(کوئٹہ کے لیے)

بچپن کتنا اچھا تھا
رات ستاروں سے آنگن گھر کا بھر جاتاتھا
کھیلتے کھیلتے وقت گزرتا
لمحوں میں
کوئی ڈرتھا نہ کوئی خوف طنابوں پہ رکھتا
بچپن اپناکتنا اچھا تھا
جیبوں میں تازہ پھل رکھتے سوجاتے تھے
بھوک نہ پیاس کی باتیں ہوتیں
ایک خدا سے باتیں ہوتیں
یوں لگتا تھا ساری دعائیں
اک اک کرکے پوری ہونگیں
پریاں آکر دل بہلاتیں
آئینہ میں چہرہ دیکھنا حیرت کے دروازے کھولتا
پھر ہم نے ایک گھڑی لی
وقت کو دیکھا
اس سے وقت کا چہرہ بدلا
لکھنا اور پڑھنا جو سیکھا
جیسے ہم نے سب کچھ سیکھا
چار گلیوں کا رستہ دیکھا
بازاروں میں صدمے دیکھے
منظر دیکھے نت نئے اور
قیمت دیکر پھل خریدے
ان کو کھایا
چھلکے پھینکے
لمبی تانی
نیند سے الجھے نیند نہ آئی
پریاں ساری روٹھ گئیں
اور شہر ہمارا پھیل گیا
جیبیں سکڑیں
بچپن اپنا جانے انجانے میں
کیسے کھویا
کچھ نہ جانا
جانے اپنا بچپن کھویا
جانے اپنا شہر گنوایا
آنگن بھر دنیا کو دیکھو!
کتنی اب کے پھیل چکی ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے