مائی ڈیر سویٹ گمشدہ بھائی آغا گل۔
آپ تا دیر صحت مندی کے ساتھ سلامت رہیں
معذرت خواہ ہوں ۔’’ سنگت‘‘ ملنے پر خوشی کا اظہار نہ کرسکا جو اس کے ملنے پر مجھے ہوئی تھی۔ سالنامہ ’’ سنگت‘‘ ایک ایسی دستاویز ہے جسے میں اس عہد کی تاریخ سمجھتا ہوں خصوصاً ’’ ریحانہ جباری کے نام‘‘ غنی پہوال کی نظم نے دل دہلا دیا۔ ریحانہ پر غنی کی نظم نے مجھے دنوں سوگوار رکھا ۔ یہ نظم سنگت کے ماتھے کا جھومر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بلوچی زبان مجھے بھی آجائے ۔ مگر کیا کروں نہیں آتی ۔ میں’’ سائیں کمال خان‘‘ برملا خان برمول کی نظم پر انگلیاں پھیرتا رہا ۔ سمجھ نہ سکا۔ کاش اس کا اردو ورشن بھی ہوتا۔ اس طرح ’’ خوش ترا نا سنگت ‘‘ یقیناًمعرکے کی چیز ہوگی ۔ مگر میں ان پڑھ نہ سمجھ سکا۔ شاہ محمد مری میرے پسندیدہ لکھاری اور آئیڈیل انسان ہیں اور ہم مزاج بھی ۔حرارت سے پر اُن کی تحریر مردہ جسم میں بھی آگ لگادیتی ہے۔ مگر گل خان بلوچ کو میں نہ سمجھ سکا ۔ اسی طرح ’’ جواں سال بگٹی کے نام ‘‘ ، ’’ منی شبتاک‘‘ گوں دلا جھیڑاں ‘‘ کیاّ و سدو‘‘ اور ’’ شکاری‘‘ نظم میری دسترس سے باہر ہیں ۔لیکن جو کچھ میری رسائی کے دائرے میں آسکا وہ اتنا کچھ ہے کہ میرے سال بھر کے لیے ذوق کی تسکین کا باعث ہے ۔ اور ’’ سونے میں اُگی بھوک ‘‘ کا تو جواب ہی نہیں ’’سوئی کی نوک پہ کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جیسے لوگ اس معاشرے کو گندہ اور پراگندہ کرتے ہیں یہ جہلا ہماری دنیا کو کالا کرنے میں جُتے ہیں آپ کا قلم بھی کمال کرتا ہے آ پ خود بھی۔
مجھے تو عزیز مینگل کا سیلف پورٹریٹ بھی پیارا لگا۔ یہ خزانہ آپ نے مجھے بھجوا کر بے حد ممنون کیا ہے۔ رب قدیر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اور تمام لکھنے والوں کو سلامت رکھے۔

یونس جاوید

ٌٌ********
آغا گل ایڈیٹر سنگت
سب سے پہلے تو کہوں سر آپ کا نام ہی اتنا پیار ہے کہ اس میں سے پھولوں کی خوشبو آتی ہے ۔پھر آپ کا محبت بھرا رسالہ بھیجنا۔ سنگت واقعی دلیری کی بات ہے ۔ مضامین خوب ہیں ۔’’سادہ آدمی‘‘ معلومات سے پُر ۔ سندھ کا سوبھو، دلچسپ ، وادی مستونگ یہ سب پاکستان ہے اور ہم سب بھی پاکستان ہیں خون میں ڈوبے ہوئے مگر مرتے نہیں زندہ رہتے ہیں۔ دلیر بادشاہ پڑھ کر اپنی ایک انگریزی نظم یاد آئی جو میں نے اس موضوع پر لکھی تھی۔ آپ کو بھیج رہی ہوں۔ شائع کردیجئے گا۔ پورا میگزین بلوچستان کی مہک سے معطر ہے۔ اچھا لگا ۔ بس چلتے رہنا ہے ۔ یہی ہم سب کا پیغام اور مقصد حیات ہے ۔
نیلم احمد بشیر۔ لاہور

ٌٌ********
ڈاکٹر شاہ محمد مری
اسلام علیکم
طویل عرصے کی غیر حاضری کے لیے معافی کا خواستگار ہوں۔
آپ کی خیریت اور ’’ سنگت‘‘ ،نور محمد شیخ سے مل جاتی ہے میں آپ لوگوں کا مشکور ہوں۔
ایک افسانہ ’’ بے پیٹ کے لوگ‘‘ بھیج رہا ہوں۔ اگر پسند آجائے تو شائع کردینا۔
میرے افسانے کا مجموعہ ’’ خواب‘ خوشبو اور خاموشی ‘‘اسی ماہ شائع ہوجائے گا آپ کے لیے اور ڈاکٹر آغا گل کے لیے دو کا بیاں بھیج دوں گا۔ انشاء اللہ
وسلام
شاکر انور۔کراچی
ٌٌ********

محترم ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب
اسلام علیکم
سلامت رہیں دُکھ درد سے دُور ، آپ کی عزتوں اور محبتوں میں میرا خدا اضافہ فرمائے۔ آپ ایسا بڑا آدمی مجھ سے چھوٹے آدمی پر جو چشمِ مہربان کرتا ہے تو خدا کا احسان ہے۔ آپ سے حسب وعدہ ،خالص غریبوں اور مزدوروں والی دو نظمیں پیش ہیں۔ آپ کا سنگت ہمارا سنگت یقیناًاتنی فراخدلی کا مظاہرہ کرے گا کہ ایک دو صفحے میری نظموں کو مل جائیں ۔آپ کی کتاب گندم کی روٹی کا شدت سے انتظار ہے جب بھی چھپ کر آئے پہلے مجھے V-P کردیجئے گا۔ اللہ تعالیٰ بلوچستان پاکستان پر وہ کرم فرمائے جیسا جنت پر جنت کے مکینوں پر فرماتا ہے ۔آپ کی سلامتی ترقی صحت و زندگی کی دعا کے ساتھ ۔
وسلام آپ کی خیریت کا طلبگار
حاتم جنید قیصر
ہری پور ۔ ہزارہ
ٌٌ********
جنابِ مدیر
سد حیف کہ اس سال ماہِ مارچ میں اقلیتوں پر دو دھماکے ہوئے اور اتفاق سے یہ دھماکے لاہور میں ہی ہوئے ۔
البتہ یوحنا آباد کے واقعہ کے نتیجہ میں ایک اورالمناک واقعہ برپا ہواتھا وہ یہ کہ دو مسلم نوجوانوں کو چند لوگوں کی طرف سے زندہ جلانا ہے۔ جن افراد نے ان دونوں کو زندہ جلایا اس پر پولیس نے ان لوگوں کی گرفتاری کے حوالے سے راہبوں سے مدد مانگی ہے جس پر ان مذہبی پیشواؤں نے مثبت رویہ اپناتے ہوئے ان کو پولیس کے حوالہ کرنے کی حامی بھری ہے۔
شہزاد ابراہیم
ٌٌ********

جنابِ مدیر
26 فروری کو کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال بلاک B-13، عزیز بھٹی تھانے کی حدود میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا ۔ شاید اس صنعتی شہر میں واقعہ کے متاثرین کی آواز کی بازگشت گلشنِ اقبال کے اونچی عمارتوں سے نہ ٹکرائی ۔ واقعہ کے مطابق گلشن اقبال میں 100جُگیاں جل کر خاکستر ہوگئیں ۔ غنیمت رہی کہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا مگر جو نقصان ہوا شاید یہ نقصان ان کے لئے کسی جان کے جانے کے صدمے سے کم نہیں ۔ لوئر کلاس کے ان لوگوں کے لئے دوبارہ اتنی ملکیت بنانا جو بَھلے ہی رسمی نہ ہو لیکن بہت مشکل ہے ۔ خبر کے مطابق گیس سلنڈر پھٹنے سے آگ بھڑک اُٹھی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے جگیوں کے اس پورے سمندر کو آگ نے نگل لیا ۔ جگی بانیوں کا کہنا تھا کہ اگر وقت پر فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچ جاتیں تو شاید تباہی کی نوعیت اتنی زیادہ نہ ہوتی ، مگر کیا ہوا کہ ان دنوں کراچی میں اسلحہ کی رسمی نمائش ایکسپو سینٹر پر سجی ہوئی تھی ۔ وزیر اعظم کی آمد کی غرض سے کراچی کی مختلف شاہراہیں بند کی گئی تھیں اگر شاہراہیں بند نہ ہوتیں تو واقعہ کی نوعیت میں تبدیلی ممکن تھی۔ اب بھلا اس نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالنی چاہیے ۔ کراچی کی انتظامیہ پر جن کے سیکیورٹی کے ناقص انتظامات ہیں اور وہ اس فقدان کو شاہرایں بند کرنے سے پردہ میں رکھتے ہیں یا وی وی آئی پی موومنٹ پر جن کی گزر میں اتنا وقت لگا کہ بے وقت کی زندگی میں بھونچال آن پڑے ۔
شہزاد ابراہیم

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے