سائےںکمال خان شےرانی جےسی تارےخ ساز شخصےت ہر معاشرے مےںصدےوں بعد پےدا ہوتی ہے، ان کی برسی کے موقع پر انھےں خراج عقےدت پےش کرنے کےلئے الفاظ کا انتخاب مشکل ترےن کام ہے مگر ان کے بارے مےں اپنے جذبات کا اظہارکرنا فرےضہ سمجھتا ہوں سائےںکمال خان کوہ سلےمان کے دامن مےںشےنہ پونگہ گاﺅں مےں 1922ءکو عےسٰی خان شےرانی کے گھر مےں پےدا ہوئے ۔ےہ علاقہ زمانہ جدےد کے تمام ضرورےات اور سہولےات سے محروم پسماندہ اور قدرتی معدنےات سے مالا مال ، قدرتی جنگل سے سرسبزکوہ سلےمان اپنے جلال و جمال مےں اوربے مثال تارےخی اہمےت کا علاقہ ہے ،جہاں مختلف پشتون قبائل کے اجدا دکا مسکن تھا ۔ 1945ءمےںسائےںکمال خان شےرانی پشاور سے بی اے آنرزمےں گولڈ مڈل حاصل کرنے والے صرف تعلےم ےافتہ ہی نہےں بلکہ وہ علم کا سمندر اور عمل کا پہاڑ تھے، اےک خاص فکر و خےال کے مالک تھے ، اپنی علمی زندگی سے باد سحر کی طرح ہر ذی حےات کو تر وتازہ کےا کرتے تھے ،جس کی وجہ سے علمی و سےاسی حلقوں مےں ان کے نام کواےک انجمن کادرجہ دےا گےا۔مےرا بچپن ہی سے ان کے ساتھ تعلق تھا ےہ وہ دور تھا کہ اےوبی امرےت مےں عوام کی لب کشائی پر سختی کے ساتھ سخت پابندی تھی موصوف کا اورمےرے والد محترم مولانا رحمت اللہ مندوخےل کا تعلق نےشنل عوامی پارٹی سے تھا سےاسی معاملات پررازداری سے غور کرنے اور صلاح مشورے کے لئے ہمارے گھر تشرےف لاتے 1965ئ کے صدارتی انتخاب اور بعد مےں مغربی پاکستان کی اسمبلی کے لئے ہونے انتخابات کے سلسلے مےں دےگر رفےقوں خصوصاً اےڈوکےٹ عبدالرحےم مندوخےل ، مرحوم حاجی شےرجان مندوخےل اور ملک ہاشم کاکڑ اور دےگر ساتھےوں کے ہمراہ صدارتی انتخاب مےں اےوب خان کے مقابلے مےںپارٹی کی حماےت ےافتہ امےداوار محترمہ فاطمہ جناح اور اسمبلی کے لئے پارٹی کے امےداوار خالد خان کے اتخابی مہم کے سلسلے مےں تبادلہ خےال کرتے تھے ۔
سائےںکمال خان شےرانی سرکاری ملازم کی اسودہ حال زندگی ترک کر کے جنگل مےں اےک دےہاتی کے انداز مےں زندگی بسر کرنے کو پسند کےا اور آخری لمحات تک اختےار کر کے رکھا ، جس کے لئے انہوں نے غور و فکر علاقائی ماحول کا گہرا مطالعہ کرنے کے ساتھ اپنی قوم کی پسماندگی ، غربت ، جہالت کو دےکھ کر اپنی خدا داد صلاحتوں سے عوام مےں شعور کا احساس اور زمانہ جدےد کی ضرورتوں سے اگاہی خصوصاً تعلےم کا شوق پےدا کرنے کے مہم کا اغاز اپنی ذہنی عظمت کے بل بوتے پرسماج مےں انقلابی شورش برپا کےا ۔
سائےںکمال خان شےرانی نے جس وقت شہری زندگی ترک کرکے خاص اسلوب کے ساتھ دےہاتی زندگی کو اختےار کےا اس وقت مواصلات ( آمد و رفت) کے ذارئع کی بڑی کمی تھی اس کے باجود عوام سے انھوں نے رابطے قائم وجاری رکھے جو ان کی علمی بصےرت و فضےلت کے ساتھ ساتھ ان کے سےاسی و علمی زندگی کا نماےاں مثبت پہلو ہے ،جنگل مےں ان کی عوامی زندگی بھی بہت مختلف تھی ،ضرورت کے باوجود خود نمائی سے دور رہتے تھے، اپنی تعلےم اور تربےت کوکبھی فخر اور ناز کا اظہار نہےں بناےا ،عام لوگوں سے پرکشش اندازمےں بات چےت کرتے تھے کہ کوئی ان پر تعلےم ےافتہ ہونے کا گمان نہےں کر سکتا تھا مگر لوگ ان کی مقناطےسی باتوں سے متاثر ہوئے بغےر نہےں رہ سکتے تھے ،ہرکوئی انھےں دوست بنانے کی تمنا کرتے تھے ، دےگر سےاسی جلسوں،اجلاسوں ،دعوتوں اور استقبالےہ تقرےبات مےں بھی جاہ و چست،آوبھگت سے دور رہنا ان کی فطرت مےں تھا ،جہاں مدعو ہوتے جاتے ضرور تھے مگر گوشہ مےں خاموشی کے ساتھ بےٹھ جا تے تھے، لوگ انگلےوں سے ان کاتعارف اور نشاندہی کرتے تھے ۔ خود آہستہ وکم گو تھے دوسروں کی باتےں زےادہ سننے کے عادی تھے ،ان کے ذہنی سانچے مےں کسی قسم کا عہدہ قبول کرنے کی گنجائش نہےں تھی ،ہمےشہ عام لوگوں کی طرح سادہ اور بے تکلف زندگی گزرتے ، تری پےس سوٹ کے بجائے قبائلی رواےات کے مطابق ڈھےلے ڈھالے کپڑے پہنتے تھے، جب بھی نماز کا وقت ہوتا بس اونچی اور صاف جہگہ دےکھ کر وہاں اپنی چادر بچھا کر نماز ادا کرتے تھے، قبائلی معاملات سے ہمےشہ دور رہتے تھے اس قسم کے معاملات مےں بامر مجبوری پڑنے کی صورت مےں مسلئے کو فوری طور پر رفع کرنے کےلئے ان کا اپنا خاص انداز تھا دوران تحصےلداری اس قسم کی کاروائی کو انھوں انگےٹی کے نظر ہونے والے فائل کا نام دےا تھا ،اکثر فرےقےن مےں مصالحت کرا کے معاملہ ختم کر دےتے تھے ، اس موقع پر قصوروار خود ہی اپنے ضمےر مےں ملامت ہونے کا احساس کرتا تھا ۔
سائےںکمال خان شےرانی اےسے تعلےم ےافتہ افراد جو اپنی زندگی مےں سےاسی نظرےات کے چناﺅ سے قاصر تھے مصنوعی شان شوکت ےا افےسران سے تعلقات اور ان کی نےاز مندی کو اہمےت و سماج مےں قدر کا سبب قرار دےتے تھے اور اےسے لوگوںکو نفرت کی حد تک ناپسند کرتے تھے ،چند اسودہ حال خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کا نام لےکر ان کے متعلق کہتے تھے کہ ےہ اےمان کے کمزور لوگ معاشرے کے لئے ناسور ہےں ، سےاست کے ےہ مداری ہمےشہ تذبذب کا شکار رہتے ہےں ہر حکومت کے حا می اور بےوروکرےسی کے الہ کار ہوتے ہےں ،ےہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہےں ، اس قسم کے لوگوں کے لئے انہوں نے دانش خور کا کلمہ تخلےق کےا، ان کے ساتھ سرکاری ممبران جرگہ کو ہمےشہ تنقےد کانشانہ بناتے ،قومی تحرےک اور قومی اسودگی کی راہ روکنے کےلئے استعمال ہونے والے ان عناصر کے بارے مےںبڑی دلےری سے کہتے تھے کہ ےہ لوگ غرق ہونے والی کشتی کے مسافر ہےں وہ خو د تباہ ہو رہے ہےں دوسروں کو بھی ڈوبولےتے ہےں ،ےہ ہمےشہ اپنی بے وقوفی سے لوگوں کو دھوکہ دےتے ہےںاور خود بھی بے وقوفی سے دھوکے کا شکار ہوتے ہےں ،قوم کی تباہی اور پسماندگی کے ےہ لوگ ذمہ دار ہےں مگر ان کے اقدام اور مظاہرے قومی ترقی و تخلےقات اورآزادی کےلئے رےت کی دےوار ہے جو تارےخ مےں ہمےشہ ناکام ثابت ہوئے ہےں ۔
مطالعہ اور قلم سائےںکمال خان کی زندگی کا زےور اور ہتھےار اوربہترےن مشغلہ تھا جس کے نتےجے مےں انھوں نے خود ہی سماج مےں اےک مقام پےدا کےا اےک کاشت کار اور سےاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ پوری زندگی اس ذوق سے وابستہ رہے حتی کہ مرض الموت مےںان کے بستر پر کتابوں کا ڈھےر دےکھ کر تےمادار حےران ہوتے ، اس ذوق اور علم سے محبت کے نتےجے مےں ان کی زبان کا ہر لفظ اور مکتوبات کا ہر حرف تےر کی طرح تےز اور خنجر کی طرح اثر اندازتھا ،قومی و سےاسی مسائل کے زخموں کےلئے مرہم ثابت ہوتے تھے ،مطالعے کے لئے انہوں نے خاص اصول بنائے تھے اےک ہی موضوع پر کئی کتابوں کا مطالعہ کرتے تاکہ مقصد کے لئے مکمل معلومات حاصل ہو سکے ، محافظے کی قدرتی قوت سے مالامال تھے مرض الموت مےں بھی ان کی ےہ خداداد صلاحےت برقرار تھی، ہمےشہ اچھی اور پسندکی کتاب کا پرچار بھی کرتے تاکہ دوسرے بھی اس سے مستفےد ہوسکےں ۔ان سطور مےں ےہ انکشاف کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کے دل و دماغ کی حقےقت سمجھنے والے گنتی کے چند لوگ تھے ان کی لکھی ہوئی کتابوں خصوصاً انگرےز استعمار اور افغانستان نامی کے کتاب کے پےش لفظ لکھنے سے ان کے تصورات اور مقاصد کا اظہار ہوتا ہے جس کا نماےاں پہلو عوام مےں سےاسی شعور کا احساس پےدا کرنا، مسائل کے پس منظر کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کا اورادراک کرنے کا استعداد پےدا کرنے کے علاوہ ہمےشہ سچ کو سچ کہنے کی جرت پےدا کرنا ان کے اےمان ےعنی نظرئے کے اجزاءتھے، اس عقےدے کی بنےاد پرہمےشہ کہا کرتے تھے کہ باطل کی شکست اور حق کی کامےابی ہمارا مقدر ہے سرکاری اور ان کے پروردہ بڑے لوگوںکے جن کے سامنے اس قسم کے کلمات کی ادائےگی توہےن سمجھی جاتی تھی کے سامنے سچی اور کڑوی باتوں کا اظہار کےا کرتے تھے ،اپنے عزائم کی تکمےل و پرچار بلا خوف و خطر کےا کرتے تھے کسی کی کوئی پروا نہےں کرتے تھے نہ کبھی دھونس دھمکی اور لالچ سے پلٹنے کے لئے تےار ہوتے تھے ۔انھوں نے عملی سےاست مےں اس وقت قدم رکھا کا جب ملازمت کے دوران انہوں نے حکمران بالادست قوتوں کی محکوم قوموں کے ساتھ قومی تعصب اور حق تلفےوں کو دےکھا ،بلوچستان مےں غےر مقامی لوگوں کا ملازمتوں پر ےلغار ،معاشی وسائل پر قبضہ اور پنجابی بےوروکرےٹ کا بےٹا بلوچستان کے ملازمےن کے کوٹے سے تربےتی سےٹ پر بےرون ملک بھےجا گےا اس کے نتےجے مےں انہوں نے احتجا جا ً ملازمت سے استعفیٰ دےا،اس قسم کے ناروا سلوک کے خلاف جدوجہد کا فےصلہ کےا ،ان اےام مےںحقےقی جمہورےت کے قےام ، قوموں کی سماجی ، سےاسی ، معاشی برابری وحدت اور تحفظ کے متقاضی خان شہےد خان عبدالصمد خان اچکزئی پابند سلاسل تھے کے مقاصد سے متاثر ہوکر خط و کتابت کے ذرےعے ان کی رفا قت کو اختےار کر کے ان کے قومی مقاصد کو اپنے ضمےر کی آواز قرار دےا اور خان عبدالصمد خان اچکزئی کے مشن کو عوام تک پہنچانے کے مہم کےلئے سےاست کے مےدان مےں کھود پڑے ، ان دونوں رہنماوئںکی ےکجائی پشتون قومی تحرےک کےلئے بڑی کامےابی اور خوش نصےبی ثابت ہوئی ، سائےںکمال خان شےرانی نے خان شہےد خان عبدالصمد خان اچکزئی کے نقش قدم کو اختےار کرتے ہوئے اپنی زندگی داوءپر لگائی ،اس وقت ملک مےں انگےرےز سامراج کی باقےات اوربےوروکرےسی ، جاگےرداروں و نوزاےدہ ہندوستانی پناہ گزےن سرماےہ داروں کا راج تھا پشتونوں کی تہذےبی معاشی سےاسی اور سماجی حقوق وتحفظ کوترقی دےنے کے بجائے جوںکا توں بھی رہنے نہےں دےا بلکہ مزےد روند ے ڈالے جارہے تھے ،ملک اس وقت بدترےن امرےت کا شکار تھا لا قانونےت کا دور دورہ تھا تحرےر و تقرےر کی آزادی کا نام و نشان نہےں تھا، سےاسی سرگرمےوں پر سختی کے ساتھ پابندےاں لگی ہوئی تھےں ،ان کے اس فےصلے سے حکمران وقت نے انھےں غدار ،حکومت اور انتظامےہ نے مجرم ،ابن الوقت سےاسی مداروں نے غےر ملکی اےجنٹ ،مذہب کے اجارہ داروں نے مرتد اور رےاستی سولےن کاسہ لےس نےاز مندمراعات و اسنادےافتہ طبقات نے دےوانہ قرار دےا ،جہاں موصوف باد و باش کےا کرتے تھے وہاں ان کی زندگی اس قسم کی صورت حال مےں خطرے سے خالی نہےں تھی ہر وقت صلےب پر کھڑا ہوتا ہوا نظر آتے تھے مگر انہوں نے اس کی پروا نہےں کی نہ خوف محسوس کےا ہر قسم کے مشکلات و مصائب اور انتقامی کاروائی کرنے والوں کوآخر کار شرمسار ہوناپڑا کےونکہ موصوف اےک اےسے جذبے سے مست اور نظرئےے سے لےس تھے کہ کوئی قوت اور کسی قسم کے حربوں سے اب انھےں قابو نہےں کےا جا سکتا تھا نہ ہی کسی کے چال مےں پھنسے اور نہ جال مےں۔ اسی دوران انہوں نے کوئٹہ سے پشتو نام کا پشتو زبان مےں رسالے کی اشاعت شروع کی جس کے تمام شمارے تارےخی دستاوےز کی حےثت اختےار کر چکے ہےںرسالوں کے مضامےن قومی و سےاسی احسا سات کا پرچا کرنے کے لئے معنی خےز ثابت ہونے سے حکمران اور ان کے کاسہ ومذہب کے نام عوام کو ورغلانے والے طبقات شدےد بوکھلاہٹ کاشکار ہوئے ، کوہ سلےمان کی بلند چوٹےوں سے ٹکرا نے والے اس خاموش گونج سے حکومت کے محلات لرز جاتے تھے آخر کار حکومت نے رسالے کی اشاعت پر پابندی لگائی اور ڈےکلرےشن منسوخ کردی،ان اےام مےں ان کے گرد مختلف السان ترقی پسندوں اور قومی تحرےک سے وابستہ سےاسی کارکنوں کا وسےع حلقہ قائم ہوا قومی کی تحرےک مےں ےہ حلقہ لٹ خانے کے لوگوں کے نام سے مشہور ہوئے بعد کے واقعات مےںان لوگوں نے قومی و جمہوری تحرےکوں مےں خاص مقام اور بڑا نام پےدا کےاہے ، صحافی ہونے کے علاوہ سائےں کئی کتابوں کے مصنف و مترجم ہےںانھوں نے دل نشےن تحرےروں مےں معاشرے کی مکمل عکس بندی کی حکمرانوں اور رےاست کے دےگر اداروں اورمختلف القاب و اسماءسے معروف ان کی قربت پ
انے والوںکے کرتوت سے پردہ اٹھاےا ان کی تمام تحرےرےں اور پےشنگوئےاںآج کے بحرانوں کابھی حقےقی اور صےحح نشاندہی کرتی ہےں ۔
انھوں نے علماءدےونبد کے اورپشتون خو اصوبے کے حاجی ترنگ زئی ، مولانا عبدالرحےم پوپلزئی ، باچا خان خان عبدالغفار خان کے نقش قدم اختےار کرتے ہوئے رائج نظام کے ذہنی طور پر مخالفت کا جذبہ اور دور جدےد کے تقاضوں کو اپنانے کا صلاحےت رکھنے والے چند افراد کو ساتھ ملا کر اپنے علاقے کے مرکزی مقام مانی خوا مےںجدےد خطوط پر اےک دےنی مدرسہ قائم کےا جس مےں طلباءکےلئے مذہبی اور جدےد تعلےم حاصل کرنے کا اہتمام کےا ،مدرسہ توقع سے زےادہ کامےاب رہا سےنکڑوں طلباءعلمی پےاس کو بجھانے وتخلےقات کی موتےاں پانے اور فےض حاصل کرنے کےلئے اس مدرسے مےں داخل ہوئے آنکھےں بند کر کے رےاستی اداروں کی اےما اورچند ٹھکوں و حکومتی اداروں سے مفادات کے حصول کو مسلسل جاری رکھنے کےلئے سائےں کمال خان شےرانی کے اس مذہبی خدمات کو فراموش کر کے انھےں اور ان کا ساتھےوں کوکافر اور مرتد ہونے کے القابات سے ےاد کرتے تھے اس طرح فتووں کا بازار گرم رکھا، اس سلسلے مےں ان کے صحبت مےںذہن سازی کے پےاسوں کے سامنے جب بھی ان واقعات کا ذکر ہوتا سائےں حسب عادت ہر قسم کے رازوں اور بعض افراد کا نام لےکر ان کے کردار و عزائم سے پردہ اٹھا تے تھے ان کی باتےں سن کرسامعےن حےران ہوتے کےونکہ جھوٹ سننے سے ان کے کا ن پک چکے تھے جس کی وجہ سے مجلس مےں مسکراہٹےں آہستہ آہستہ ہنسی و قہقوں مےں بدل جاتے تھے،ان کی صحبتوں مےں ہر وقت علمی سنجےدگی اور فکری گہرائی سے سامع لطف اندوز ہوتے اور گھنٹوں ان کی مجلس مےں سےاسی ، تارےخی ، فلاسفی ، مذہبی ،معاشی اور سماجی امور پر معنی خےز بحث ، مباحثے ہوتے تھے تھکاوٹ دور کرنے اور تازہ دم ہونے کےلئے بار بار چائے کے علاوہ اپنے باغ کے تازہ مےوہ جات کا دور بھی چلتا تھا کبھی کھبار صحبت کو مزےد خوشگوار بنانے ےا بحث کو تکمےل تک پہچانے کےلئے تو دعوت اور مروت کی باتےں بھی ہوتی تھےں، تارےخ گواہ ہے کہ ہر قسم کے توہمات، جھوٹے پروپےگنڈوں اور غلط فتووں سے ان کی راہ کوئی نہ روک سکا ، سخت استقا مت کے ساتھ انھوں نے مقابلہ کےا جس کے نتےجے مےں ژوب کے باسےوں علاوہ پشتون خوا کے دوردرازا علاقوں بلکہ دےگر اقوام کے لوگوں مےں ان کے خےالات اور افکار کی مقبولےت مےں اضافہ ہوا اور بہت بڑے حلقے نے ان کے افکا ر کو اپنائے ، ان کے بوئے ہوئے شعوری باغ کے ثمرات سے پشتونوں و دےگر اقوام کی قومی تحرےکوں کو بڑی قوت ملی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے