نہروں میں وہی آب ِ خنک جاری کروں گا
دریا کی طرح دشت کی دل داری کروں گا
جو چاہے کسی قری گل پوش میں بس جائے
میں تو اسی صحرا کی نگہداری کروں گا
مٹی سے حلف خون میں رہتا ہے مری جان
پلٹوں گا تو اس عہد سے غداری کروں گا
جو مجھ میں ہے اس خواب میں رہنا نہیں آتا
کیا جانے کب آسان یہ دشواری کروں گا
دل آتش ِ خفتہ کا دفینہ ہے سو اک دن
چقماق سے روشن وہی چنگاری کروں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویریں بناو¿ں گا ، سخن کاری کروں گا
اے ہجر ترے وصل کی تیاری کروں گا
مصروف تو رہنا ہے جدائی میں کسی طور
بچھڑے ہوئے لوگوں کی عزا داری کروں گا
ٹوٹی ہوئی ٹہنی کے بھی سب زخم ہرے ہیں
اے عشق زدہ ، میں تری غم خواری کروں گا
اچھا تو یہی ہے کہ میں کچھ بھی نہ کہوں دوست
کرنی ہی پڑی بات تو پھر ساری کروں گا
کہہ دوں گا مجھے تم سے محبت ہی نہیں تھی
اک روز میں اپنی بھی دل آزاری کروں گا
سچ یہ ہے کہ پڑتا ہی نہیں چین کسی پل
گر صبر کروں گا تو اداکاری کروں گا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے