عشق کا کو ئی نعم البدل نہیں ،اس سے بہتر کو ئی راہ عمل نہیں یہ بذ ات خود عدل ہے اسلئے اس کو عدل نہیں،اس کو انسانی وارفتگی اور سچا ئی کے سوا اور کوئی دخل نہیں ۔وہ ذی رو ح ہی کیا جس میں کو ئی ہلچل نہیں یہ کسی بھی انسان کے امر رہنے کی علا مت ہے ۔اس سے تعلق بہت بڑ ی سعا دت ہے ۔اس سے قر بت شیطانی قوتو ں سے بغا وت ہے ۔زبا ن ،ضمیر اور زمین سے جڑت اس کی بڑ ی حکایت ہے ۔جس کی پہلی چنگاری وطن سے محبت ہے جس میں پیاس،بھوک اور تکا لیف کی پرانی روایت ہے۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما
گل خان نصیر کے عشق کی خا صیت میں وطن کو بڑا عمل دخل ہے ۔ایما ن و ایقا ن سے وا بستگی اس کا پہلا حوالہ ہے۔ آغا ز شا عر ی میں کہتے ہیں ۔
کفر کے ظلمت کد ے میں نور ایما ن چا ہیے
کشتی بے با دباں کو فضل یزداں چا ہیے
جیسے جیسے یہ جذبہ پر وان چڑ ھتا ہے توایک اور پہلو سا منے آتا ہے ۔
الٰہی مناں دئے صبر وقرار
عجبیںگوں نقشئہ ءبو تو ں دُچا ر
اور پھر یہ بھی فر ما تے ہیں؛۔
اے خدا وندا بلو چا ناچشیں مر دم بدئے
پر دما غ و جان نثار و زندہ دل روشن خیا ل
نو شیرواں نے بزر جمہر سے پو چھا تھا "شجا عت کیا ہے”اس نے جواب میں کہا "قو ت دل” ۔اس نے پو چھا ” قوت با زو کیوں نہیں؟۔”اس نے جواب دیا "اگر دل قوی نہیں تو قوت با زو بےکار ہے۔ "شا ید ایسی ہی صورت حال پر شیکسپئر نے کہا ہے کہ "محبت آنکھوں سے نہیں دل سے دیکھتی ہے ۔اس لئے محبت کے دیوتا کو اندھا کہا جا تا ہے "۔
یہی وہ پیما نہ ہے جس سے گل خان نصیر اور اس کی شا عر ی کو پرکھا جا سکتاہے ۔جس نے فر نگی مزاج غلا می سے چھٹکارہ پا نے کےلئے عمر عزیز کے 30 سا ل قید وبند کی صعوبتوں میں گزارے۔ ایک مجنوں کی طرح اپنے اور غیر وں کی دشنام طرازیوں کا شکار رہے ۔گھر اور خا ندانی ذمہ داریوں کو وطن کی محبت پر فوقیت نہ دی۔اور پھر کہا ۔
میں نہ بھا گوں گا کہیں جا ہ و چشم سے ڈر کر
میں نہ جا ﺅں گا کہیںرنج والم سے ڈر کر
تیر ی آغو ش میں ہی مجھ کو فنا ہو نا ہے
تیرے ما تھے سے مجھے داغ سیا ہ دھو نا ہے
انکی صا حبز ادی گوہر ملک کو ابا کی سر زمین سے عشق کا بھر پو ر احساس تھا ۔وہ کہتی ہیں کہ سو چتی ہو ں میر ے سر سے با پ کا سایہ تو اٹھ گیا ۔مگر نصیر مرے نہیں ۔وہ مر بھی نہیں سکتے ۔کیو نکہ وہ وطن کے عا شق تھے اور عا شق کبھی مر تے نہیں یہ با ت تو طے ہے ۔وطن سے محبت سب کی محبت سے مشروط ہے ۔جبھی گل خا ن نصیر کا دور ایسے عشاق سے بھر املے گا ۔ایک جا نب یو سف عزیزمگسی تو دوسری جا نب میر غو ث بخش بز نجو ایک طر ف میرعبدالعزیز کرد تو دوسری طرف جا نب عبد الر حیم خواجہ خیل ۔یہ لو گ تھے جو عشق کے باہمی احترام سے نہ صرف واقف تھے بلکہ عشق کے عملی مظاہرے میں زندگی بھر مصروف کا ر رہے ۔ عشق کا مطلب انسا نی اقدار سے محبت ،قتل غا رت گری سے نفرت ،حرام کما ئی سے انکا ر ،انسا نیت سوز مظا لم کے خلا ف بغاوت ، ا پنے جا ئز حقوق کا تحفظ ۔ایک محبوبہ کا عا شق بننا حا دثہ ہے ۔جبکہ لا کھو ں اور کروڑوں انسا نوں سے عشق کی حد تک محبت تو نعمت خداوندی ہے ۔عشق کے تمام درجات انسا نیت کا پر چارکر نے والوں کےلئے قا بل احترام ہیں۔عشق کی تڑپ خواہ کسی صورت میں ہو اس کا اظہا راور اس کی لذت ایک جیسی ہو تی ہے۔گل خا ن نصیر کے اپنے دوست سیا سی رفیق ملک فیض یو سفزئی کو لکھے گئے خط کے مندرجات ملاحظہ ہو ں۔
” ان کے سا تھ میں نے ایک مختصر ہفتہ بسر کیا ،مختصر اس لئے کہ مجھے اس ہفتہ کے اختتام کا پتہ ہی نہیں چلا” یہ جملہ میرعبدالعزیز کر د کے ساتھ گزارنے کا احوال تھا ۔اس میں گہر ی وابستگی محبت کا اظہا ر اس و قت کے حا لا ت میں جنو ن کی حد تک رابطوں کا پتہ دیتی ہے،مجدد الف ثا نی نے کہا ہے کہ "جس شخص پر محبت غا لب آگئی اس میں دکھ ،درد محسوس کر نے کا جذبہ زیا دہ ہو گا "۔
گل خا ن نصیر کے احساسا ت و جذبا ت سے ایسی ہی محبت کا اظہا ر ملتا ہے ۔اس کی شا عر ی کا اگر مکمل احا طہ کیا جا ئے توبلوچستان پر اغیا ر کے مظا لم اور ان سے چھٹکا رہ پا نے کا نعرہ تو اتر کے سا تھ ملتا ہے۔شا عر ی اور نثر میں ادبی احتجا ج کی روایت قد یم ہے ۔اس روایت کو تو ڑنے کےلئے عا قبت نااندیشوں نے اس خطہ میں جو مظا لم ڈھا ئے۔آج نہ صرف انہیں غلط القا بات سے یاد کیا جا رہا جن کے بیہودہ اطوار نے نئی نسل کو نہ صرف غیر سنجیدہ بنایا ۔بلکہ سیا ست کو پا گلوں کا اکھا ڑہ بنا دیا ہے ۔گل خا ن نصیر اور اس کے قلم قبیلہ کی روایا ت سے انکا ر نہ ہو تا اور ان کے سچ کو تسلیم کر نے کی روایت سے رو گردا نی نہ ہو تی تو آج عش عش کر نے کی بجا ئے داعش ،داعش کی رٹ نہ لگا نا پڑ تی ۔دیواروں پر تحر یروں سے خون کی بو نہ آتی ،چاند سر کر نے کی صلا حیت رکھنے والے نو جوان سر نج اور ہیرو ئن لے کر کچرا دانوں میں پڑ اﺅنہ ڈالتے ،غدار سا زی اور فر قہ با زی سیاسی نصا ب کا حصہ نہ بنتے ۔اگر گل خا ن نصیر اور فیض احمد فیض کے اکٹھ کو نہ تو ڑا جا تا تو ان کے اپنے اپنے شہروں میں عشق اور آدمی کے درمیان اس قدرفا صلے پیدا نہ ہو تے۔آخر سو چا جا ئے گل خا ن نصیرکو یہ کیوں کہنا پڑا ۔
پہ نام وننگ وآبرو
سراں وتی دیا ں ببیت
غلا میا چہ درکپیت
قدم قدم رواں بیت
اور یہ با ت یادرکھنے کی ہے کہ عشق کے نا خداﺅ ں کا عوا می سمندر سے تعلق ڈوبنے کےلئے نہیں ہو تا۔ڈوبتے تو وقت کے قزاق ہیں۔ گل خان نصیر کا زندہ رہ جا نا ان کے عوام سے عشق کی واضح مثا ل ہے۔ گل خان نصیر نے بلو چی عشقیہ شا عر ی کے تر اجم پیش کر کے واضح کیا کہ عشق میں جب تک مزاحمت نہ ہو محبو بہ کا احترام با قی نہیں رہتا ۔اس لئے شہ مریدنے پراگندہ ما حو ل سے دور جا کرہا نی کے فراق میں 55نظمیں کہیں ۔بلو چ سا ئیکی کو سمجھنے کےلئے سب سے پہلے اس کے عشق کو سمجھنا ہو گا ۔جو محبت ،اپنائیت ،انسا نیت ،شجاعت اور عقیدت کے ذیلی عنوانات سے مکمل ہو تا ہے ۔گل خان نصیر نے منفی اقدار کے حو الے سے تنبیہ کر تے ہو ئے کہا کہ:
تعمیر جہا ں نو کےلئے یہ نقش کہن بر با د کر و
آمو زش آدم نو کےلئے ایک تا زہ جہا ں آباد کرو
بو سیدہ شکستہ قدروں کو پا ما ل کرو بر با د کرو
ایک تا زہ تصور لے کے اٹھو اور فکر و عمل آزاد کرو
یعنی امن کے بغیر کیسا تعلق ،کیسا عشق ایک بلو چی نظم کے چند اشعار ملا خط ہو ں ۔
کس قدر غم نا ک ہیں میر ے وطن کے روز و شب
ہر طر ف ہے لو ٹ کا با زار گرم
بھو ک سے افلاس سے بر سوں یہاں
ملتو ی رکھوں بھلا کب تک حصو ل حق و جنگ
یہ نہ سمجھو میرے دل میں جذبہ الفت نہیں
لیکن اندھے اور بہرے معا شروں میں جہا لت کے بد مست گھوڑوں کو سر پٹ دوڑانے کے سامنے اظہار کے ان وسیلوںکی کیا اہمیت اپنی سر زمین اور لو گو ں سے والہانہ محبت ،عشق کی وہ انتہا ہے جس کےلئے کہاگیا ہے ۔
قہر درویش بر جان درویش
ہم لو گ چا ئنا کی نقل ،جاپا ن کی عقل اور امر یکہ کے ردعمل کے متاثر یں میں شما ر ہو تے ہیں۔ ہم ڈیڑھ سو چینل دیکھنے کےلئے ریمورٹ تھماتے ہیں اور پھر ان سے با اخلا ق ر ہنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ہم روما ل لہرانے ،فلا ئنگ کیسنگ اور لڑکیوں کو گھروں سے بھگانے کو عشق کا نام دیتے ہیں ۔ہم ایک دوسروں کے گھروں ،سکولوں اور مسا جد پر دستی بموں سے حملوںکو جہاد کا نام دے کر اسلام سے محبت کا اظہار کر تے ہیں اور یہ بھو ل جا تے ہیں کہ حبیب جالب کی طر ح گل خان نصیر نے چیخ چیخ کر کہا تھا ۔
یہ جو ہیں اپنے ا میران وطن
یہ غلط کار مشران وطن
ان کو مسند سے ہٹا نے کےلئے
سا تھیوں عزم جواںلے کر اٹھو
یہ عشق نہیں تو کیا ہے ۔یہ عشقیہ شاعر ی نہیں تو کیا ہے۔ما وز ئے تنگ نے 1930ءمیں کہا تھا "اگر آپ کو ئی مسئلہ حل نہیں کر سکتے تو تھو ڑ ی دیر بیٹھ کر اس کے مو جو دہ حقا ئق اور اس کی گذشتہ تا ریخ کی تحقیق کر یں ۔جب آپ مسئلے کی مکمل چھا ن پھٹک کر لیں گے تو آپ کو اسے حل کر نے کا طر یقہ آجا ئے گا ۔آدمی تحقیق سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں نتا ئج پر پہنچتا ہے جبکہ ایک کند ذہین انسان بلاتحقیق کے بغیر کسی مسئلے کا حل کیسے تلاش کر سکتا ہے ۔
بر حا ل انہی کند ذہنوں کو گل خان نصیر سمجھا تا رہا ،بتاتا ۔رہا لیکن یہ با ت کسی کو سمجھ نہ آئی ۔ایک مر تبہ پھر گل خان نصیر کی با زیا ب کا سہا را لیا گیا ہے ۔گل خان نصیر نے عشق کا راستہ ان کی طر ح صا ف نہیں کیاجو قتل کے بعد نشانات دھو ڈالتے ہیں۔
گل خان نصیر نے نہ صرف مزاحمتی شا عر ی کی بلکہ اس نے عوامی شعور بلند کر نے کےلئے اپنے اشعار میں بے شمار مضا مین باندھے جو فلسفہ ،تا ریخ ،مذہب ،محبت ،جرات اور سچ پر مبنی ہیں ۔کیو نکہ وقت اور حالا ت کے تھپیڑ وں نے انہیں کسی خا ص مو ضو ع اور مضمون تک محدود نہیں رکھا اور یہ نہ صرف ان کے سا تھ ہو ا اس خطے کے اکثر بڑے شعرا ءو ادباءکا یہ المیہ رہا کہ وہ منفی عنا صر کے چنگل سے اپنے عوام کو آ زاد کر نے کےلئے عشق کا دامن ایسے پکڑے رکھا کہ زندگی بھر خود سے بیگا نہ رہے۔ ایسے ہی مقدر کا نام عشق ہے اور ایسا عشق گل خان نصیر جیسی شخصیا ت کو ہی نصیب ہو تا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے