رہا۔ پھر گھر سے نکل پڑا۔ اس نے انتخابی مراکز کے اردگرد گھومتا شروع کیا۔ ہر جگہ اشتہاری پرچے بکھرے پڑے تھے۔ کھمبوں پر دل فریب نعروں والے جھنڈے لٹک رہے تھے۔ دیواریں بھی دعوﺅں اور وعدوں کا نشانہ بنی ہوئی تھیں۔ ہر طرف نعرے اور وعدے منہ چڑا رہے تھے۔ وہ سارا دن کھویا کھویا پھرتا رہا۔ شام کو تھک ہار کر گھر آگیا۔ گھر کے باہر محمد دین کی ریڑھی کھڑی تھی اور وہ سامان اتار کر اندر لے جا رہا تھا۔ محمد دین نے باپ کو دیکھتے ہی پوچھا۔
”ووٹ ڈال دیا۔“
”ہاں۔“
”چودھری کو؟“
”ہاں۔ لیکن دل نہیں چاہتا تھا۔“ معراج دین نے ہاتھ بٹاتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا تو پھر دیا کیوں؟“ محمد دین نے دلچسپی سے پوچھا۔
”اس نے فیروز کو نوکری دلانے کا وعدہ کیا ہے۔“
”تو پھر میں نے صحیح کہا تھا ناں؟“ محمد دین نے ریڑھی سے ٹیک لگا لی۔
معراج دین کچھ یاد کرتے ہوئے بولا۔ ”کیا کہا تھا؟“
”ہم سب بکاﺅ مال ہیں۔“
”نہیں۔ ہم بس مجبور ہیں۔“ معراج دین نے بیٹے کا سینہ تھپتھپایا تو محمد دین نے سرگوشی کی۔
”نہیں۔ ہم مجبور نہیں۔ ہم وہ ہیں کہ جنہیں جاہل رکھ کر مجبور کیا گیا۔“

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے