بلوچ وسیع و عریض رقبہ پر مشتمل قبل از مسیح کی تاریخ رکھنے والی عظیم مہرگڑھ کی تہذیب و تمدن کا وارث ، معدنی وسائل سے ما لا مال متنوع موسم اورموافق آب و ہوا کی حامل سرزمین کا مالک ہے۔ بلوچ کے قومی وسائل میں زیر زمین معدنیات کے بیش بہا ذخیرے کے علاوہ پاکستان میںجیوانی سے لیکر حبکو تک 771 کلومیٹر طویل پٹی پر محیط ساحل سمندر اور سمندرگہرے پانیوں پر مشتمل ہے جوقدیم و تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل کے معاشی حب کی حیثیت اور بقیہ دنیا کے لئے جیو پولیٹیکل اہمیت رکھتا ہے جودنیا کے دیوہیکل مال بردار، مسافر بردار اور بحری بیڑوں کی گزر گاہ اور عالمی تجارتی راہداری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تیل و گیس کے قیمتی وسیع ذخائر اور نایاب سمندری حیات کے بیش بہا خزانے کے ساتھ یہ ساحل سنٹرل ایشیئن ممالک ، چین، افغانستان اور گلف ممالک کے لئے بقیہ دنیا تک آسان ترین اور کم وقت میں طے ہونے والا گیٹ وے بھی جانا جاتاہے ۔

ساحل ِ بلوچ پر انسانی بود باش کے آثار Bronze دور (3600-1200 BC)سے ملتے ہیں۔ یہ دور انسانی تہذیب کا دوسرا دور ہے جو پتھر کے زمانے کے بعد آتا ہے۔سکندر اعظم نے دنیا فتح کرنے کے لئے ساحل مکران کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کیا۔محمد بن قاسم سندھ تک رسائی کے لئے ساحل بلوچ سے ہوتا ہوا گیا ۔ پرتگزیوں نے ساحل مکران کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اپنی باجگزاری میں لانا چاہا تاہم مقامی آبادی نے حمل جیئند جیسے بلوچ بیٹوں نے ہمیشہ مزاحمت کرکے دراندازوں کی قبضہ گیری کے خواب چکنا چور کئے اور اپنے ساحل کی حفاظت کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا ۔ ساحل بلوچ کا تقریبا 50 کلومیٹر کا رقبہ گوادر تحصیل کچھ عرصہ عمان کی عملداری میں رہا تاہم بعد میں 1958 کوحکومت پاکستان نے ساحل بِلوچ کو اسکی عالمی اہمیت کے پیش نظر واگزار کرالیا۔ بلوچوں کی عملداری میں ساحلی پٹی پر آباد گواد،ر جیوانی پسنی، اورماڑہ اور سونمیانی اٹھارویں صدی میں ترقی یافتہ پورٹ سنٹرکے طور پر ابھرے اور عالمی تجارتی روٹس اور منڈی کی شکل ا ختیارکرگئے ۔ انڈیا، ایران، زنجبار، صومالیہ، عمان اور دیگر خلیجی ممالک بقیہ دنیا تک رسائی کے لئے مزکورہ پورٹس کو زیر استعمال لاتے تھے اور اجناس کے تبادلے سے اپنی معیشت چلاتے تھے۔ گرم پانیوں تک رسائی عالمی قوتوں کی دیرینہ خواہش اگر رہی ہے تو رسائی کا واحد راستہ ساحل ِ بلوچستان ہی ہے۔ بلوچ قوم ساحل بلوچستان کو نہ صرف اسکی تاریخی، ثقافتی اور تجارتی پس منظر میں دیکھتا ہے بلکہ ساحل کو اپنی شناخت اور اگلے نسلوں کی امانت گردانتا ہے۔ یہ ساحلِ اور سمندر بلوچوں کی بقا ءکی ضامن ہے اور اس کی سانسوں سے جڑی ہوئی ہے۔ بلوچ اپنے ساحل کے ایک ایک ذرے سے بہت انسیت رکھتے ہیں۔ اسکی آب و ہوا ان کو دل و جان سے مرغوب ہے۔ اس کے ریگستان اور ان سے جڑے پہاڑی سلسلوں سے بلوچ کو گوں ناگوں محبت ہے۔ ، ساحل کی نیلگوں گہرے پانیوں کو دیکھنا اور اس میں زندگی ( رزق) تلاش کرنا انکی ضرورت نہیں شوق بھی ہے۔ اپنے ساحل کے پرآشوب لہریں انہیں ماں کی لوریوں کی مانند شقفت، پیار اور سکون دیتی ہیں۔

اس وقت پاکستان کا ساحل کل 1100کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے جو جیوانی سے شروع ہوکر کیٹی بندر تک ختم ہو جاتا ہے ۔ مذکورہ 1100 کلومیٹر میں 771 کلومیٹر کا حصہ بلوچستا ن میں ہے جبکہ 329 کلومیٹر سندھ میں واقع ہے۔ جبکہ مروجہ معاہدات کے مطابق اس وقت پاکستان کی سمندری حدود ساحل سے لیکر continental shelfیعنی گہرے پانیوں میں 200 ناٹیکل میل تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کو اپنے گہرے پانیوں میںسمندری حدود کو وسعت دینے کا ایک سنہرا موقع 2009 میں اس وقت ملا جب اس نے عالمی سطح پر سمندری حدود میں وسعت کے لئے اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ ادارےUnited Nations Commission on the Limit of Continental Shelf (UNCLOS) کو درخواست جمع کی جس میں پاکستان سمیت29 ممالک نے اپنے continental shlefکو مذید150 ناٹیکل میل گہرے پانیوں میں آگے بڑھانے کے خواہش کا اظہار کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ توسیع کے لئے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی (MoST) کے ذیلی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی(NIO) کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی جس نے حکومت پاکستان کی جانب سے درخواست متعلقہ عالمی ادارے کو جمع کی تھی۔
مزکورہ توسیع سے پاکستان کی سمندری حدود مذید 50000 اسکوائر کلومیٹر تک وسعت پائے گا جو کہ موجودہ 200 ناٹیکل میل سے بڑھ کر کل 350 ناٹیکل میل ہوگا ۔ اس متوقع توسیع سے پاکستان بیش بہا سمندری خزینے کا مالک بن جائے گا جس میں airspace سمیت جاندار ( مختلف اقسام کی مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات) اور بے جان قیمتی وسائل( تیل، گیس اور کوئلہ، سمندری نمک وغیرہ) شامل ہیں۔ یہ توسیع غیر دریافت شدہ قیمتی سمندری وسائل تک رسائی دینے میں انتہائی معاون ثابت ہو گا۔ ساتھ ہی سائنسی تحقیق ، متبادل توانائی کے ذرائع کی تلاش ، حربی مشقوں اور تجربات کے لئے درکار وسیع سمندری رقبے کی دستیابی بھی ممکن ہوگی جو اس اس میدان میں اگلے وقتوں میں عظیم کامیابیوں کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
بحیرہ عرب جو قدیم دستاویزات میں بحرِ بلوچ کے نام سے جانا جاتا تھا کی سرحدیں شمال میں پاکستان اور ایران ، جنوب میںصومالیہ، مشرق میںانڈیا اور مغرب میں عربیئن پنسولیا سے جا ملتی ہیںجبکہ شمال میں اسکے کناروں پر پاکستان کے مشہور بندرگاہیں گوادر ڈیپ سی پورٹ ،کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم واقع ہیں کے علاوہ قدیم ساحلی شہر ، پسنی، جیوانی، گڈانی، اورماڑہ وغیرہ لگتے ہیں ۔ بحیرہ عرب کی سمندری سرحدیں ایک جانب خلیج ِ فارس اور دوسری جانب بحیرہ ہند سے جا ملتی ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق1,491,130 اسکوئر میٹر پر محیط بحیرہ عرب 2400 کلومیٹر لمبا جبکہ اسکی گہرائی تقریبا 4,652میٹرز یعنی (15,262 ft)ہے مزے کی بات یہ ہے کہ مزکورہ پیمائش کی رو سے بحیرہ عرب کے حدود میں پاکستانی سمندری حدود کا 1100 کلومیٹر ساحل بمعہ 350 ناٹیکل میل کا گہرے پانیوں تک کا علاقہ بھی شامل ہے ،یوں کہا جاسکتا ہے کہ بحیرہ عرب جو 2400 کلومیٹر طویل ہے میں سے کل 1100 کلومیٹر ( تقریبا نصف)کا رقبہ پاکستانی سمندری علاقہ ہے جو ہماری بے حسی کے باعث دوسروں کے نام سے منسوب ہوگیا ہے۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ پاکستانی ساحل اور سمندری حدود اسکے اپنے قدیم باشندوںیعنی بلوچ جو ساحلِ سمندر پر قبل از ظہور اسلام آباد ہیں سے منسوب ہوتا مگر بدقسمتی سے اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا مناسب رہے گا ہے کہ ایران نے اپنی سمندری حدود کو قدیم زمانے سے خلیج ِ فارس کے طور پراپنے نام منسوب کرالیا تھا ، اسی طرح بھارت نے بھی بحرِ ہند کی لکیر کھینچ کر اپنے حدود متعین کرکے اس کو اپنے نام سے جوڑ دیا مگر ہمارے ہاں اس موضوع پر عملی کام تو ایک طرف اب تک کسی کو چار لفظ کہنے کی توفیق تک نہیں ہوئی ہے۔ جہاں ہم ایک انچ زمین بھی کسی کے نام پر منسوب کرنے کو تیار نہیں ہوتے وہیں انتہائی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کا 350ناٹیکل میل کا سمندری رقبہ دانستہ عربوں کے نام سے منسوب کردی گئی ہے جو کہ پاکستان اور بلوچ قوم کے ساتھ عالمی سطح کی ایک سنگین زیادتی ہے۔ جہاں تک عالمی سمندری سرحدوں اور گہرے پانیوں کا تعلق ہے تو پاکستان اور بلوچ قوم اس کا احترام کرتے ہوئے وہاں بقیہ اقوام کے حق کو کلیتاً تسلیم کرتی ہےں مگر اپنا سمندری حدود اپنے نام درج کرنے ، لکھنے اور پکارنے کا قومی حق بھی رکھتی ہیں۔
اس سلسلے میںحکومت پاکستان کو چائیے کہ اپنی سمندری حدود کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی قوانین کے مطابق 350 ناٹیکل میل تک سمندر اور ساحل کو بحرِ بلوچ declare کروانے کےلئے سفارت کاری کرے۔ معزز بلوچستان اسمبلی کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس سنگین تاریخی غلطی کی درستگی اور بلوچ عوام کو اسکا تاریخی حق دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے جس کے لئے معزز ایوان متفقہ طور پر پاکستانی سمندری حدود کو ساحل بلوچ یا بحرِ بلوچ رکھنے کی قرارداد کی منظوری دےکر وفاق سے اس کی توثیق کی درخواست کرے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے