( پیدائش1940)

ناکردہ گناہ کی سزا کا لفظ میں نے سن رکھا تھا، مگر خود میں نے پہلی بار، اور شاید بھرپور طور پر، کشور ناہید کے ہاتھوں یہ بھگت لی ۔ ہماری اور کشورنا ہید کی پہلی ہی ملاقات میں اُس نے بہت نا ترسی کے ساتھ ایسا کرلیا تھا۔…….. اور یہ دوڈھائی درجن برس پہلے کی بات ہے ۔
یہ کوئٹہ سرینا ہوٹل کا ہال تھا۔ اِس کو نے سے لے کراُس سر ے تک پاﺅں کو صوفہ کی طرح نرم لگنے والی موٹی قالین سے مزین ہال۔مختلف ڈیزائنوں اور سائزوں کے فانوسوں سے ،ایک نہیں دو نہیں پورا چھت بھرا ہواہے ۔ سیٹج اپنی ترئین اور مکینوں کے حساب سے مزین ومر غن ومتمکن۔نیچے پہلی قطار فربہ،گوری مگر گنجی گردنوں والے لیڈ روں،بیورو کریٹوں یا عالموں فاضلوں پہ مشتمل ہے۔ کوئٹہ کا اکلوتافائیو سٹار ہوٹل جہاں نمود ومنافقت ایک ایک حرکت ،ایک ایک لفظ میں برآمد ہونے کو چھلکتی مچلتی ہے ۔
میں کشور ناہید کو جانتا تھا اس لےے کہ وہ تھی ہی جانی پہچانی اورمشہورہستی ۔مگر وہ مجھے نہیں جانتی تھی ۔منتظمین میں سے کسی نے اُس سے میرا تعارف کرایا۔بس پھر کیاتھا، میر الا غرچہر ہ دیکھ کراُسے بغیر کسی اشتعال کے اپنا زہریلے الفاظ سے چپڑا چانٹا استعمال کرنے کا اشتیا ق ہوا: ”یہ جوتم لوگ پرائی عورتوں کے دونوں کا ندھوں پراپنے بازور کھ کر اُنہیں عورت کے حقوق سکھاتے رہتے ہو، بتا ﺅ آج اس ہال میں موجود لوگ اپنی بیوی بیٹیا ں کیوں نہیں لائے؟“۔ میں شر میلاپن میںایسے غرق و کنفیوز کہ بازواور کندھوں کے اِس استعمال پہ لاحول والا قو ت پڑھنا بھی بھول گیا۔ کلچرل شاک کےلئے یورپ جانا ضروری نہیں ہوتا ، یہ پارسل کی صورت بیرا آپ کے گھر بھی پہنچا دیتا ہے ۔
میراخیال تھاکہ وہ تحریر میں ”بری عورت “ ہے ۔ مگر اب پتہ چلاکہ وہ منافقت ودوغلے پن کے خلاف سماجی طورپر بھی ”بری عورت “ ہے ۔
اچھا ،زخم سارے بھر جاتے ہیں ۔ نشان بنائے یا بغیر نشا ن بنائے ، مگر کلچرل مکّا کبھی شفایاب نہیں ہوتا۔یہ تو درست ہے کہ آج میری سینئر محترمہ کشور ناہید میری بہت عزت کرتی ہے ۔ بہت پیار سے ملتی ہے ،بہت خاطر تو اضع کرتی ہے۔ مگر وہ والا شاک اس قدر گہرا ہے کہ پچیس تیس برس گزرنے کے بعد، آج بھی ہرا اور،زندہ ہے۔ مگراِس شاک کی خالق و مالک کشور ناہید کی حالت بالکل مختلف ہے۔مشرقین کافاصلہ دو سیکنڈوں میں پاٹنے کی صلاحیت سے مالا مال میری اس دوست کو، مجھے پہنچا یاوہ کلچر ل شاک مدہوشی کی حالت میںبھی یاد نہیں دلایاجا سکتا۔
کیا کیاجائے یہ سچی اور کھری عورت میرے سفر کی ساتھی جوہے۔اِسے تو دو جہاںمعاف۔سفر کی ساتھی سے مجھے اِس خطے کے دو بڑے انسان یاد آئے۔ عبداللہ جان جمالدینی اور سائیں کمال خان شیرانی۔ انسان جب بڑائی کی ایک خاص سطح سے گزرجاتا ہے تو الفاظ اپنے روایتی معانی کھودیتے ہیں۔ وہ بس بولنے والے کے ہونٹوں کی جنبش میں چھپے اُس کے ذہن اور دل میں جو کچھ ہے اُس کا ترجمان بن جاتے ہیں۔ عبداللہ جان اپنے دیرینہ کامریڈ ، سائیں کمال خان مرحوم کے بارے میں ایسا لفظ کہہ گئے جس کے معانی اُس کے بعد میرے لےے عزت و شرف کی اصطلاح بن گئے۔ ” سائیں میرا رفیق ِ حیات ہے“۔
اُس یکتا اور وکھری عورت نے ،رفیقوں کے رفیق پبلو نروداکو ترجمہ کر رکھا ہے ، سیمون ڈی بورا، فر وغ فرخ زاد،اور لیلی خالد کا ترجمہ کیاہے ۔…….. یہ میں نے اُن لوگوں کے نام لےے جن کو میں نے پڑھا، یا اُن کے نام سے میں آشنا ہوں ۔کشورنے تو وزنی سینکی، کینتھ بیچن ، لیویولڈ، سیداد سینگھور، رابرٹ فراسٹ، جا ن مشکزئی ، چانگ کو سواورہیراکی کی شاعری کو ہمارے عوام کے لےے ترجمہ کرڈالا۔ نثرمیں سیمون ڈی بورا کے علاوہ بپسی سد ھوا کے ناول”برائڈ“ کا ترجمہ بھی اس نے کر رکھاہے ۔ایسی ساتھی سے بھلا کیاحساب کیاکتا ب ؟۔ اس کے ثوابو ں کا وزن ہی میری شکایت کو کچل ڈالے گا۔
یہ اوپر درج کردہ نام بغیر وقفہ کےے اعتماد کے ساتھ صرف میں ہی لے سکتا ہوں۔ جی ہاں، دنیا بھر میں وہ واحد شخص ہوں جسے کشور ناہید کی ساری کتابوں کے نام یاد ہیں۔میں نے خواہ کسی اور کوپورا پڑھاہویانہیں ، مگر میں نے کشورناہید کی ساری تصانیف پڑھ رکھی ہیں ۔ساری کی ساری۔ اور وہ بھی غصہ اور خار کے ساتھ۔
ہوایوں کہ میں نے ایک بارفون پر اُس سے اُس کی کسی کتاب کے متعلق پوچھا۔ ا س نے کچھ دیر بعد فون کیا اور بتایا کہ ” میں نے سنگ ِمیل والوں سے کہہ دیاہے ، وہ میری کتابیں تمھیں بھیج دیں گے“۔ آئی گئی والی اس بات کانتیجہ مگریہ نکلا، کہ چنددنوں کے اندراندرایک بہت بڑابنڈل ایک بہت بڑے بل کے ساتھ مجھے موصول ہوا ۔تکلف اور تکلیف بھرے بلوچ مامانے یہ بہت سارا پیسہ بھرا اور کتابیں وصول کیں۔مگر اُس وقت بھی میں نے ”ر“ کی بجائے ”ڑ“ کا استعمال کیاتھا:
بڑی عورت!!۔
نیم شوق ، نیم جھنجلاہٹ اور نیم غصے میں میں نے ایک ایک کرکے کشورناہید کی ساری کتابیں پڑھ لیں۔ کافر پبلشر نے انفرادی کتابیں بھی بھیج دیں اورانہی کتابوں پرمشتمل کلیات بھی ۔ آپ نے اپنے کسی دوست کی کتابیں اس صورت کبھی نہ پڑھی ہوںگی کہ آپ کا نچلاہونٹ مستقل طور پر دانتوں کی گرفت میں رہے۔
میر گل خان نصیر نے جس طرح ” کوچ و بلوچ“ نامی کتاب کے سلسلے میں کیا تھا ، وہی بدعت کشور نے سمون بورا کی کتاب کے ترجمے میں کیا تھا۔ اُس نے1991میں سمون بوار کی عورتوں پہ لکھی کتاب ” سیکنڈ سیکس“ کے ترجمے کی بجائے ایک تو اُس کی تلخیص کرڈالی۔پھراس میں مقامی رنگ اپنی طرف سے انڈیل دیا۔ فرانس میںلاہور شامل کردیا۔ ادیبوں کی کلر ک طبیعت ، اور ملّاذہنیت کے لئے تویہ حرکت قابلِ اعتراض رہی ہوگی مگرمجھے یہ بہت اچھا لگا۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی ملاوٹ کرنے سے عام قاری بالخصوص عورت قاری کوتفہیم میں فائدہ ضرور ہواہوگا۔
اُس کی یہ کتاب وین گارڈ نے شائع کی تھی ۔ قیامت ہوگئی تھی۔ ایک ماہ میں پانچ ہزار کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ یونیورسٹی کے سارے بچے بچیوں نے کتاب خریدی ۔ حکومت میں تو کھلبلی مچ گئی۔ چنانچہ ایسی پُھرتی وقوع پذیر ہوئی کہ وہ کتاب نہ صرف پنجاب میں بلکہ سارے صوبوں میں الگ الگ بَین کی گئی ۔ اب کشور پر باقاعدہ فحاشی لکھنے کے الزام میں مقدمہ قائم ہوا۔” ایس ۔ پی علاقہ میرے دفتر آکر بولا۔ آپ کہیں چلی جائیے ، مجھے آپ کو آج گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ میں نے کہا ۔” خوشی سے کرو۔ میں تو دفتر بیٹھی ہوں“۔ اس نے پھر کہا ۔” مجھے اچھا نہیں لگے گا۔ آپ براہ ِ مہربانی چلی جائیے“۔ اتنی دیر میں ایک دوست ایس پی کا فون آیا کہ میں اٹک سے ابھی لاہور آرہا ہوں تمہاری ضمانت کرانے۔ لاہور والا ایس پی مجھے حوالات میںلے گیا۔ بڑی مزیدار چائے اور سموسوں سے خدمت کی اور جب تک پیشگی ضمانت کے آرڈر لے کر میرا دوست واپس نہیں آگیا، میں حوالات میں موجود رہی۔ اب چلا باقاعدہ مقدمہ ۔ اعجاز بٹالوی نے انسائیکلو پیڈیا سے جب تک سیمون کی کتاب کا معنی” سوشیالوجی“ نہیں نکالا، اس وقت تک مقدمہ داخلِ دفتر نہیںہوا۔ اس طرح میری جوڈیموشن کی گئی تھی ، وہ بھی واپس ہوئی۔ البتہ کتاب مستقل دفن رہی“۔
فاطمہ حسن کی ” پوری نہ ادھوری“ والی غزل کی شاعرانہ معانی اپنی جگہ مگر عملی صورت اگر دیکھنی ہوتوکشور ناہید کو دیکھےے،وہ آپ کو ایک بھرپور تخلیقی انسان کے بطور ملے گی۔ ذہانت بہت اور محنت بے پناہ۔عورت سے مخصوص کردہ اخلاقیات کی خرافات والی بات کو چھوڑےے کہ اسلام آباد و کراچی و لاہوراور دوسرے بڑے شہروں کے ” مڈل کلاس ذہنیت “ کے اخلاقی معیار پر تو کوئی بندہ بشر پورا اترہی نہیںسکتا۔ اُن کے تودانت‘ دکھانے والے تو ٹی وی پہ نظر آتے ہیں اور کھانے والے اُن کی اپنی طرزِ بودوباش میں۔ مردانہ ذہن و لسان ہو‘ اور زنانہ وجود تو بائیں کندھے کا فرشتہ لکھتے لکھتے داعی ِاجل ہوجائے مگر زبان نہ رکے۔ اور خصوصاً جب عورت ذرا سی مشہور و نامور ہو تو پھر تو ستلج و بیاس کے سیلابی پانی جیسی زبان خس و خاشاک کرکے رکھ دیتی ہے۔ کسی برسات ، کسی گلیشیئر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہاں میرے وطن میںبھی ایسا ہے ، مگر خصوصاً دریائے سندھ کے بائیں کنارے کے لوگ ترس کے لفظ و جذبے سے اجنبیت کی حد تک نا واقف ہیں۔ کسی بھی حد سرحد کے منکر۔اب انہیں کشور ناہید کی شکل میں موضوع ہاتھ آیا۔کشورجو عورت ہے ۔مگرواسطہ پڑے تو پتہ چلے کہ وہ روایتی عورت نہیں ہے۔ وہ اپنے حقوق سے متعلق ایسی بے باک ہے کہ مروج کا ایک ایک ریشہ ادھیڑتی جائے۔
اُس کے اس مسلسل و مستقل جدوجہد سے کوئی مثبت حاصلات ہوئیں یا نہیں وہ الگ بحث ہے ۔ لیکن یہ ضرور ہو ا کہ کشور سے متعلق قصے بہت بنے۔ اور عورت کے گرد تو قصے آپ کو معلوم ہے کیا بنتے ہیں۔ چنانچہ اُس کی تحر یر، خیالات ، اورنظر یات سے متاثرلوگ بھی ،کشور سے متعلق کہا نیوں کے بارے میں سننے کہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ میں اپنی کم علمی کے صدقے واری کہ میں نے بد نا میوں کے عروج میں کشور کے دفا ع میں لکھی کوئی ایک تحریربھی نہیں دیکھی۔
مگر کشور سے متعلق،ضروری نہیں کہ آپ اُن سارے لگائے گئے الزامات ، بہتانات، غیبتوں ، چہ می گوئیوں، کھسر پھسروں اور گالیوں کودوسرے مصنفوں یا ‘راویوں کی زبانی پڑھیں ۔ جن لوگوں کو معلوم نہ تھا، انہیںکشور نے خود اپنی کتابوں میںبتاڈالا ہے کہ ایک عورت سے، ایک ذرا سی نامور عورت سے فیوڈل معاشرہ کس طرح کاسلوک کرتا ہے۔” جرات مند عورتیں“ تو ہرسماج کا لازمی جزوہوتی ہےں۔ مگر ”باشعور جراتمند عورتیں“ خال خال۔ مگر وہی توسماج کے وقار کی اصل ضمانتیں ہوتی ہیں۔
کشور ناہیدعورت کا شاونسٹ روپ لے کر انسان بنی اور شاونسٹ انسان بن کر عورت ہوئی۔ اس شاونسٹ انسان اور شاونسٹ عورت نے ہتھیار ڈالنے ،اور سپردگی میں جانے پہ تین لعنتیں بھیجیں ۔ قلم اٹھایا اورمردانہ طبقاتی معاشرے کے جغرافیائی و نظریاتی دونوں محافظوں کے کشتوں کے پشتے لگانے میں لگ لگی۔ اس نے نفسیاتی طور پر بیمار اِس سماج کے سارے ویلیوز کے بخےے ادھیڑ کر طبقاتی ، قومیتی اور صنفی استحصال کو چھپانے والے آہنی پردے کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔
کشور ناہید تو سب سے بڑا اخلاقی کام یہ کرتی رہی ہے کہ اس نے کچلے ہوئے لوگوں کے لئے لکھا۔ عورتوں کے لئے لکھا۔صرف اپنے لےے نہیں اس لئے کہ وہ ” اکیلی تو نہیں‘ اس کے اندر کئی عورتیں قید ہیں“۔ یا شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ اس نے دنیا بھر کی عورتوں کے حقوق کے لےے جدوجہد کی۔اخلاق اور اخلاقی نظام پر انے ہوجاتے ہیں مگر لفظ اوراکھر پرانا نہیں ہوتا، بالخصوص وہ لفظ جور وشن فکر کو سمیٹے ہوتا ہے۔ اخلاق بدل جانے والا مظہر ہوتا ہے، مگر تغیر وار تقا کے مبلغ الفاظ دوام رکھتے ہیں ۔ کشور نے آگہی کا لفظ رقم کیا ۔اس لےے اُسے بقا ہے۔
کشور کی انسان دوستی،ادب و ادیب نوازی وغیرہ کے بارے میں میں نے بہت پڑھا سناتھا۔ مگربعد میں مجھے خود اُسے دیکھنے پرکھنے (اور بھگتنے کا بھی) موقع ملا۔ مشرف کے دور میں میری حتمی زباں بندی کے لئے ایجنسیوں والے میرے دو بھائیوں اور بڑے بیٹے کو لمبے عرصے قید میں ڈالنے( یا خدانخواستہ مسخ کردہ لاشوں کے بطور پھینک دینے) لے گئے تو خوف و دہشت کی فضا میں سارے احباب نے محتاط اور خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔ مگرکشور نے مجھ پہ پڑی اِس آفت کو گمنام بات رہنے نہ دیا اوروہ اس خبر کوروزنامہ جنگ کے اپنے کالم میں شائع کرکے ہزاروں لوگوں کے نوٹس میں لائی ۔ افتخار عارف اور دوسرے بہت سے معلو م اور کئی نامعلوم احباب کی مدد سے اس جاں گسل پریشانی سے میری نجات ہوگئی ۔(یہ عذاب ناک وقت خدا کرے کسی پہ نہ آئے!)۔ کشور ناہیداپنے احسان بھرے اس کالم کو اسی طرح بھول چکی ہوگی جس طرح کہ اُسے اولین ملاقات میں میری روح کو زخمی کردینے کا واقعہ یاد نہیں مگر مجھے اچھائی کا تذکرہ کےے بغیر تشفی نہیں ہوتی۔بالخصوص جب وہ مجھ پہ کی جائے۔
وہ بہت عرصے سے جنگ اخبار میں سماجی ادبی سیاسی اہمیت کا کالم مسلسل لکھتی ہے۔ اِن کالموں کا ایک مجموعہ” ورق ورق آئینہ“ کے نام سے چھپ چکا ہے، سال2006 میں۔
کشور ناہید اردو میں لکھتی ہے۔ شاعری کرتی ہے۔سماجی خرابی کے خلاف شاعری کے اُس کے مُکّے اُسی قدر بھاری ہیں جتنے کہ نثر اور تراجم میں۔ کشور عورتوں کے حقوق کی زبردست طرفدار ہے مگرمیں اُس کے لئے فیمنسٹ کا لفظ استعمال نہیں کروںگااس لےے کہ یہ لفظ مجھے برا لگتا ہے ۔ مجھے ہر وہ اصطلاح بری لگتی ہے جولوگوں میں کنفیوژن پیدا کرے ۔ فیمنزم اور فیمنسٹ بہت ہی مدھم و مبہم اور ذرا سی cheapاصطلاحات ہےں۔(اورایک لحاظ سے بورژوا بھی)۔عورتوں کے لےے یہ ایک الگ ”ازم “ گھڑ بھی لی گئی ، اور ا س پہ غیر ملکی دورے بھی بہت رہے اور اس لےے عورتوں کے نام پر ( حتیٰ کہ انقلاب کے نام پر بھی ) انقلاب کو روکنے کی کامیاب کوششیں عرصے چلتی رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر پاک بات کو سرمایہ داری نظام کے دانشوروں نے لایعنی انداز میں استعمال کرکے ناپاک بناڈالاہے ۔اس لےے خبر داری کی ضرورت تو ہے ۔ خصوصاً ایسے وقت جب خردافروزتحر یک بہت کمزور ہو۔
میں جانتا ہوں کہ”عورت کی محکومی“ کے نام پر تنظیمیں کھڑی کرکے اس محکومی میں خود بھی حصہ ڈالنے والیوں کے برعکس ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے اس باریکی کوسمجھا ۔اور عورتوں کی محکومی کو محکوم قوموں ، مزدوروں اور کسانوں کی نجات کی تحریک سے جوڑنے میں اپنی عمریں بتادیں۔ کشورناہید انہی عورتوں میں سے ہے ۔ اس نے نجاتِ زن کی تحریک کی کمزوررسی کو عمومی عوامی قومی جمہوری تحریک کی کمزوررسی سے مضبوط باند ھنے کی کوشش کی ۔ کشورخود پہ کوئی لیبل وپرچم ورنگ چڑھائے بغیر عورتوں کے حقوق کے معاملے کو دیگر نچلے کچلے اور مظلوم انسانوں کے حقوق کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہے ۔
جس وقت میں نے کشور ناہید کو اِس قدر قریب سے نہیں دیکھا تھا، میں اُس سے خوفزدہ نہ تھا ۔ مگر اب جبکہ ہم اچھے اور معتبر دوست ہیں تو میں اُس سے ڈرنے لگا ہوں…….. کافر،ڈانٹتی بہت ہے۔ اور دوستوں کو ڈانٹنے کے لئے جواز کی تو ضرورت ہوتی نہیں۔ اُس کی ڈانٹ منصوبہ بند بھی ہوسکتی ہے ، اور‘ فی البدیہہ بھی۔ جب چاہے ہم عمری ڈانٹ کو بزرگانہ ڈانٹ بنا دیتی ہے، اور جب چاہے سیاسی ڈانٹ کو دانشی ڈانٹ بنا ڈالے۔اور اس کی ڈانٹ ڈپٹ ، مذمت ، تنقید ،سب کچھ کا جواز اور ڈنڈا عورت کے حقوق کی سلبی ہوتاہے ۔ کشورناہید (دراصل کشو رجہاں)عام لوگوں یا دانشوروں پر عموماً مگرروشن فکر لوگوں پرخصوصاً اِس معیار کا اطلاق لازمی سمجھتی ہے ۔اس کے معیار کے مطابق پورا معاشرہ اس وقت استحصال سے پاک ہوگا جب عورت کو برابری کے مواقع دستیاب ہوں گے ۔ اس معاملے میں وہ کاٹ ڈالنے والی شاعری کرتی ہے ۔غیرفعال مشرقی عورت والاحجاب نوچ پھینکتی ہے اور ایک جنگی سپاہ کی تشکیل میں جت جاتی ہے ۔آپ اُس کا ”جاروب کش“ پڑھےے” ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑادےے “ دیکھےے،”میری مانو“ ،”سن ری سہیلی“ ، کلیرنس سیل“، اعتراف “ ”میں کون ہوں“۔” زخمی پر ندے کی چیخ “ ” اے کاتب تقدیر لکھ “سب جگہ آپ کو ایک مزاہم و متحارب عورت ملے گی جو اپنی محکومی مظلومی کے خلاف نبرد آزما ہے۔مگرکشور ناہیدذاتی دکھوں کادکھاوانہیں کرتی ۔
وہ مزاہمتی شاعرہ ہے ۔ اور مزاہمتی وجنگی ڈکشن کے بغیر اس کی شخصیت وشاعری دونوں ادھوری رہ جاتیں……..۔لوگ دلچسپ ہیں کہ ایسی بڑی لڑائی میں ”آیئے گاجائیے گا “ جیسی امتیازات بھری زبان کااستعمال چاہتے ہیں وگرنہ گویا اُن کی شاعری کاوضوٹوٹ جاتا ہے ۔ ذرابلوچی مزاہمتی شاعری تودیکھےے !۔
وہ بنیاد پرستی کی پکی دشمن رہی۔ بہت ہی بے باکی میں، بہت ہی دو ٹوکی میں۔
لیکن ایک بات میں نے حیرت سے نوٹ کی کہ اس کے کٹھن بچپن اور آگے کی زندگی کی مشکلات نے مجھ سے پندرہ سال بڑی کشور کے اندر کوئی تلخی آنے نہ دی۔ اس کی سوانح پرھیں تومعلوم ہوگا کہ جیل جیسا پردہ اُس کے علاقے میں رائج تھا۔ہندوستان کے بلند شہر سے ہمارے بہت سے دوستوں کا تعلق ہے۔ سید زادی کشور بھی وہیں کی ہے ( پیدائش 1940) ۔وہ سات بہن بھائیوں میں سے ایک ہے۔ تقسیم ہند پہ1949 میں اُس کے خاندان کو بھی پاکستان آنے کا سوجھا تھا۔ پابندیوں کے سبب اُس نے گھر میں پڑھا اور مراسلاتی کورس کے ذریعے میٹرک کا سند لے لیا۔پنجاب یو نیورسٹی سے ایم اے‘ معاشیات میں کرلیا۔” پلو میں جگنوﺅں کی جگہ ماں کی بددعائیں بندھوا کر “شاعر یوسف کامران سے شادی کی۔ دو بیٹے اور بہت ساری بے وفائیاں پائیں۔خاوند 24 سالہ ترش و شیریں ازدواجی رفاقت کے بعد 80کی دہائی میں فوت ہوا۔عورت مخالف سماج میں عورت کشور نے خاندان کو پالا۔
1968 میں اُس کی شاعری کا پہلا مجموعہ ” لبِ گویا“ شائع ہوا۔ یہ غزلوں کا مجموعہ تھا ، اور خوب مقبول ہوا۔پھر غیر ملکی باغیانہ شاعری کا اردو نظم کی صورت ترجمہ چھپا۔ آزاد نظمیں ۔
اُس کی ادارت میںچلنے والے مشہور ادبی رسالے ماہِ نو کے شمارے اب بھی علم والوں کے ہاں مجلد ملیں گے ۔کیا خوبصورت رسالہ تھا۔ ادب و علم کا خزانہ۔ اُس رسالے کی اشاعت میں مارشل لا والوں نے زبردست رکاوٹیں ڈالیں مگر کشور پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ دفتراور مارشل لاءآفس سے سخت وارننگ ایشو ہوئی ۔ ماہِ نو کی کاپیاں سنسر کے لےے جانے لگیں۔ پھر بھی فیض صاحب کی نظم ”مرے دل مرے مسافر “بھی ماہِ نو میں شائع ہوئی اور فہمیدہ ریاض کی نظمیں تو ایسے شائع ہوئیں کہ سنسر کے وقت رشیدہ ریاض لکھ دیا، بعدمیں چیپی اتار کر فہمیدہ لکھ دیا۔ یوں سنسر والوں کے ساتھ لکن میٹی چلتی رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں ماہِ نو کی قیمت دو روپے ہوتی تھی۔ شائقین رکشہ، ٹانگے پر پانچ روپے خرچ کرکے پرچہ مفت لینے آتے تھے۔(1)۔
ضیاءالحق کے زمانے میں حکم ہوا کہ ہر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نماز کی امامت کرے گا۔ کشور ناہید نے دفتر والوں کو کہا۔” اب کہاں جاﺅ گے ۔ امامت تو ایک خاتون کرے گی“۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا ۔ ” ہم کوئی شکایت نہیں کرےں گے۔ آپ ہمیں خود نماز پڑھنے دیں“۔ (2)۔اُس نے ضیا دور کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا:
”اس زمانے میں اے ۔ سی ۔ آر میں نماز پڑھنے کے نمبر بھی دےے جاتے تھے۔……..
”ضیا کی چھوٹی بیٹی کیبنٹ میٹنگ کے دوران بھاگتی ہوئی آجاتی۔ اُسے کوئی روک نہیں سکتا تھا کہ ڈاکٹر نے منع کیا ہوا تھا۔
” ادیبوں میں سے چند لوگ تھے جن کو لطیفے سنانے کے لےے لاہور سے بلایا جاتا اور گھنٹوں ان کے ساتھ وقت گزرتا۔ ضیاءالحق کیا ختم ہوا، وہ اب یہ مانتے بھی نہیں کہ وہ ضیاءالحق کے نور تن تھے“۔(3)۔
کتنا منافقت والا دور تھا یہ۔ہم گواہ ہیں کہ نسیم حجازی زدہ ضیاءالحق کے مارشل لا دور میںمیخانے کھلے تھے۔ ہوٹلوں سے پرمٹ کے ذریعہ شراب لینے والے بیشتر جمعداروں کے عیش تھے۔ چھ سو کی بوتل لے کر، بارہ سو کی بیچتے تھے۔ ٹیلیفون پہ آرڈر لیتے تھے، گھروں میں پہنچاتے تھے ۔ ظاہر اً ضیاءالحقی اور اصولی گھرانوں میں بھی اس کا چلن عام تھا۔
1988 تک اُسے کبھی اِدھر کبھی اُدھر گھمایا جایا جاتا رہا۔ جب بے نظیر کی حکومت آئی تو اُسے اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔مگراردو سائنس بورڈ کا ہنی مون بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوا اور راتوں رات وزیراعظم ہاﺅس سے سراج منیر نے پا پیادہ ایک ہر کارہ بھیجا اور اُس نے دفتر سے فوری طور پر خارج کرنے کا حکم نامہ میرے ہاتھ پکڑا دیا۔
اگلے دو سال جب نواز شریف کی حکومت رہی، اُسے کبھی کہیں اور کبھی کہیں روانہ کردیا جاتا ۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اُسے تنخواہ ملتی رہی۔
وہ نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل بھی رہی۔اس کا دفتر ادیبوں شاعروں کا مجمع خانہ بن گیا۔ وہ اپنا دفتر بھی خوب چلاتی رہی اور ملنے کے لےے آنے والوں سے باتیں بھی کرتی رہی۔ کسی کا کام تھا سرکاردربار میں ، کسی کا گھر کا کوئی معاملہ تھا۔ کسی کی شاعری یاافسانہ میں اصلاح کرنی ہوتی۔اسی عہدے کی وجہ سے کشور کے خلاف بھی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
اوربالآخرکشورناہید ریٹائر ہوگئی۔ ہم سارے پاکستانیوں کی طرح اُس کی نوکری کے بیشتر سال آمرانہ حکومتوںکے دور میں گزرے ۔ اس نے واقعتاً نوکری کی چاکری نہیں۔ریٹائرمنٹ پر اُس کا اپنا خوبصورت مشاہدہ ملاحظہ ہو:
”جب سے ریٹائرمنٹ لی ہے ، ہر ماہ بنک میں جاکر یہ لکھ کر دینا پڑتا ہے کہ میں ابھی تک زندہ ہوں پھر مجھے پنشن ملتی ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے چار مہینے کی اکٹھی پنشن لینے کے لےے فارم سائن کیا۔ اکاﺅنٹینٹ نے کہا ۔” آپ الگ سائن کریں کہ پچھلے مہینوں میںبھی آپ زندہ تھیں“۔
اُس نے اپنی ایک کافر آٹو بائیوگرافی لکھی جو 1994 میں چھپی۔تیرہ سوبارہ صفحو ں پر مشتمل شاعری کے کلیا ت2001 میں چھپے ”دشت قیس میں لیلیٰ “ کے نام سے۔اس میں اُس کی مندرجہ ذیل مجموعے شامل ہیں: لب گویا، بے نام مسافت، نظمیں، کلیاں دھوپ دروازے، ملامتوں کے درمیان ، سیاہ حاشےے میں گلابی رنگ ، خیالی شخص سے مقابلہ، اور ، میں پہلے جنم میں رات تھی۔
وہ تقریباً سال 2000 سے”حوّا“ نامی عورتوں کی ایک تنظیم چلارہی ہے جو کشیدہ کاری وغیرہ کی خرید و فروخت سے معاشی طور پر خود کفیل تنظیم بن چکی ہے۔یہی اُس کی پڑھائی لکھائی کا اڈہ بھی ہے۔یہیں اُس سے ملاقات ہوسکتی ہے ، شام سے قبل اُس سے ” چائے “ پی جاسکتی ہے۔
یادداشتوں کی اُس کی پہلی کتاب” بری عورت کی کتھا“ کے نام سے چھپی تھی۔عام قاری کے دل میں سیدھا مکاّ،(حیرت ، قبولیت اور استرداد کے ذائقوں کا مرکب مُکا) ،مگر یہ مُکامخالفین کے توما تھے پر تھا۔کشور کا علم ہی وسعتوں میں ڈوبا نہیں ہے، اُس کی یادداشت بھی صحیح سالم ہے۔ اسی لئے اس کی تحریروں میں ربط و تسلسل ہے ، اس کے افسانوں میں چاشنی ہے اور اس کے شعر میں کشش ہے۔
یکتا ہے کشور، اس لےے بھی کہ اب اُس جیسے تعداد میں رہے ہی کتنے لوگ ہیں۔ موت سال بہ سال ، ماہ بہ ماہ اس تعداد کو کم کرتی جاتی ہے۔
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
” سوختہ سامانی دِل“2002میں منظرِ عام پہ آئی،یادداشت ” شناسائیاں رسوائیاں“2007 میں چھپی۔اور”وحشت اور بارود میں لپٹی ہوئی شاعری“سال2009میں۔زیتون، آجاﺅ افر یقا،بر ی عورت کے خطو ط ، نازائیدہ بیٹی کے نام،سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ ، بے نام مسافت ، لبِ گویا ، خیالی شخص سے مقابلہ ، میں پہلے جنم میں رات تھی، اُس کی دیگر تخلیقات ہیں۔
کشور ناہید نے غزل سے شاعری شروع کردی ، اُسے تلپٹ کرکے رکھا۔ میرا مشاہد ہ ہے کہ اس خطے کی ساری زبانوں میں اردو وہ واحد زبان ہے جس نے اپنی زبان پہ عوام کے پسینے کا میل بہت عرصے تک آنے نہ دیا۔1936 سے پہلے تو یہ زبان خالص اشرافیہ ، دربار اور دربار سے وابستہ اداروں کی زبان رہی۔ اس زبان کو ” انسانی“ زبان بنانے میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہے۔ کشور ناہید کا حصہ یہ ہے کہ اس نے اس زبان کو بیگمات کی فارغ البال غزلیات سے نکال باہر کردیا۔ اور اس میں نظم نامی سوکن لا کر ڈال دیا۔
ادب برائے ادب تو نظریہ ہی اردو کا تھا ۔ ہماری باقی زبانوں کو تو ویسے ہی اس بحث میں گھسیٹ لیا گیا تھا ۔ سو، ادب برائے ادب کے اردو والوں کو پہلی بار مقدس غزل میں کشور ناہید کی پیچ کس ، انبورہ،اور ہتھوڑا برداشت کرنا پڑا؟۔اس کی شاعری میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ یہاں غزل تنزل پذیر ہے۔ اور نظم ارتقا اورشباب کی طرف رواں دواں ہے۔ ہر اچھی جدید شاعرہ کی طرح کشور ناہید بھی غزل سے نظم کی طرف متوجہ ہوئی اور پھر نثری نظم تک گئی۔یہی بات اس کے مجموعے” گلیاں، دھو پ،دروازے“ میں بھی موجود ہے۔
بھئی جس کی کتاب کا نام ” ملامتوں کے درمیان“ ہو تو اس کے اندر درج شاعری میں فیوڈل، بے حجاب اور دوغلے معاشرے سے کیا کیا بے حجابیاں کی گئی ہوں گی۔
نرود ا اُس کا پسندیدہ شاعر ہے۔ مارکوئیز اور کنڈیر بھی اس کے پسندیدہ ہیں۔گل خان نصیر کو البتہ اس نے نہیں پڑھا( وجوہات وجواز دینے کی کیا ضرورت ہے ؟)۔
اُسے آدم جی ادبی ایوارڈ، بچوں کے ادب پر یونیسکو انعام ،بہترین ترجمہ ایوارڈ، منڈیلا پرائز اور ستارہ امتیاز ملنے کا تذکرہ میں نہیں کروں گا کہ کشور ایوارڈوں سے بلند و باتر تھی۔ اس بات کا تذکرہ بھی چھوٹا لگتا ہے کہ کشور پر بے شمار تحقیقی مقالے یو نیو رسٹیوں اداروں میں لکھے گئے ۔
علم و ادب سے ہٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ صرف دانشوری تک محدود نہ رہی بلکہ عملی طور پر بھی متحرک رہی۔ضیا دور میں ویمن ایکشن فورمWAF میں خوب سرگرم رہی۔
کشور ناہید کی تحریر سے ایک ٹکڑا دیتا ہوں:
”ایک مدت تک صرف حلقہ¿ اربابِ ذوق پنڈی ہوتا تھا۔ ایک دفعہ میں آئی، جلسہ ہورہا تھا۔ منشاءیاد کہانی پڑھ رہے تھے۔ ممتاز مفتی صدارت کررہے تھے۔ سب نے تبصرہ کیا۔ مفتی صاحب بار بار مجھ سے کہیں ” تُو بھی کچھ بول“۔ میں نے کہا ۔ ” میں سب سے آخر میں بولوں گی “۔ اب سب منتظر تھے کہ میں کیا کہتی ہوں ۔ آخر مفتی جی نے کہا ۔” اچھا اب بول “۔ میں نے کہا ۔” مجھے کہانی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔ مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ بیئر میں پانی ملا کر نہیں پیا جاتا ہے“۔ ایک قہقہہ پڑا اور محفل برخاست ہو گئی کہ اس کہانی کا ہر پیرا گراف اِس فقرے سے شروع ہوتا تھا۔” پھر وہ بیئر میں پانی ملا کر پیتا رہا “۔(4)۔
سچی انسان ، سچی دانشو ر۔میں اپنی آخری بات اُس کی اپنی زبانی کہہ دیتا ہوں:”…….. اور جو کتابیں جھوٹ بولتی ہیں انہیں میں اپنے سرہانے نہیں رکھتی“۔

حوالہ جات
-1کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔صفحہ ۔31۔
-2کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔صفحہ ۔33۔
-3کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔صفحہ35۔
-4کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔ صفحہ60۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے