اللہ نے انسان کو اشراف المخلوقات پیدا کیا ہے تمام انسان آد م اور حوا کی اولاد ہے یہ دنیا انسان ہی کے لیے مسخر کیا گیا ہے اور انھیں آزادی ہے کہ ا پنی با مقصد زندگی گزارے لیکن سوا ل یہ ہے کہ آیاانسان صرف مرد ہی ہے ؟ کیا عورت انسان نہیں ہے ؟ معاشرے میں عورت کو کیوں نفرت کی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے اور والدین کیوں اپنی بیٹوں کو کمتر سمجھتے ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو اللہ نے بیٹوں کے سا تھ ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دینے کا حکم دیا ہے لیکن بارکھان میں بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے اگر عورت بیٹی ہو تو رحمت اگر ماں ہے تو اس کے پاﺅں تلے جنت اگر بیوی ہے تو بہترین ساتھی ہے لیکن آخر وجہ کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیٹی کو اولاد ہی نہیں سمجھا جارہا اور ایسے وراثت میں حصہ دینے کی بجائے تو ایسے فروخت کیا جارہا ہے ولور کے نام پر لاکھوں روپے لیا جارہا ہے کیا دس لاکھ سے پندرہ لاکھ ولور لینا جائیز ہے کیا یہ لڑکی فروخت نہیں ہے تو کیا ہے کیا بیٹی کے حقوق نہیں ہیں آخر کب تک ہم اس حالت تک ہم اس حالت میں رہیں گے اور اپنی بیٹیوں کو فروخت کرتے رہیں گے اور لڑکیوں کی زندگیوں کو برباد کرتے رہیں گے ۔میری فریاد ہے کہ گھر میں پچپن سے ہی مجھے نظر انداز کیا گیا ہے میرے تعلیم کے دروازے مجھ پر بند کئے گئے ہے مجھے گھر کی چاردیوری میں بند کر کے گھریلو ملازم بنا یاگیا ہے مجھ سے گھر کے تمام تر کالیئے گئے ہے والدین اور بھائیوں کی ہر بات کو برداشت کرنا پڑتا ہے پھر بھی مجھے ولور کے نام پر بیجا گیا کیا یہ ناانصافی نہیں ہے ۔اگر علاقے میں ایک ریشتہ پسند سے ہوتا ہے تو اس پر بارہ یا پندرہ لاکھ لیا جاتا ہے ولور لینے والا یہ نہیں سوچتا کہ ولور لے رہا ہے یا اپنی بیٹی کو بیج رہا ہے ۔اگر کوئی رشتہ خاندانوں کی مرضی پر ہورہا ہوتو اس پر بھی آٹھ یا دس لاکھ کا ولور کالیاجاتاہے ولور لینے والا باپ یہ نہیں سوچتا کے اس کی بیٹی کی زندگی وہاں کیسی گزرے گی اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا ۔کچھ ایسے رشتے جو پچپن میں طے کیے جاتے ہیں تو یہ بعد میں بڑے مسلے کرتے ہیں لڑکا یا لڑکی رشتے کے خلاف ہوجاتے تو یہ دو خاندانوں کے درمیان تضاد پیدا ہوجاتاہے یہ تضاد ایک المناک صورت ختیار کر لیتا ہے اس مسلے کو حل کرنے کیلئے سردار کا سہارہ لیتے ہے لیکن سردار بھی اس سے قدیمی روایت کہہ کر لڑکی کے گھر والوں کو کہتا ہے یہ ریشتہ توڑنا ناممکن ہے اس زبردستی کے فیصلے پر لڑکی راضی نہیں ہوتی جس سے خاندان اور علاقے پر برے اثرات مر تب ہوتے ہیں اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود لوگ نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہماری برے روایات اور رسم رواج ہی کی وجہ سے ہے اور ہم کب تک اس ظالمانہ رسم رواج کوجاری رکھیں گے ،اور قبائیلت اور کلچر کے نام پراپنی بہنوں بیٹیوں پر ظلم کرتے رہیںگے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے