عبید اللہ جان ابتدائی طور پر کسی کی دوکان پر چپل سازی کا کام کیا کرتا تھا ۔ لیکن اس سے گھر گر ہستی کا نظام نہیں چلایا جاسکا۔ تو اسکے بعد معماری کا کام شروع کیا ۔لیکن یہاں بھی زندگی کی گاڑی آگے نہیں چلائی جاسکی۔ جبکہ بعد ایک مقامی تسبیح ساز حاجی ناد ر خان کے ساتھ تسبیح سازی کا کا م شروع کیا ، ایک دن وہ حاجی نادر خان کے ساتھ ایک محفل موسیقی میں شریک ہوا ہی تھا کہ اس دوران وہاں موجود لوگوں نے عبید اللہ جان قندہاری کو بھی غزل گانے کی پیشکش کی ۔ جب عبید اللہ جان قندہاری نے اپنی مترنم آواز میں گانا شروع کیا تو تمام سامعین دم بخود رہ گئے ۔
عبید اللہ جان قندہاری کو اپنے فن اور ہنر پر مکمل ملکہ حا صل تھا ۔ بلکہ وہ انتہائی خوبصورت اور حسین مزاج شخصیت کے مالک تھے ، اس لےے کئی ایک لوگوں نے یہ کوششیںکیں کہ وہ صرف اپنے چند نامی گرامی شخصیات تک محدودرہے لیکن مرحوم ایک آزاد منش قسم کے ہنر مند تھے ۔ اور وہ اس قسم کی بے جا اور ناراو پابندیوں کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ بلکہ اپنے فن و ہنر کے سفر کو آزادی کےساتھ جاری رکھا ۔ عبید اللہ جان قندہاری نے اس حوالے سے کسی کی پر واہ نہیں کی ۔ البتہ بے چارگی اور غر بت ہمیشہ اسکی ہم نشین رہی ۔ لیکن اسکے باوجود وہ خوش پوش اور جدید طرز کی زندگی گزارنے کے متمنی تھے ۔
عبید اللہ قندہاری نے کم وقت میں شعر و ہنرمندی میں وہ مقام حاصل کیا ، جو کافی جدو جہد کے بعد کئی ایک گلوکاروں یا فنکاروں کو نصیب ہو سکی ۔ اسلئے مختلف تہواروں کو دوسرے قندہاری فنکاروں کی طرح عبید اللہ جان کو بھی اپنے فن کے اظہار کے لئے بلایا جاتا تھا ، بلکہ کئی بار وہ گلستان اور پشین میں مہینے مہینے قیام پذیر ہوتے تھے ۔ قندہار سور غر کے مجلے کی اشاعت کے ستارویں قسط میں پشین کے ممتاز لکھاری اورادیب و شاعر جناب عصمت اللہ خان ترین کے عبید اللہ جان قندہاری کے ساتھ دوستانہ مراسم کا ذکر بھی آیا ہے۔
عبید اللہ جان قندہاری واقعی ایک محنتی فنکار تھے اور اس نے اپنے فن کو بلندیوں کی معراج تک پہنچایا ۔ مرحوم نے قندہاری سبک میں پشتو اور دری فارسی کے علاوہ ھندی کو بھی اپنے افغانی سبک میں پروان چڑہایا ۔ مثال کے طور پر ایک ہندی غزل کو اپنے انداز میں گایا جس کو سامعین اور شایقین نے کافی پسند کیا ، جو درج ذیل ہے ۔
﴾ ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی ۔ ﴿ اور اسکو بعد میں افغانی موسیقی میں اس طرح کا پی کی،
دلدار وماتہ وائی چی تا کڑی شر او شور دی ۔
پاکستان میں ان کے شائقین کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ و ہ عبید اللہ جان کو پاکستان لانے میں پہل کرنے کی کوشش کریں ۔ علاوہ ازیں یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے حالانکہ کسی ملک میں نظام کے بدلنے کے ساتھ ساتھ سابقہ سسٹم کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے بلکہ یہ تمام ترقی پذیر ملکوں کا وطیرہ رہا ہے ۔ جسے ہمارے ہمسایہ ممالک بھی مستثنی نہیں رہا ہے ، کیونکہ ملکی سطع پر تبدیلیاں رونما ہونے کے ساتھ ساتھ حامیان وقت اور دشمنان وقت میں بھی اضافہ ہوجا تا ہے ۔جہاں افغانستان میں وہاں کے غیور اور انقلابی عوام نے ظلم و جبر کی آخری کڑیاںتوڑنے کے لئے نور محمد ترہ کی کی قیادت میں انقلاب بر پا کیا ۔ تو وہاں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے روشن فکروں اور طلبہ کے علاوہ فنکاروں نے بھی ساتھ دیا اور عوامی انقلاب کی حمایت میں موسیقی کا سہارا لیا لیکن انقلاب مخالفین کو یہ حرکات ایک آنکھ بھی نہیں بہائی ۔ اور انقلاب ثور کی حمایت میں ہر اُٹھنے والی آواز کا گلا گھونٹنے کی بھر پور کوشش کی۔
ان تمام سیاسی اختلافات سے قطع نظر عبید اللہ قند ہاری نے اپنے فن موسیقی کو عروج پر پہنچاننے کی بھر پور کوشش کی ۔ البتہ انہوں نے ایسی غزلیں بھی گائیں ہیں جو آٹھ غزلوں پر مشتمل کیسٹ کی قیمت اس وقت پچاس ہزرا افغانی میں اُن کے شائقین دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں ، آپ نے ذیل شعرا کا کلام گایا ہے ، جو ذیل ہیں:
حضرت عبد لرحمن باباؒ۔ خوسحال خان خٹک ، عبد الحمید مومھند ، عبد الحنان بارکزئی ۔ ملا عبد لاسلام کاکڑ، عبد الباری جہانی، عبید اللہ درویش درانی ، رحمت شاہ سائل عبد لحکیم شیدا ، عبد الکریم رسوا۔ عبدا لقادر خان خٹک ۔ عبد لمنان۔ عبدالرحمن گلابی ، سید عبد الخالق ، محمد انور ، گل بیدار ، علی خان بابا۔ جیگر خون ، مولوی عبد الغفار بریالی ۔
اس نے کئی ایک کلاسیک شعرا کا کلام گایا ہے ۔ یاد رہے جب وہ ایک مرتبہ پاکستا ن تشریف لارہے تھے تو راستے میں نامعلوم مسلح آفراد کی مجرمانہ ہوس کا شکار ہوئے۔
عبید اللہ جان قندہاری نے ۵۲ سال کی عمر میں 17600غزلیں گائیں ہیں جو ایک ریکارڈ ہے ۔
25 سال کی عمر میں بمورخہ 1359 ھ۔ش کو انتھائی بے دردی اور بے حسی کی حالت میں شہید کرنے کے بعد اس کی لاش نامعلوم مکان پر ٹھکانے لگادی ، بلکہ عبید اللہ جان قندہاری کو ڈولہ کے علاقے میں سپرد خاک کیا گیا تھا ، سات سال کے طویل عرصے کے بعد آپ کے جسد خاکی کو نامعلوم مقام کی طرف منتقل کیا گیا تھا ، اسکے بعد ایک چرواہے کی نشاندہی پر ممتاز محقق عبد الواسع ہسیال (ہحُیال) نے جسد کو پاکر قندہار کے مشہور قبرستا ن شہداءمیں عوامی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے