میں اب تک یہ نہیں جان پایا کہ یہ جاننے کا عمل کیسے طے ہوتا ہے پہچان اور اس کا ادراک کتنی تپسیا مانگتا ہے اور یہ نامعلوم سے معلوم تک کا سفر کتنی سیڑھیاں چڑھ کر ہاتھ آتا ہے یہ فکر و ادراک کی راہیں شب و روز مسلسل مطالعہ یہ تنہائی کا تجربہ یہ احساس و جذبات کا سرد گرم ہوتا ہے ۔۔یہ تجربے کی کسوٹی میں زندگی کو دیکھتے ۔ اوریہ لکھنے اور سمجھنے کا عمل یہ کتنا میکانکی ہے اور اس کی ترتیب کیا بنتی ہے ……..!!!لگتا ہے میں الجھ گیا ہوں یا شاید سلجھنے کی کوشش کررہا ہوں ……..!!! لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ میں……..!!! خیر اس یا وہ ۔چھوڑ کر میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں مجھے پروفیسر عزیز مینگل جسے میں آخری دن تک عزیز جان کہتا رہا ان سے اپنے تعلق ادبی رشتے اور ان کے اعلیٰ مقام کے حوالے سے آپ سے شیئر کرنا ہے پروفیسر عزیز مینگل سے واقفیت کمرشل کالج کے لائبریری میں کتابوں کے درمیان ہوتی ہے ان کے مطالعے اور ادبی ماحول سے دلچسپی نے ہمیں ان کے قریب تر کردیا تھا ۔ عزیز جان ایک ہمہ جہت شخصیت تھے براہوئی زبان میں ان کی تحریروں کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا ابتدائی ملاقاتوں میں ان کے مطالعے سے استفادہ کرتے رہے کبھی افسانہ کبھی شاعری تو کبھی زبانوں کے لسانی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی عزیز جان ایک بے چین روح لیے ہوئے تھے ان کی تگ و دو اور جستجو کا لامتناہی سلسلہ انہیں علوم کی کئی دنیاو¿ں کی سیر کراتا رہا براہوئی زبان میں عالمی ادب کو متعارف کرانے کی بات ہو براہوئی شاعری میں ذخیرہ الفاظ کو سجھنے کی شعوری کوشش، براہوئی زبان کے لسانی روابط یا براہوئی میں نئے اصناف کو متعارف کرانے کی شب و روز کی محنت ہمیں عزیز جان کی محنت شاقہ کامیاب صورت میں نظر آتی ہے جو ایک لاجواب سلسلہ ہے ہائیکو،ماہیا کو انہوں نے باقاعدگی سے جاری رکھا۔ ڈکشنری کے حوالے سے ان کی نو زبانوں پر مشتمل تحقیقی کام کو بڑی حد تک پذیرائی حاصل ہوئی براہوئی ڈکشنری کو ”م“ تک مکمل کرچکے ہیں ۔ ماہیا جسے عزیز جان براہوئی زبان میں ”بیلی“ کا نام دے چکے ہیں کے دو مجموعے اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں عزیز جان سے ہماری شناسائی کا منظر نامہ یوں بنتا ہے۔
غالباً 1981-82ءکی بات ہے میں اور وحید زہیر جدید ادب کے موضوعات اور رجحانات کو براہوئی ادب میں رواج دینے اور انہیں دوام دینے کی تگ و دو میں ”بلسم رنگ“ کے مشترکہ ادبی پلیٹ فارم تک پہنچے تھے جواں عزم اور جواں جذبوں کو تقویت اور دوام بخشنے میں محترم غلام نبی راہی، ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی، جبار یار، ڈاکٹر تاج رئیسانی، افضل مینگل،عارف ضیائ، ڈاکٹر رزاق صابر کے ہمراہ پروفیسر عزیز مینگل کی وابستگی اور نشستوں میں باقاعدہ شرکت نے ہمیں بڑی حد تک حوصلہ بخشا تھا کہ ہم براہوئی زبان و ادب کے منجمد روایتی انداز میں دراڑ ڈالتے ہوئے نئی دنیا کے جدید تقاضوں کو رواج دینے میں کامیاب ہوں گے پارک ہوٹل میں منعقد ہونے والی ادبی نشستوں میں ”بلسم رنگ“ کے دوست علمی ادبی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اس دوران ہمیں تخلیقی سطح پر مہمیز حاصل ہوتا رہا ہر نشست میں کوئی نہ کوئی نئی تحریر پیش کی جانے لگی جس پر تنقید کی جاتی ہمارے کئی بزرگ شعراءادباءنے اس رویئے کی حوصلہ شکنی کی اور اسے نوجوانوں کے نئے خون کی بھڑک قرار دیتے ہوئے نظر انداز کیا مجھے یاد پڑتا ہے ایک نشست میں نوجوانوں کی آراءکا برا مناتے ہوئے ایک سینئر شاعر تقریب کے دوران احتجاج کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے…….. یہ مثال قطعی نامناسب ہے لیکن اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بطور سینئر عزیز جان کی فراخدلی اور برداشت کو ثابت کرنا چاہتا ہوں عزیز جان ان دنوں لسانی موضوعات پر کم اور شاعروں اور افسانہ نگاری پر زیادہ سے زیادہ کام کررہے تھے ان کی شائستگی رواداری اور بردباری قابل رشک تھی جسے انہوں نے تا حیات قائم رکھا ان کی تحریروں میں بھی نمایاں رہی کئی مواقع پر ان کی سادہ دلی اور محور کی کمی بیشی کا مسئلہ پیش آتا تو ہم واضح طور پر مداخلت کرتے اور عزیز جان کو ”بلسم رنگ“ کے مشترکہ پلیٹ فارم سے الگ ہونے کے خوف سے اشاروں کنایوں میں بتاتے کہ ہمیں موضوعی اعتبار سے افسانہ یہاں کمزور دکھائی دیا…. یہ روایتی انداز ہے …. یا یہ اختتام یوں نہیں یوں ہوتا وغیرہ وغیرہ….!!!میرا اندازہ ہے کہ عزیز جان ان باتوں کو پلے باندھ لیا تھا اس لئے کہ آگے چل کر انہوں نے مزید افسانے نہیں لکھے۔
عزیز جان اس بے ترتیب اور بے ذائقہ دور میں بھی بڑے تربیت اورتوازن کے ساتھ زندگی گزارنے میں کامیاب دکھائی دئیے یہ شخص شہر کی آلودگی کو کبھی ہضم نہیں کرسکا گھر اور کالج سے جیم خانہ پہنچنے تک رومال کے سہارے سانس روکے رکھنے کے اتنے عادی ہوگئے تھے یوں لگتا تھا عزیز جان سانس لیے بغیر بھی بہت دےر گزارا کرسکتے ہیں ….مجھے انہوں نے جہاں سے اپنی طرف متوجہ کیا اور متاثر وہ ان کا ترجمہ نگاری کا زمانہ تھا خاص طور پر ہیمنگوئے کا مشہور زمانہ ناول "OLD MAN AND THE SEE”کا براہوئی ترجمہ خیام کی رباعیات کو منظوم شاعری دلچسپ پہلو ہیں ان کی شاعری میں قدیم براہوئی الفاظ جو ہمارے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں ہمارے کئی دوست ان کی شاعری کو خوبصورت الفاظ کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے خےالات ، جذبات و احساسات کا سمبل بتاتے ہیں بہرحال شاعر اور شاعری کے بارے میں سب کی ایک سی رائے ناممکن ہے عزیز جان نے ہائیکو، رباعی اور ماہیے سے محبت کی حد تک دوستی نبھائی براہوئی زبان میں ان اصناف میں آپ کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے عام قاری تک ابھی نہیں پہنچ پائے….کیونکہ اصل رائے تو قاری کی ہوتی ہے جو غیر جانبدار ہوتا ہے …. !!! اور وہی ہمیں آخری فیصلے تک پہنچا سکتا ہے ۔
عزیز جان کی پینٹنگز کی نمائش ہورہی تھی میرا بیٹا فیصل بار بار مجھ سے ایک سوال کررہا تھا ” ابو یہ بتائیں عزیز صاحب آپ کے دوست ہیں ….؟ جی بیٹا یہ کوئی بری بات ہے کیا فیصل نے بڑی معصومیت اور بے ساختگی سے کہا ” ابو آپ کے دوست تو بڑے فنکار اور سب بڑے آدمی ہیں “ میں نے فیصل کو گلے لگاتے ہوئے کہا جی بیٹا بڑے لوگ بڑے فن کار ہر جگہ ہر ماحول میں ہوتے ہیں…. ہماری نظر کمزور ہوگئی ہے ہمارے دلوں میں وسعت باقی نہیں رہی…. ہمارے شعور کی آنکھ نہیں کھل پارہی…. اسی لئے ہمیں بڑے لوگ نظر نہیں آرہے ….فیصل نے میری بات پر زیادہ غور کرنے کی زحمت نہیں کی اور گاڑی کے ڈیش بورٹ پر رکھی میر عینک میری طرف بڑھائی…. اور عزیز جان کے مصورانہ شاہکار دیکھنے میں مگن ہوگیا مجھے یاد پڑتا ہے جویریا سے وعدہ کیا تھا کہ میں عزیز صاحب کی کوئی ایک پینٹنگ ضرور خریدوں گا…. مگر…. مگر یہ ہو نہ سکا!!!
لسانی موضوعات پر عزیز جان کی کتابیں لاجواب ہیں ان کی محنت اور عرق ریزی دیکھ کر رشک آتا براہوئی سنسکرت ، براہوئی پنجابی، براہوئی فارسی، ہندی اور دیگر دراوڑی زبانوں کی مماثلت اور قربتیں نکالنا ان پر بحث و تمحیص یہ صرف عزیز جان کا خاصہ تھا۔ ابتدائی طور پر ہم اسے ہضم نہیں کر پائے لیکن آج برسوں بعد زبانوں کے علم سے رابطہ بڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ عزیز جان نے کتنا اہم اور بڑا کارنامہ انجام دیا ہے کہتے ہیں نا بڑے لوگ اور بڑے لوگوں کا کام دیر سے آشکار ہوتے ہیں چونکہ آپ ہمہ جہت شخصیت تھے اس لئے کوئی نہ کوئی پہلو رہ جانے کا خدشہ ہے میں نے عزیز جان سے کئی معاملات میں اختلاف کیا ان سے خاموش احتجاج کرتے ہوئے روگردانی کی علمی اور ادبی موضوعات پر اعتراضات بھی کئے لیکن مجال ہے عزیز جان نے کبھی کوئی گلہ یا اعتراض کیا ہو وہی روایتی انداز وہ مخصوص ٹھہرا ہوا لہجہ وہی جملے ۔۔۔۔۔ مراد جان خیریت ہے آپ ٹھیک ہیں میری کتابیں مل رہی ہیں بس کافی ہے آپ پڑھ لیتے ہیں ” کتنا کافی ہے “ اب بتائیں اس کے بعدکچھ رہ جاتا ہے کہنے کو…. ایک عرصے تک ذاتی خرچے سے کتابیں شائع کرنے وہ شخص اپنی نیند اور آرام اپنی زبان ادب کی ترقی و ترویج کے لےءوقف کرنے والا شخص محبتوں کا امین رنگوں اور خوبصورتیوں کا محافظ شخص ہم سے آپ سے اپنی زبان سے اردگرد سے اس معاشرے سے اس خطے سے ہماری تاریخ سے ہمارے مستقبل سے الگ ہوسکتا ہے …. مرسکتا ہے…. جدا ہوسکتا ہے…. !!! نہیں قطعی نہیں بالکل نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے