ڈھولے گاتے ہوئے اونٹوں پہ سوار آتے ہیں
چاندنی رات کے رومان پہ چھا جاتے ہیں
ان کے ذہنوں سے چھلکتی ہوئی تعبیروں کو
چوم لینے کے لےے مصر سے خواب آتے ہیں
ان کے ہونٹوں پہ مچلتی ہے فصاحت کی پُھوار
بات کرتے ہیں تو یہ پھول سے برساتے ہیں
مست شہتوتوں کی چھاﺅں تلے چُوری کھا کر
چھاچھ پیتے ہیں، مزے لیتے ہیں، اِتراتے ہیں
چُلبُلے کندھوں پہ ململ کے ” دوپٹے“ ڈالے
حُقّے ہاتھوں میں لےے گاﺅں میں لہراتے ہیں
ڈھول کی تال پہ سمی کے ترانے گا کر
لاڈلے ناچتے ہیں ، مورسے بن جاتے ہیں
پِڑکبڈی کو لگا دیتے ہیں سُرخاب کے پَر
جیت لیتے ہیں تو کیا ناز سے اٹھلاتے ہیں
یہ سجل خان اندھیرے میں نکل جائیں تو
وقت کی نبضوں میں رومان مچل جاتے ہیں
ڈالتے ہیں یہ ستاروں پہ کمندیں اکثر
مہرومہ ان کے ارادوں کی قسم کھاتے ہیں
آنکھ سے آنکھ لڑانا انہیں مرغوب نہیں
یہ وہ گھبروہیں کہ جو موت سے لڑ جاتے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے