گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی جب گندم کے کھیت کٹائی کے لیے تیار ہوئے تو بازیگروں کے وہ ہی دس بارہ گھرانے قبرستان کے قریب واقع ایری گیشن محکمے کے پرانے مسمار کوارٹروں میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ جہاں ہر سال یہ پابندی سے آتے تھے۔ ریلوے کے مشرق کی جانب والا یہ علاقہ اب ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی ویران رہتا تھا اور وہاں اب قسمت سے ہی کوئی ریل گاڑی کسی خرابی کے باعث روک دی جاتی ورنہ اس اجاڑ ویرانے سے لوگ دن کی روشنی میں بھی گذرنے سے کتراتے تھے۔ انگریز سرکار کے زمانے میں بنے ہوئے یہ ایری گیشن کوارٹر اب کھنڈروں جیسے نظر آتے جس کے پہلو میں یہ بازیگر آکر جب اپنے جھونپڑے کھڑے کرتے تو ایسا لگنے لگتا جیسے ویرانے میں بہار آگئی ہو۔ دھرتی پہ سورج کی پہلی کرن پڑنے سے بھی قبل بازیگر مرد گندم کی کٹائی کے کام پر کھیتوں کو نکل جایا کرتے تو پیچھے سے ان کی عورتیں بھی گھر کا کام نپٹاکر اپنے دودھ پیتے شیر خوار بچوں کو چھاتیوں سے لگائے گدھوں پر پانی کے مٹکے اور دوسرا سامان لاد کر مردوں کا ہاتھ بٹانے کھیتوں پہ پہنچ جایا کرتیں پھر سورج غروب ہونے سے قبل یہ سب ایک قافلے کی شکل میں تھکے ہارے ایسے واپس لوٹنے لگتے جیسے کوئی مسافر طویل مسافت طے کرکے کسی مقام پہ پہنچ جائے جن کا گذر بسر کا وسیلہ گندم کٹائی کی اجرت پہ مامور تھا۔
بازیگروں کے جھونپڑوں میں چند بیمار اور بےکار بوڑھوں کے ساتھ اکثریت ان بچوں کی رہ جاتی تھی جو اپنے کمزور وجود کے ساتھ آدھی ننگی حالت میں پورا دن قبروں پہ چھلانگیں لگاتے اور درختوں میں بندھی رسیوں پہ بندروں کی طرح اچھل کود کرتے بات بات پہ آپس میں جانوروں کی طرح لڑتے جھگڑتے کھیلتے رہتے۔ ان بچوں کے لیے وہ دن عید جیسا ہوا کرتا جب کسی کی میت دفنانے کے لیے وہاں لائی جاتی۔ اور آج بھی ایسا ہی خوش قسمت دن آیا تھا جب دور سے آتے ہوئے جنازے کو دیکھ کر سب بچے اک کونے کی جانب کھڑے ہوگئے تھے کیوں کہ کچھ ہی دیر میں سب کو پتاشے ملنے والے تھے۔ جب میت دفن کرکے آخری دعا کے لیے سب ہاتھ اٹھانے لگے تو بچوں میں ہلچل سی مچی ۔جن کی آنکھیں پتاشوں پہ ایسے موندھ گئیں تھیں جیسے فضا سے زمین پہ موجود اپنا شکار دیکھ کر باز کی آنکھی موندھ جایا کرتی ہیں۔ مچے ہوئے شور میں سارے بازیگر بچے ایک دوسرے کو دھکیلتے آگے بڑھنے لگے پھر سب کے سب ہنستے ہنساتے مُنہ میں پتاشے چباتے اپنے اپنے جھونپڑوں کو لوٹنے لگے تھے۔ یہ بازیگروں کے بچے بھی اپنے ساتھ عجب سی قسمت لے آتے ہیں جن کا بچپن محرومی میں ،نوجوانی دھتکار میں دھکے کھاتے ،اور بڑھاپا در در کی ٹھوکریں کھاتے بھیک مانگتے گذر جایا کرتا ہے۔
بچوں کے شور و غل کی آوازیںجیسے جھونپڑوں کے قریب آتی گئیں تو ان کے شور و غل سے کجلی گہری نیند سے ایسے جاگ اُٹھی جیسے اُس نے کوئی ڈراونا خواب دیکھا ہو ۔جس کا وجود رات سے ہی تھکا ہارا ہوا تھا۔ وڈیرے سائیں کا آدھی رات تک دل لبھاتے لبھاتے وہ جیسے ٹوٹ سی چکی تھی ۔ کچھ لمحوں تک وہ سیدھے لیٹے ہوئے ہی رات کی رُوداد کو ذہن میں تازہ کرنے لگی تو ایک اُچاٹ خیال اس کے وجود میں تیر کی طرح سے آ چُبھا۔ بیزارگی کے عالم میں جمائی لیتے کجلی انگڑائی لے کر جیسے اٹھنے لگی تو اس کی جوانی سے بھری ہوئی چھاتی مُنہ تک اُبھر کر رہ گئی ۔ اس نے جھونپڑے کا پردہ اٹھایا تو باہر سے آتی تازہ ہوا کے جھونکے کے ساتھ قبر کی مٹی کے ساتھ تازہ گلاب پتیوں کا لمس بھی سانسوں میں سمانے لگا۔ کجلی کی نظروں کے سامنے سے اب بیزارگی کے عالم میں قدم اٹھائے ہوئے جنازے کے شریک لوگ تھے جن سب کے پیچھے گلو اپنی شکاری نظروں سے کجلی کے تعاقب میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا کوارٹروں کی جانب بڑھنے لگا تو کجلی بھی اپنے سڈول جسم کو ایک ادا سے موڑ دیتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہو لی۔
” جانی! کیا ارادہ ہے؟!“ کجلی نے مسکراکر سر جھکا لیا تو گُلو خوشی سے ایسے کھل اٹھا جیسے کوئی بچہ اپنی ضد والی چیز پاکے خوش ہوجائے۔
”ہائے ہائے ظالم! تیری ان ادا ﺅں نے تو مار ہی ڈالا ہے ۔۔۔ مولا قسم پچھلے سال بھی چکما دے گئی تھی تو سچ بتانا پھر سے ویسا تو نہیں کرو گی نا؟!“
”دیکھ گلُو میں ترے یہ مَسکے سننے نہیں آئی ہوں۔ پہلے س¶ کا نوٹ رکھ ہتھیلی پہ پھر کوئی اور بات ۔“
” س¶ روپیہ؟!! قلندر کا قہر ٹوٹے تم پہ “ ۔ حیرت کھاتے ہوئے آنکھوں کے ساتھ گلُو کی بانچھیں بھی کھل گئیں تھیں۔”بازار والی بھی پچاس لیتی ہیں۔ تیرا تو تیس کا بھی مُول نہیں ہے اور چلی ہے س¶ روپیہ لینے۔۔۔ کبھی دیکھا ہے زندگی میں س¶ کا نوٹ؟!“
”بیکار میں میرا وقت خراب نہ کر۔ اگر مہنگی ہوں تو چل نکل پتلی گلی سے“ کجلی کے بدلے تیور دیکھ کر گلو کا پارہ بھی چڑھنے لگا اور غصے سے مُنہ بناتے ہوئے وہ کہنے لگا، ”بات تو ایسے کر رہی ہو جیسے ہیرا منڈی کے خاندان سے رشتہ جوڑے ہوئے ہو۔“
” دیکھ گلو !!“
’ارے جان کیوں فضول میں وقت برباد کر رہی ہے چل اب مان جا پچاس میں۔۔۔ مولا قسم! کارخانے سارے بند پڑے ہیں اور وقت بڑا خراب چل رہا ہے۔ سچ پوچھو تو ایک بیڑی کے لیے ترس رہا ہوں اور تو ہے کہ کچھ خیال نہیں کر رہی ۔“
ایک دم گلو نے ہمدردی پانے کا انداز بنایا جو کسی بھی قیمت پر کجلی کی قربت پانے کا موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ کجلی بھی یہ ادا دیکھ کر رہ نہ سکی اور اُس کا غصہ اب ایسے ختم ہونے لگا تھا جیسے سورج کی تپش سے پہاڑوں پر جمی برف پگھلنے لگتی ہے۔ تب گلو نے ایک اور تیر نشانے پہ دے مارا اور داڑھی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے میٹھے لہجے میں کجلی سے کہنے لگا، ”دیکھ کجلی! یہ تجھ سے وعدہ رہا بس کارخانے چلنے دے پہلی کمائی سے تیرے لیے نیا جوڑا خرید لا¶ں گا۔ ویسے بھی تیرا میرا کوئی حساب تو ہے نہیں۔“
نئے جوڑے کا سُن کر کجلی کے من میں بیٹھی لالچی عورت کا دل مچل اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وُہ گلو کی مضبوط بانہوں کی جکڑ میں ایسے آ پھنسی تھی جیسے لوہا چقمق سے جڑ جاتا ہے۔ دو جواں جسم جوانی کی آگ میں بہتے جلتے ایک ہوگئے تھے۔ کجلی کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وقت ٹھہرسا گیا ہو۔ پہلی بار اس نے اپنے وجود میں نئے رنگ بھرتے محسوس کیئے تھے ورنہ وڈیرے سائیں کی بانہوں میں وہ خود کو یوں دبی تڑپتی بھاتی تھی جیسے شیر کے مُنہ میں پھنسا ہوا شکار اچھلتا، تڑپتا رہتا ہے۔
عورت کی نفسیات بھی عجب چیز ہوا کرتی ہے۔ اگر من راضی تو مرد کی کائنات خوشیوں سے بھر جائے اور اگر من میں مُوجی تو یہ دنیا دوزخ بنا دیتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی معمولی سی خواہشوں کے تعاقب میں کبھی کبھار وہ اپنے وجود تک کو گنوا بیٹھتی ہے۔ یوںُ اس معاشرے کی عقابی آنکھوں میں کجلی جیسی عورتیں تو ویسے ہی شکار بنی پھرتی رہتی ہیں۔ گلو کی طلب کا لقمہ بن جانے والی کجلی اس لحاظ سے بھی خوش دکھائی دے رہی تھی کہ اُس کا پیاسا وجود آج پہلی بار جوانی کے پانی میں ایسے نہایا تھا جیسے برساتی بوندیں کرخت دھرتی کو بھگو دیا کرتی ہیں۔
”کدلی! میں پھرآیا ہوں‘ کجلی جیسے ہی جھونپڑے کے قریب پہنچی تو سامنے سے شاہو کھڑا تھا جو اپنے توتلے لہجے میں کجلی کو دیکھ کر خوش ہونے لگا تھا۔
” تو ؟!!۔ کیا کرے کجلی؟“ کجلی بے رخی سے جواب دیتے اندر جانے لگی۔
”دیکھ کدلی ! تو مدے بہت اصی لگتی ہو۔۔۔ میں یہ تیرے لے دیکھ کا لایا ہوں‘ ‘اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے شاہو اب لرزتے ہاتھوں سے ایک ڈبہ کجلی کو دینے لگا مگر کجلی نے اسے دیکھا ان دیکھا کرتے ہوئے مُنہ موڑ دیا کیوں کہ وُہ شاہو سے سخت نفرت کرتی تھی جو توتلے ہونے کے ساتھ معذور بھی تھا اور لنگڑاکے چلا کرتا تھا۔
” میلا دل نہ تُول ۔۔۔ کدلی میں نہ تجھے شچا پیار کرتا ہوں“
”اچھا؟! (کھل کھلاکر ہلکی سے ہنسی) واہ رے میرے مجنوں۔“ کجلی نے طنز کرتے ہوئے اسے پھر سے کہا۔
” پوری دھوتی باندھنی بھی نہیں آتی اور چلا ہے کجلی سے دل لڑانے، چل نکل یہاں سے ورنہ کردوں گی ننگا۔“
”تو میلی بات تو شن ذرا‘ ‘ شاہو کا وجود ایسے لرزنے لگا جیسے سردی سے کوئی کانپ کر رہ جاتا ہے۔
” دیکھو شاہو! کجلی اپنی مرضی کی مالک ہے۔ نہیں کہا تو مطلب ”نہ“ سمجھے اور تو مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگتا ہے پاگل ہے تو پاگل۔“
”ٹھیک ہے کدلی، پھر میں بھی وڈیرے کو بتا¶ں گا کہ تو اور گلو ۔۔۔ ہاں! میں نے دیکھا ہے سب“
شاہو کے الفاظ کجلی کے جوبھن پہ آسمانی بجلی بن کر گرے تھے۔ ایک پل کے لیے اس کا وجود سُن ہوکر رہ گیا تھا۔ پھر وہُ خود کو سنبھالتے ہوئے شاہو کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرنے لگی۔ کجلی یہ جانتی تھی کہ شاہو مرجائے گا پر اپنی زبان کبھی نہیںکھولے گا کیوں کہ وہ سچ میں کجلی کے حسن کا دیوانا تھا اسے بے پناہ پیار کیا کرتا تھا جس کو کجلی ہکلا اور پاگل سمجھ کر دھتکارتی رہتی تھی۔
”ہاں ہاں تجھے جو کرنا ہے کرلے۔۔۔ پر یاد رکھ زندگی بھر کے لیے پھر کجلی کو پا نہیں سکے گا۔“
کجلی تھی تو بازیگر قبیلے سے مگر اسے دیکھ کر یُوں لگتا تھا جیسے قدرت نے اسے فرصت سے بنایا ہو۔ سانولی رنگت ہونے کے باوجود اس کے تیکھے نقش و نگار دیکھنے والوں کے دلوں میں تیر بن کر چبھ جایا کرتے تھے۔ ناک پہ چاندی کی پھلی اس کے حسن کو اور بڑھاوا دیتے نظر آتی۔ سڈول جسم والی کجلی کے یوں تو چاہنے والے بے شمار تھے پر وہ ہر ایرے غیرے کو نظر اٹھاکر نہ دیکھتی جس پہ دل آتا پھر پیچھے مڑ کر دیکھنا گنوارہ نہ کرتی۔ اسے اپنی جوانی پہ ناز سا رہتا تھا اسی لیے تو ہر ادا قبیلے کے باقی عورتوں سے جداگانہ رکھتی تھی۔ اس دنیا میں اس کا واحد سہارا نانا باقی بچا تھا جو کہ اب خود دمے کی بیماری میں گھرا زندگی کے آخری اسٹیشن کا مسافر تھا جہاں پہ آنے والی ریل گاڑی اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس منزل پر لے جانے والی تھی جہاں سے آج تک کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا ہے۔
اپنے قبیلے کے ساتھ گندم کی کٹائی کے لیے کجلی جب یہاں پہنچی تو وڈیرے نے اسے ڈیرے پہ دیکھتے ہی گندم کے کام کی بجائے اپنا دل لبھانے والے کام پہ مامور کردیا۔ وڈیرے کا جب بھی پیغام آتا وہ نہ چاہتے ہوئی بھی اپنی بھرپور جوانی کو دلہن کی طرح سجائے ڈیرے پہ آجایا کرتی مگر اب وڈیرے سے کجلی کا دل اچاٹ رہنے لگا تھا۔ وڈیرے کا بے ڈولا بھاری جسم اس کی تپتی جوانی سے آ ٹکراتا تو اُس پل کجلی کو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ کسی مردے کے ساتھ زندہ قبر میں دفن کردی گئی ہو۔آج بھی وڈیرے کا پیغام ملنے پر کجلی پھر سے سج دھج کر من میں بیزارگی کا عالم سمیٹے جیسے ڈیرے پہ آئی تو وڈیرے کے بدلے بدلے تیور دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ من میں ویرانی کی بجائے خوف سے بھرے احساس تڑپنے لگے۔ وہ سہمی سی وڈیرے کے پہلو میں لیٹی۔ اس کے بے ڈولے جسم پہ انگلیوں سے کھیلنے لگی تھی تب وڈیرے نے اسے اپنی بانہوں میں زور سے جکڑ دیا اور اگلے کئی پل وہ کجلی کے جواں جسم کو یوں روندتا رہا جیسے گدھ سڑے ہوئے گوشت کو نوچتے رہتے ہیں۔ پسینے میں نہائی کجلی خوف سے لرزنے لگی تھی کیوںکہ وڈیرے نے ایسا عمل پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔
” کجلی تو کیا میرے سے بیزار ہے؟!“ اب کے وڈیرا اس کے گہنے بالوں میں انگلیاں گھماتے پیار سے بات کرنے لگا۔
” نہ سرکار! کجلی آپ پہ قربان جاوے ۔ آپ کے پا¶ں کی جوتی ہوں میں۔ لو بھلا جوتی پا¶ں سے کیسے بیزار ہووے!“
” ہوں“ یہ کہہ کر وڈیرا کچھ دیر تک کے لیے خاموش ہو جاتا ہے“۔ پر جو میں نے سنا ہے وہ سب سچ ہے کیا؟!“
” نہ سرکار نہ ۔ وہ سب جھوٹ کا گھڑا ہے ۔ کجلی کی اتنی مجال نہ ہوے کہ آپ کے سوا کسی اور سے دل لگی کرے ہے ۔“
خود کو بچانے کیلئے اب وہ رونے لگی اور وڈیرے کے پا¶ں پکڑ کر کہنے لگی تھی، ” سرکار! سچ تو یہ ہے کہ مارے ساتھ جلم ہوا ہے۔ میں کیا کرتی۔“
”کس مائی کے لعل میں مجال ہے کہ وہ وڈیرے کی چیز کو میلی آنکھ سے دیکھے۔“ ایک دم وڈیرے کا لہجا غصے سے بھر گیا اور آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی مانند نظر آنے لگی۔
”مارو یقین کرو مائی باپ کجلی جھوٹ نہ بولے ہے“
”حرامزادی۔۔۔ کتیا عورت! تو کھاتی ہے میرا اور دل لگی کسی اور کے ساتھ۔ سچ بتا مجھے میں نہ تجھے کیا کچھ نہیں دیا ہے مگر تم نے اپنے دکھا دی نہ اوقات ؟!“ کجلی کی چھاتی میں وڈیرے نے اس زور سے لات ماری کہ وہ نیچے فرش پہ جا گری۔ جانے کجلی کو بھی کیا سوجھی من میں اُس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے وڈیرے سے آخر کہہ ہی ڈالا، ” گستاخی معاف سرکار! سچ تو یہ ہے کہ مارے کو جو سکون گلو نے دیا ہے وہ آپ کبھی نہیں دے سکے ہیں۔“
وڈیرے کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی بڑی مونچھوں والے رعب تاب چہرے پہ کجلی نے زور سے تھپڑ دے ماری ہو۔ وہ خود کو اندر ہی اندر ایسے ٹوٹتے محسوس کرنے لگا جیسے جمی ہوئی برف ٹوٹ کر گرا کرتی ہے۔ جسم میں گردش کرتے ہوئے سڑے خون کی بدبو سے اسے پورا ماحول بدبودار ہوتا دکھائی دیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا۔ وہ جوش سے اٹھا مگر ٹھوکر کھاکر دیوار سے جالگا۔ خود کو سنبھالتے ہوئے چیخنے چلانے لگا تب کمدار دوڑتا وہاں آ پہنچا ا ور سارا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”اس دو ٹکی عورت کو لے جا¶ یہاں سے اور سارے مل کر اسے جوانی کا مزہ چکھا دو۔“
وڈیرے کے حکم کی دیر تھی دیکھتے ہی دیکھتے کئی ہاتھ کجلی کے نرم و نازک وجود کو روندتے گھائل کرتے رہے۔ کجلی چیختی روتی ۔۔۔ تڑپتی رہی یہاں تک کہ چیختے چیختے اس کی آواز بھی ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ گندم کے کھیت میں گھائل روح اور زخم سے چور چور جسم لیے زندہ لاش کی طرح پڑی تھی۔ گا¶ں کی مسجد سے اللہ اکبر کی صدا گونجی تو کجلی کے ذہن پہ گذری ہوئی ر¶داد ایسے تازہ ہونے لگی جیسے سینما کی اسکرین پہ فلم کی ریل چلا کرتی ہے۔ وہ گھائل وجود کو رینگتے سسکتے ہوئے بڑی مشکل سے قبروں تک آپہنچی اور اس زور زور سے چلاکر رونے لگی جیسے قبرستان کے سارے مردے اس کے اپنے ہوں ۔۔۔ صبح ہوئی تووہ ہی قبرستان تازہ کھودی ہوئی قبر کی بھینی مٹی سے مہک اٹھا تھا یہ قبر کجلی کے لیے تھی جسے دفنانے کے بعد بازیگر بچوں کو نہ کوئی پتاشے ملنے والے تھے اور نہ ہی وہاں کوئی گلاب پتیاں لایا تھا۔ پھر شام ہوتے ہی ایریگیشن کوارٹروں کے ساتھ جھونپڑے بھی گم ہوگئے اور ہر طرف چھا گئی اداسی ۔جیسے جیسے اندھیرا بڑھنے لگا خوف کا لاکاس قبرستان کا پہریدار بنا گھومنے لگا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے