بحرِ بلوچ کے کنارے پرآباد گوادر اور لسبیلہ اضلاع کے غریب ماہی گیروں کا ایک اہم مسئلہ حکومتی سطح پر ان کو محنت کش کے طور پور تسلیم نہ کرنا ہے جس کے باعث ایک ماہی گیراُن تمام حکومتی منظور کردہ حقوق سے محروم چلا آرہا ہے جو صنعت میں کام کرنے والے کسی مزدور کو حاصل ہیں۔ جس طرح فیکٹری میں کام کرنے والا مزدور بہت سے خطرات سامنا کرتا ہے اسی طرح ایک ماہیگیر نہ صرف سخت جانی سے محنت کرتا ہے اورسمندر کی بے رحم اور بپھری ہوئی موجوںسے مقابلہ کرکے اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی رزق حلال کمانے کے لئے روزانہ اپنی زندگی داﺅ پر لگاتا ہے۔ لیکن 65 سالوں پر محیط عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی حالت زار بدلنے کے لئے ان کو کسی حکومت اور عوامی نمائندہ نے سماجی تحفظ کی سہولت فراہم نہیں کیا ۔ پالیسی ساز اداروںکی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیر وں کو سوشل سیکورٹی کے تحت رجسٹرڈ کرکے انکو وہ حقوق دیتا جو ایک محنت کش کے لئے مختص کی گئی ہیں لیکن اشرافیہ کو غریب ما ہی گیروں سے متعلق کبھی عوام دوست پالیسی بنانے کا خیال اس لئے نہیں آیا کہ ماہی گیروں کی اکثریت بلوچستان کے 750طویل ساحلی پٹی پرآباد غریب بلوچوں سے ہے۔ مروجہ لیبر پالیسی کے مطابق مزدور کو بہت سے حقوق حاصل ہیں جس میں مزدورکی حادثاتی موت کی صورت میں ڈیتھ گرانٹ(death grant)، بچیوں کی شادی کے لئے میرج گرانٹ ،علاج معالجے کے لئے ہسپتالوں اورتعلیم و تربیت کی خاطر اسکولز کا قیام ، پینے کے پانی کی فراہمی ، بچوں کے تعلیم کے لئے اسکالر شپ کی فراہمی، رہائش کے لئے کالونیوں کی تعمیر، مزدورں کے بچوں کو ہنر سکھانے کے مراکز کا قیام اور ان کو پائیدار اور محفوظ شکار کے لئے ضروری آلات و مشینری کی فراہمی شامل ہیں ۔ مزکورہ بالا تمام سہولیات سے اس وقت صرف فیکٹریوں میں کام کرنے والا مزدور جن کی اکثریت غیر مقامی یعنی دوسرے صوبوں سے ہے مکمل طور پر مستفید ہورہی ہے لیکن لسبیلہ اور گوادر کی گہرے سمندر میں آئے روز حادثوں و طوفانوں کا شکار ہونے والے ماہیگیروں کو حکومت کی جانب سے کوئی گرانٹ و حقوق نہیں ملتے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ گوادر کے ایک عام برف ساز فیکٹری میں کام کرنے والا سواتی، گلگتی و پشاوری شخص تو مزدور کہلاتا ہے مگر ایک محنت کش ماہی گیر کو مزدور تسلیم نہیں کیا جاتا اور اسے تمام مراعات و سہولیات اور حقوق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ ماہی گیروں کاسرکاری سطح پر بطور صنعت شامل نہ کرنا اور باقاعدہ رجسٹریشن کی عدم موجودگی ان کے لئے سرکاری مراعات کے دروازے بند کرنے کا موجب ہے۔ مرکزی حکومت کے مالی معاونت سے گوادر میں سربندِن کے مقام پر لیبر کالونی تعمیر کی گئی ہے مگر کالونی میں مکانات کی الاٹمنٹ کے لئے ماہی گیر اہل نہیں ہے کیونکہ اسے مزدور کی حیثیت حاصل نہیں جبکہ دوسری جانب حب کے صنعتوں میں غیر مقامی مزدور حکومت بلوچستان کی فراہم کی گئی تمام سہولیات سے مستفید ہورہی ہیں ۔ بدقسمتی سے ماہی گیروں کو لیبر نیٹ میں شامل کرنے کے لئے کسی بھی بلوچستان کی کسی بھی حکومت نے عملی کام نہیںکیا جس کے باعث ماہی گیر اپنے صوبے کے وسائل سے استفادہ نہیں کرسکے۔ اس وقت صوبائی حکومت کے پاس کارڈ لسبیلہ کی مرتب کی گئی پالیسی کی کاپی جمع ہے جس میں دیگر سفارشات کے ساتھ ماہی گیر کو مزدور کی حیثیت دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے،لہذٰا یوم مزدور کے مناسب موقع پر اسے منظور کیا جائے اور شعبہ ماہی گیری کو ترقی دیگر ماہی گیروں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جائے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے