یہ پچھلے سال کی بات ہے جب تعلیمی مصروفیات سے مجھے چند دنوں کی چھٹیاں مل گئیں تو میں گھر گےا۔شروع سے ہی مےری عادت رہی ہے مےں بزرگان دےن، اولےا ءکرام ےادوسری عظےم ہستےوںکے قبر ےا دربار مےں جاےا کرتا ہوں۔خصو صًا مست توکلی اور سمو مائی جےسے عاشق صادق کے دربار جانے کیلئے ہر وقت دل مےں خواہش رہتی ہے۔مست توکلی اور سمو مائی تووہ ہستےاںہےںجو کوہلو کی پہچان ہےں،مری قوم کی پہچان ہےں۔ خدا جانے وہ کتنی خوش نصےب مائیںتھیں جنھوں نے مست توکلی اور سمو مائی جیسی ہستےوں کو جنا تھا۔ ےہ بات بجا ہے کہ کوہلو کی مائےں تا قےامت مست اور سمو جےسی ہستےوں کو لورےاں نہےں دےں گی۔خدا جانے ان دونوںکو بچپن مےںان کے والدےن محبت، شفقت ےا پےار سے کن خوبصورت ناموں سے بلاتے تھے ؟تاکہ مےں بھی انھےں ان ناموں سے ےاد کرتا تو
شائد مےرے دل کو تسلی اور سکون آجاتا کہ مےں بھی ان دونوں کی کتنی احترام کرتاہوں مےں تو سرف اتنا ہی جانتا ہوںکہ ہمارے معاشرے نے،سنگدل لوگوں نے ان کے ساتھ کےا کےاہے۔ اس کے ذمہ دار ہم ہےں،ہمارا معاشرہ ہے،ہمارے رسم ورواج ہےں!!!!!!!!
صبح سوےرے مےںنے دوستوں کے ہمراہ حضرت سمو مائی کی قبر پر جانے کا ارادہ کےا،حسب معمول ہم نے کافی زےادہ سامان اپنے ساتھ لے جانے کاسوچاتھا۔گوکہ ہم نے شام ہونے سے پہلے ہی گھر واپس لوٹ آنا تھا۔چونکہ اس راستے سے لوگوںکی کم آمدورفت ہوتی ہے،اس لئے ہمارے پاس ضرورت سے زےادہ سامان تھا۔ہم چند ہی گھنٹوںکی سفر کے بعد مخماڑ کے علاقے پہنچ گئے اور وہےں پر©©©©©©©©©©©©©©© سمو پٹی نامی جگہ پر سمو مائی کی قبر ہے۔قبر کوہلو سے کاہان روڈ کے ساتھ واقع ہے،قبر کے قرےب نہ پےنے کاپانی ہے اور نہ ہی وضو ےا نماز کی جگہ ہے!!!!اس ©©© شہرخاموشاں مےں لگ بھگ سو کے قرےب نئی اور پرانی قبرےں ہےں،کچھ قبروں کی حالت سے ےوں لگتا تھا جےسےے ےہ کئی صدےاں پرانی ہواں۔
مےں نے تسلی سے قبر کی زےارت کی اور چادر چڑھاےا،قبر سے بالکل نہےں لگتا تھا کہ ےہ کسی عظےم ہستی کی قبرہو،مےں قرےب ہی کھڑا درود شرےف پڑھتا رہاجب دعا کےلے ہاتھ اٹھائے تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔قبر پر اےک آدھ خستہ حال چادر اور چند معمولی سی چےزےں پڑی تھےں مثلاً کنگن کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے ،ٹوٹے ہوئے پےالے اور دوسری چےزےں جو کسی کے استعمال کی نہےں تھےں،قبر کی چادرےں تو چرواہے ےا دوسرے لوگ ےوں اٹھا لے جاتے ہےں جےسے ان کی اپنی جاگےر ہوں۔
آدھے گھنٹے بعد ہم نے واپس جانے کا ارادہ کےا، مےں دوستوں کے ساتھ روانہ ہی ہوا کہ مجھے ےوںلگا جےسے مجھے کسی نے آواز دی ہو، ےوں لگ رہا تھا جےسے کسی نا معلوم جگہ سے نا معلوم صدا آ رہی ہو۔مےں نے حےرانگی سے دائےں بائےں پہاڑوں کی طرف دےکھا پھر کو تکتا رہاکہ آخر ےہآواز کےسی ہے اور کہاں سے آ رہی ہے ؟جب کئی دفعہ سوچنے اور دےکھنے پر بھی کچھ سمجھ نہےں آےاتو دل مےں خےال آےاشائد ےہ مےرے ضمےر کی آوازہو،بحرحال آخر تک مجھے سمجھ نہےں آےا کہ ےہ کےسی آواز ہے،جب غور کےا تو مجھے ےہ باتےں سنائی دے رہی تھےں۔
©©٬٬کےسے آنا ہوا لگتا ہے تم بھی دوسرے لوگوں کی طرح کوئی منت مانگنے کےلئے ےہاں ماتھا ٹےکنے آئے ہو!اور ےقتناً جب تےری منت پوری ہو جائےگئی تو تم بھی غائب ہو جاﺅ گے۔مےں نے کچھ کہنا چاہا مگر مےری آواز حلق سے آنے کا نام ہی نہےں لے رہی تھی،پھر آواز آئی ادھر دےکھ وہ FC کی چوکی نظر آرہی ہے ،وہاں ہر سہولت آسکتی ہے مگر اس قبر کےلئے اےک کتبہ تک نہےں!!!کوہلو سے پنجاب ،کوئٹہ،سبی ،کاہان اور ماوندتک پکی سڑکےں بنائی جا سکتی ہےں،لےکن آخر اس قبر کےلئے عوام کے خزانے کےوں خالی ہےں؟؟
مےںعورت ہوں اور مجھے اپنی٬٬سمو راج،،سے حد درجہ محبت ہے،جس طرح مرد حضرات ےہاں آتے ہےںتو کےاعورتےںآنا نہےںچاہتی ہےں،کےا ان کو ےہ حق بھی حاصل نھےں؟۔اس کے بعد مختصر سے وقت کےلئے خاموشی ہوگئی اور پھر درد بھرے لہجے مےں آواز آئی مگر عورتےں آئےں گی بھی تو کےوں!ےہاں ان کےلئے کونسی علےحدہ جگہ ہے؟مےری قوم مےں صدےوں بعد بھی وہی رسم ورواج قائم ہےں بدلا کچھ بھی نہےں ہر جگہ٬٬سمو راج،،تکلےف مےں ہے۔جب ہم حےات تھے تو مےرے٬٬مست،،کی حالت کا ذمہ دار تم لوگ مےرے قبےلے کو ٹھہراتے تھے۔کےا آج بھی مےرے قبےلے کے لوگوں نے تمہارے ہاتھ روک رکھے ہےں؟۔
کوہلو تو سر زمےن مست ہے سرزمےن سمو ہے،پھر بھی صدےاں گزرنے کے باوجود عوام کوہلو کو ہمارا خےال کےوں نھےں آےا؟؟ےہاں صرف الےکشن مےں جےتنے کی دعا کرنے آتے ہو کےا۔
بلوچستان مےں تو ہر دوسرے فرد کی ےاد مےں دن منائے جاتے ہےں،لوگوں کے نام سے تعلیمی ادارے اور سڑکےں بنائی جاتی ہےں ٍ!!حتی کہ پورا سال لوگوں کے نام کےئے جاتے ہےںتو کےا مست اور سمو کے نام سے کوئی ادارہ بناےانہےں جا سکتا ہے؟کےا کسی ترقےاتی کام کی تختی ہمارے سے چمکائی نہےں جا سکتی ہے،،؟؟؟
اےسے لگ رہا تھا جےسے مےں کھڑے کھڑے پتھر کا مجسمحہ بن چکا تھا،مےں نے ہزاروں الفاظ ذہن مےں لائے مگرمےری آواز باہر آنے کا نام ہی نہےںلے رہی تھی۔مےں پوری طرح پسےنہ ندامت مےں بھےگ چکا تھا۔مےں نے لڑکھڑاتے ہوئے بارہا کوشش کرنے کے بعدےہ الفاظ کہے اور مےری آواز باہرآگئی۔
٬٬آپ کی کہی ہوئی باتےں سر آنکھوں پر ،مےں سب مانتا ہوںاور سب کی سب سچ و صحےح ہےں۔مےرے پاس تو صر ف اےک ہی لفظ التجا ہے وہی تو مےرا اور آپکا مرشد ہے،اور وہ ہے مست توکلی۔ہم مست کے مجرم ہےں۔مجھے اپنے مست کی خاطر جانے دو، ےہ الفاظ کہتے ہی ہر طرف خاموشی طاری ہو گئی۔مجھے ےوں لگا جےسے مےں تو پہلے کسی خےالی دنےا مےں تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے