دنیا میںایسی کم مثالیں ملتی ہیںجہاں لوگ اپنی زندگی کو ایک نظریہ کے لیے وقف کر دیں اور اپنی انفرادی زندگی کو اجتماعی زندگی کے لیے قربان کردیں۔ جب بھی کسی قوم پر استحصالی نظام مرتب ہوا ہے تو ایسے مزن مرد قوموں سے نکلے ہیں۔جو استحصالی نظام کے خلاف کھڑے ہوئے اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے۔
جب برطانیہ کی استحصالی نظام کم و بیش پورے دنیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ تو اس نظام کے خلاف کھڑے ہونے والا ایک نوجوان جو ایک قدیم ثقافت سے تعلق رکھنے والا کامریڈ سوبھو تھا۔ کامریڈ کا پورا نام سوبھو گیانی چندانی تھا۔وہ اس زمانے کی پیداوار ہے جب پوری دنیا استحصالی نظام سے گزر رہی تھی۔اسی دوران سوبھوکے جائے پیدائش تعلیمی پسماندگی کا شکار تھا۔ تو کامریڈ کے انٹر پاس ہونے کے بعد ایک درسگاہ میں تعلم حاصل کرنے کی خواہش کی جو تاریخ میں ہر وقت اچھے لفظوں سے لکھا جاتا ہے۔جی ہاں نشانتی نگیں یہ درسگاہ عظیم ہستی ٹیگور کی تھی۔
سوبھو ہمیشہ روایتی چیزوں کے یکسر حق میں نہیں تھا ۔جب داخلے کے لیے ٹیسٹ کی باری آئی تو کامریڈ نے روایتی ٹیسٹ دینے سے انکار کیا ۔لیکن بعد میں ان کو ٹیگور کی درسگاہ میں داخلے کا موقع ملا۔جہاں سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ رخصتی کے وقت جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کیا سیکھا ہے۔ تو جواب ملا کہ ”میں بچے کے طور پر یہاں آیا تھا اب انسان بن کے جارہا ہو“
پہلے بھی زیر بحث آیا کہ کم لوگ نظریہ کو لے کر پوری عمر جہد مسلسل میں مصروف ہوتے ہیں ۔ کامریڈ کمیونزم ماننے والوں میں سے تھا ۔ وہ معاشرے میں برابری چاہتے تھے اور مقصد کے حصول کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۲ سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت کی۔سوبھو نے ہر وقت مظلوم اور استحصالی قوموں کے لیے آواز بلند کیااور اسی تناظر میں کئی مرتبہ جیلوں میں گئے ۔دوران جیل انہوں نے کئی با آثر شخصیات جن میں بلوچ قوم لیڈر بابو نوروز شامل تھیں ملاقاتیں کیں۔
کامریڈ ایک ایسے معاشرے کی تکمیل کے لیے جہد مسلسل میں تھے جس معاشرے میں سب افراد کو برابری ملے۔ کامریڈ نے اپنی جہد مسلسل کی آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا۔ وہ مانہ طالب علمی میں سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے۔کامریڈ پہلی مرتبہ برصغیر کے ٹوٹنے سے پہلے 1946 میں جیل ہوئے۔ جب رہائی ملی تو اپنے نظریہ کو مضبوط کرنے کے لیے وہ عملی طور پر لوگوں کے درمیان جانے لگے اور کسان و مزدور طبقے کی تربیت شروع کردی۔
سندھ میں حقیقی معنوں میں سیاسی تحریک کا آغاز کرنے والوں میں سوبھو کا نام بھی سرفہرست ہے ۔کامریڈ نے وڈیروں اور سردارں کے خلاف عملی کام میں ہر وقت نمایاں حصہ لیا اور حقیقی معنوں میں ایک سیاسی تحریک چلائی جو کمیونسٹ نظریہ کے حق اور استحصالی نظام کے خلاف تھا۔
کامریڈ سوبھو کو1965 کی جنگ میں بھی جیل بھیجا گیااور وہ 1966 میںرہا ہوگئے۔بھٹو دور میں بھی ان کی گرفتاری کی وارنٹ جاری ہوئے تو میر غوث بخش بزنجو کی مدد سے وہ گرفتار نہ کئے جاسکے۔
کامریڈ نے تین مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا۔اپنی عوامی مقبولیت کے باوجود کامیاب نہ ہوسکے۔اس چیز کا جواب ہم کامریڈ کے اس جملے سے میں دیکھ سکتے ہیں۔جنہوں نے دوران انٹرویو کہے تھے۔”پاکستان اسٹیبلشمٹ کے لیے میں تین سر والا عفریت ہوں ۔ اول یہ کہ میں کمیونسٹ ہوں ،دوئم یہ کہ سندھی ہوں ،سوئم یہ کہ میںہندو ہوں“۔
کامریڈ آج ہمارے درمیان ہیں ۔ لیکن ان کا نظریہ ہر وقت ہماری رہنمائی کرے گااورجو معاشرہ کامریڈ تشکیل دینا چاہتے تھے اس کے لیے پھر سے عملی طور پر کام کرنا ہے۔
بقول عطاءشاد
منی راہے چیر گیجا منی واہگ نی شہجو
منا تبد چوں تپایاں منا لوار چو بنداں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے