بدن پتھر کے یکسر ہوگئے ہیں
اندھیرے، آئینہ گر ہوگئے ہیں!

پلک جھپکی اندھیروںمیں جنہوں نے
گذشتہ میں تصور ہوگئے ہیں

نظر بدلی تو اک دم اجنبی سے
کئی مانوس منظر ہوگئے ہیں

ٹھٹھرتی ساعتوں میں سر کشیدہ
کئی شعلے مسخر ہوگئے ہیں

تمہاری گفتگو سے آج میرے
بہت سے غم م¶خر ہوگئے ہیں

بہت خاموش رہنے کے سبب ہم
صداﺅں کا سمندر ہوگئے ہیں

سوادِ روم کے وحشی اکھاڑے
ہمارے حشر اکثرہوگئے ہیں

سرِ صحرا، صبا کے سرد جھونکے
تماشا ہے کہ صر صر ہوگئے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے