سچ او ڈھ لو
کپکپاتے ننھے پرندے نکل گئے
آشیانے سے
صُبح کی آنکھ پر
تمیں خبر ہے؟
آنکھ کی پنگھڑی تمھارے شہر پہ کھل گئی
اب ایک کتاب لکھا جائے گا
اگلے کچھ دنوں کی
یہ ہلچل کیوں مچی ہے؟
چاند سورج کو چوم رہا ہے
اس سورج کو جو تاریک پگڈنڈیوں پر بھاگتا رہا
محبت پرندے کی پرواز ضرور رکھتی ہے
پر
صدیاں لگ جاتی ہیں اُسے بے ساکھی کا آشیانہ پانے میں
یہ آئینہ پکار رہاہے تمیں
روپ صیاد کے ساگر پہ جھوم رہا ہے
اُسے نکال کر نچوڑ دے
وقت کا دھارا اب تمھارے ہاتھ میں آگیا
غم سوگ جلادو
آس کی ند ی بھر گئی ، ناری کی جگ مگ کر کے
جیون کو سینگار دو
رات کے کا جل سے
چاند سانولی گوری کو گھور رہا ہے
اپنی رنگت سمجھ کر
مٹی کے سپنوں میں تمھاری تصویر چھپی ہے
اچھا موسم ہے ، پھول کھلے ہیں
سوچ کا آوارہ بادل بوندیں برسائے جارہا ہے
پیا س تو بجھ گئی
آج چاند کے منڈ یر پر
اب تو بینائی بھی لوٹ آئی تری
وصل کے سمندر میں
تھکن کے مراحل تم پار کر چکے ہو
قوس قزح کی تصویر کا نیا رخ
اب سات ستاروں میں افشا ہے
تدبیر
حسین روپ دھار چکا ہے
ساحل کی گیلی ریت پر نام لکھنا چھوڑ
لوگ تو بھیڑئیے بن گئے
اسے قتل کیسے کرو گے؟
یہ اک کہانی ہے
جو کبھی ختم نہیں ہوگی
تم اپنا بے جان سا گھروندہ کیسے ٹھونک دوگے
بے رنگ تیروں میں
تمھیں کیسی فکرہے؟
نر مل امید یں جھونک رہے ہیں ترے سرہانے
اٹھو
ان کو اپنا نیا سویرا دے دو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے