بخدمت جناب ایڈیٹر ”سنگت “
قیام پاکستان سے ہماری عسکری اورسول قیادت کے اداروں میں بنیاد پرست لابی مضبوط رہی۔ اسی لیے اس کا جھکاﺅ امریکی سامراج کی طرف رہا۔ اور یہاں بنیاد پرست قوتوں کو ریاست کے ہر شعبہ میں پروموٹ کیا گیا ۔1968-69 میں جب اس ملک میں عوامی ابھار آیا تو 1970 کے انتخابات میں عوام نے بنیاد پرست ملاﺅں کو ملیا میٹ کردیا۔ لیکن بھٹو نے جمعہ کی چھٹی اور قادیانیوں کے خلاف پارلیمنٹ سے قانون پاس کروایا تو اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ۔یہ بھٹو کی طرف سے اس قوم پر ایک بنیاد پرست ریاست مسلط کرنے کا آغاز تھا ۔ 5جولائی1977 ایک بنیاد پرست آمر ضیا الحق نے امریکی سامراج کی شہ پر شب خون مارا تو پھر اس بے لگام گھوڑے نے ترقی کا سفر اس تیزی سے کیا کہ نظام ِ تعلیم سمیت تمام اداروں میں بنیاد پرست لابی چھا گئی اور یہ ملک ایک بنیاد پرست ریاست کے طور پر سامنے آیا ۔پرنٹ الیکٹرانک کے اداروں میں یہ لوگ چھا گئے جس کے خلاف منہاج برنا اور اس کے ساتھیوں نے ایک شاندار جدوجہد کی جس پر صحافیوں کوڑے مارے گئے۔ اُسی وقت جن صحافیوں نے ضیاءکو کہاتھا کہ ان کو کوڑے مارو، آج کل وہی لوگ آزاد میڈیا کے ہیرو بنے ہیں۔ نصاب سازی کے شعبہ سے اہل علم دانشوروں کا صفایا کردیا گیا ۔ قوم کے بچوں کے لےے بنیاد پرستانہ فرقہ وارانہ تعصبات پر مبنی نصاب ترتیب دیا گیا۔ اسی کی دہائی ہیں امریکی سامراج نے پوری دنیا سے بنیاد پرست لوگوں کو لا کر پاکستان میں پناہ دی جس کو ہمارے عسکری اداروں نے تربیت دی اور ڈالروں کی برسات کا آغاز ہوا جس میں جرنیلوں بیوروکریسی اور میڈیا نے خوب ہاتھ رنگے ۔ پورے ملک میں بنیاد پرست مدارس کی بھرمار ہوئی ۔ نام نہادروشن خیال جرنیل پرویز مشرف کے دور میں روشن خیالی کی چھتری تلے بنیاد پرستی کو فروغ دیا گیا۔ ہمارے میڈیا نے دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
ہمارے تعلیم کے شعبہ میں ایک خاص مسلک کے اساتذہ کو ضیا دور میں بھرتی کیا گیا تھا جس کی وجہ سے آج پورا ملک اس کی گرفت میں ہے ۔ عدلیہ ریاستی ادارے کھیل سائنس دان سمیت ہر شعبہ میں یہ پھیل چکے ہیں۔جی ایچ کیو سمیت حساس اداروں میں بھی یہ داخل ہوچکے ہیں۔
ضیاءآمر کی باقیات کا خاتمہ ضروری ہے ۔ نصاب سے فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جائے جو بھی عناصر اپنے مسلک کو دوسرے پر مسلط کرے اس کو پھانسی سے کم سزائیں نہیں ہونی چاہےے ۔ بنیاد پرستی کے خاتمہ میں میڈیا کو استعمال کیا جائے۔ آج تک تقریباً60ہزار افراد اس دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم طلباءاساتذہ سمیت150 کے قریب شہید ہوئے۔ یہ ملک ایک بنیاد پرست ریاستہ ہوچکا ہے ۔ اس کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے اس میں تاخیر بہت بڑا گناہ ہوگا ۔ ماضی میں مذاکرات کے نام پر ان دہشت گردوں کو مضبوط ہونے کا موقع دیا گیا جس کا نتیجہ قوم کے سامنے ہے۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو الگ الگ کیا جائے جو مذہب میں رہنا چاہتی ہے وہ جمہوری سیاست سے الگ ہوجائے ۔ اس کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ملک کی تمام مساجد کو ریاستی تحویل میں لے کر امام سرکاری ہونا چاہےے۔ نصاب تعلیم میں سماجی سائنس کا مضمون شامل کیا جائے تاکہ نوجوان نسل انتہا پسندانہ نظریات سے چھٹکارا پاسکے۔

محمد بشیر صنوبر
فیصل آباد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم شاہ محمد مری
اسلام علیکم
برا ہو غارت گری اور دہشت گردی کا اور بُرا ہو اس بے منصفی بے توقیری او ر بے تعلقی کا۔ ہم قوموں کی صف میںمسلسل پیچھے کی طرف ہٹ رہے ہےں عرصہ ہوا ” سنگت“ نظر نواز نہیں ہوا یقینا ڈا ک کے ڈاکوﺅں کی نذر ہوگیا ہوگا صبر اور حوصلے سے اچھی روایات نبھاتے رہنا بڑے لوگوں کا وطیرہ رہا ہے سُو کرتے جائیے ۔میری طرف سے سرور جاوید، افضل مراد، آغا ناصر ، شیدا زہدی، محسن شکیل، بیرم غوری، شرافت عباس، آغا گل و دیگر احباب کو آداب۔
مخلص
کرامت بخاری
لاہور

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے