مرد ہو یا کہ زن
زندگی ایک بار
سب کے حصے میں ہے
درد اور چین کی
یوں تو اب ہر گھڑی
سب کے قصے میں ہے
وقت ہے قصہ گو
وقت رکتا نہیں
آدمی آج بھی
گردشِ وقت میں
اپنی تاریخ میں
ہے الجھتا ہوا
خواب ب±نتا ہوا
اپنے آغاز سے
تا بہ انجام یہ
نصف دو نیم ہے
آدمی آج بھی
سوچتا
سوچتا
خود سے پوچھتا ہے
کہ ایک صفحہ جلا یا
کہ ایسا ہے کہ
آتش فکر سے
نصف دو نیم کی ساری تاریخ کا
پورا صحیفہ جلا؟
ایک ایسے دور میں
ہم کہ مجبور ہیں
زن ہو تم یاکہ مردجو بھی ہو
آگہی روگ ہے
اپنے ہونے کا جب بھی احساس ہو
کہ، زمان و مکاں سے پرے
سوچنے کا فائدہ؟
اردگرد کتنے ہی
مسئلے
پیچ در پیچ
پیچیدہ رہے
کوئی کیونکر بھلا
نانِ شبینہ سے ورا
ضرورت سے سوا
سوچے گا کہ
آج عورت بھی کہیں
زندہ رہنے کو یہ
سانس لیتی بھی ہے۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے