’’ سوویت یونین ٹوٹا تھا تو میں پوری رات رویا تھا ‘‘۔ بقول اُس کے داماد ڈاکٹر نندلال کے کہ جب کامریڈسوبھوگیانچندانی کو پہلا نیوروجینک شاک لگا تھا تو نیورو فزیشن حسن عزیز کے سامنے کامریڈ نے اپنے ذہنی صدمہ کا اظہار مذکورہ الفاظ میں کیا تھا۔8 دسمبر 2014 کی صبح بھی اس کی صورت ایک نیورو جینک شاک کے سبب واقع ہوئی، کامریڈ اپنے چچا زاد بھائی پہلاج مل کے بیٹے سروپ گیانچندانی سے بڑی اُنسیت رکھتا تھا ، جس کی اچانک موت کی خبر نے اسے سخت ذہنی صدمہ سے دو چار کیا اور شاید اس کے اپنے نوجوان بیٹے کنہیالال کے موت کا زخم بھی تازہ ہوگیا اور یوں کامریڈ بھی اپنے عزیز ترین بیٹے کنہیا سے جا ملا ۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے تیسری دنیا کے تمام انقلابیوں کی ہمتیں ٹوٹ کر رہ گئیں تھیں، کیونکہ سوویت یونین تیسری دنیا کی کمیونسٹ تحاریک کے ساتھ ساتھ قومی آزادی کی تحاریک کا بھی دنیا بھر میں سب سے بڑا حامی تھا۔ اس صدمہ نے کامریڈ سوبھو کو تمام رات رُلایا، لیکن کامریڈ دیگر ہزاروں لاکھوں کمیونسٹوں کی طرح ٹوٹ کر ریزہ ریزہ نہ ہوا بلکہ اُس نے اپنے آپ کو سنبھال کر اپنی تمام تر قوت اور آفاقی عشق کو اپنی جیجل ماں سندھ پر مرکوز کردیا۔ سندھ کے مہان عاشق سائیں جی ایم سید کے سیاسی ورثا نے جس طرح کامریڈ کو عزت دی، اس سے یوں لگ رہاتھا کہ کامریڈ کمیونسٹ تحریک سے بھی زیادہ جیے سندھ تحریک کا رہنما ہو۔ سائیں جی ایم سید یوں تو پاکستان کے کمیونسٹ سے دور بھاگتا تھا ، لیکن سندھ کے چار کمیونسٹ رہنما ؤں ، کامریڈ حشو کیول رامانڑیں، کامریڈ کیرت بابانڑیں، کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور کامریڈ سوبھوگیانچندانڑیں سے دلی لگاؤ رکھتا تھا اور اس کی یہ محبت آفاقی تھی۔ اس کا سندھ سے عشق، آفاقی محبت کا مرکز تھا۔ سندھ میں کمیونسٹ تحریک کے بانی کامریڈ حشو کیولرامانڑیں کاتعارف کرشنا مینن کچھ یوں کراتا تھا: ’’ یہ ہیں حشو کیول رامانڑیں، جو کہتا ہے کہ سندھی قوم ہیں ‘‘۔ ’’ ہاری حقدار‘‘کے ساتھ ’’ جئے سندھ‘‘ کا نعرہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے اپنی نظم ’’ جئے سندھ‘‘ کے ذریعے متعارف کروایا، جسے آگے چل کر سائیں جی ایم سید نے جئے سندھ تحریک میں تبدیل کیا اور سائیں جی ایم سید نے ’’ سندھو دیش ، کیوں اور کس لیے ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب اولین مرتبہ کامریڈ کیرت بابانڑیں نے ہندو میں شائع کی۔2005 میں جب کامریڈ سوبھوگیانچندانڑیں اپنی چھوٹی بیٹی نرملا دیوی اور داماد ڈاکٹر نندلال کے ساتھ ہند کے دورے پر گیا تو کیرت بابانڑیں سے بھی ملے اور دونوں نے عہد کیا کہ حوصلہ کے ساتھ جئیں گے اور زندگی کے سو برس پورے کریں گے ۔ ان کی آنکھوں میں خواب جاگ رہے تھے اور ان کے قلوب میں ان کے آدرش جلوہ گر تھے۔
کامریڈ سوبھو آغا خان ہسپتال کراچی سے لاڑکانہ واپسی پر، دورانِ سفر جب حیدر آباد میں سائیں محمد ابراہیم جو یو سے ملاتو کاوش اخبار نے اس خبر کو ایک خوبصورت سرخی کے ساتھ شائع کی : ’’ سندھ کی سندھ سے ملاقات‘‘۔ سو برسوں تک زندہ رہنے کا عزم رکھنے والی تری مورتی کی ایک مورتی8 دسمبر کی صبح کو وداع کرگئی۔ سانس کی ڈوری تو کامریڈ کیرت بابانڑیں کی بھی کمزور ہوگئی ہے اور اس کا نحیف بدن وہیل چیئر کے سہارے چل رہا ہے لیکن امید کی ایک لوہے جو عاشقانِ سندھ کی آنکھوں میں آج بھی چمک رہی ہے اور روشنی کا سفر ہے جو بے انت ہے، ہر منزل پر ایک اور نئی منزل کے نشان ملتے ہیں اور روشنی کا سفر جاری رہتاہے۔
ایک موقع پر سائیں جی ایم سید نے کہا تھا، ’’ میری اور سوبھو کی دوستی کُنڈھی بھینسوں کے اٹکے ہوئے سینگوں کی طرح ہے، وہ ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن ایک دوسرے کو چھوڑتے نہیں‘‘۔ وطن اور انسانیت کے عشاق نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ اپنے وطن ، عوام اور انسانیت کے ساتھ بھی ایسا ہی اٹوٹ اور لازوال رشتہ رکھتے ہیں ۔ کامریڈ سوبھو بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا، ’’ میں نے کبھی سگریٹ پی نہ ہی شراب اور نہ کسی غیر عورت کے پاس گیا ہوں‘‘۔وہ کردار پر بہت زور دیا کرتا تھا،جو آج کل سندھ کے انقلابی اکثر و بیشتر گنوا بیٹھے ہیں۔ اُس نے ایک مرتبہ کہا تھا، ’’ جی ایم سید بننے کے لیے بھی کردار چاہیے نا !۔ میرا بھی سندھ میں جو اثر ہے وہ میرے کردار کے باعث ہی تو ہے ‘‘۔ شیخ ایاز ایک جگہ لکھتا ہے :’’ میں نے گوتم بدھ کا ایک انوکھا قول پڑھا:‘‘۔ کچھ مت کر، بس ایک جگہ کھڑا رہ ‘‘۔ سوبھو اور سید دونوں آخر تک کھڑے رہے اور اپنے کردار کی عظمت کے باعث امر ہوگئے ۔ ایاز کی شاعری کی بھی یہی عظمت ہے کہ اس کا تخلیق کردہ گیت ہی کامریڈ سوبھو کے الوداعی سفر کا گیت بن کر گونجا۔ کامریڈ سوبھو نے اپریل2007 میں ’’ نیوز اینڈاوپینین‘‘ کے انٹرویو میں کہا، ’’ دراصل میں کمیونسٹ کم ،یوگی ؍ جوگی زیادہ ہوں، میرے لیے سندھ اور میری ماں دونوں ہم معنی ہیں‘‘۔
سندھ کی قومی تحریک نے اپنی تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آج ایک بڑی قوت اور وسعت کا اظہار کیا ہے کہ ایک طرف اُس نے دائیں بازو کے مذہبی رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو بھی اپنی بانہوں میں بھر لیا تو دوسری طرف بائیں بازو کے کمیونسٹ انقلابی رہنما کو بھی اپنے دل میں جگہ دی۔ جبکہ ایک زمانہ تھا کہ قومی تحریک پر دائیں سے بھی فتوے بازی ہوتی تو بائیں سے بھی نظریاتی فتوے جاری ہوئے تھے۔ لیکن کامریڈ حیدر بخش جتوئی، کامریڈ حشو کیول رامانڑیں، کیرت بابانڑیں اور محمد ابراہیم جویو جیسے انقلابی زعما اور ادبا ء کے دم سے جئے سندھ اور جئے محنت کش عوام کے نعرے ایک ہوئے۔
کامریڈ سوبھونے سندھ اور بنگال کا بھی سنگم کیا، بقول کامریڈ، ’’ میں پہلا سندھی تھا، جس نے رویندر ٹھاکر کے نام سے ٹیگور پر سندھی میں مضمون لکھا، جو این جے وی ہائی سکول کے 1935-36 کے سالانہ مخزن میں شائع ہوا۔ کامریڈ بنگال کی دھرتی پر ٹیگور کی یونیورسٹی ، شانتی نکیتن میں لا کی تربیت لینے گیا تھا ، لیکن ایک بنگالی کمیونسٹ پان لال گپتا نے اُسے انقلابی رہنما بنا کر سندھ بھیجا ۔ ٹیگور نے سوبھو سے شکایت کی، ’’ آپ نے ہمارا بہترین آدمی مار دیا‘‘ ۔ لیکن رابندر ناتھ ٹیگور کی عظمت تو دیکھیے کہ اُس نے اِس سندھی نوجوان کو ’’ موہن جو دڑو کا آدمی‘‘ بنا کر بھیجا، اسے عظمت بخشی۔
تمام تر سندھ دوست ، انسان دوست سیاست، سوویت یونین کی طرح تاریخی بن کر رہ گئی ہے اور ہم ہیں کہ ایک دور کا ماتم کرتے ہیں کہ کل نظریاتی اور آدرش وادی سیاست کا زور تھا، لیکن آج صرف مفادات اور منافقی کی سیاست کا بو ل بالا ہے ۔ ہماری نئی نسل کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ آدرش وادی سیاست کیا ہوتی ہے ، انسانوں او رقوموں کی برابری اور آزادی کے خواب کیا معنی رکھتے ہیں ۔ روح تک کو گرما دینے والی انقلابی تحریک کیا ہوتی ہے اور کیوں کامریڈ سردی گرمی میں چلتے ، جیل اور اذیتیں سہہ کر بھی سچی خوشی محسوس کرتے تھے اور بالکل سادہ زندگی گزارتے ہوئے بھی عظمتوں کے معاملہ میں ارب پتیوں کو مات دے دیا کرتے تھے ۔ ان کے لیے یہ بھی ماضی ہے ! کیسے ممالک بھی ماضی ہوجاتے ہیں؟ اس کا علم بھی ہماری جوان ہوتی نسل کو کم ہے ۔ سوویت یونین نامی کسی کمیونسٹ سپرپاور ملک کے وجود کے متعلق اب انہیں کوئی سدھ بدھ حاصل نہیں ہے۔ کامریڈ سوبھو نے کمیونسٹ تحریک اور سوویت یونین کا عروج و زوال اپنی آنکھو ں سے دیکھا۔ وہ برطانوی غلامی میں جکڑے انڈیا میں جب ٹیگور کے شانتی نکتین میں داخل ہوا تو وہاں اس کی ملاقات انقلابیوں سے ہوئی ، جنہوں نے اس کی آنکھوں میں آزادی اور سوشلزم کے سپنے سجائے ۔ کامریڈ پنا لال گپتا نے اسے بتایا کہ ’’ کامریڈ ! ملک کی آزادی اور سوشلزم کے لیے سوچنا اور جدوجہد کرنا ۔ اس طرح کا اور کوئی کام ہے ہی نہیں‘‘۔ کامریڈ آزادی اور سوشلزم کے خواب لے کر سندھ لوٹا اور لا کالج میں داخلہ لے کر عملی سیاست کا آغاز کیا اور آل سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکریٹری بنا، لیکن اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ ملک غائب بھی ہوسکتے ہیں تو تبدیل بھی۔ اُس وقت ملک کی آزادی کا مطلب تھا، ہندوستان کی آزادی ۔ لیکن آگے چل کر نفرت کی وہ آگ بھڑکی کہ ہندوستان وہ ہندوستان نہ رہا، جس کی آزادی کے لیے انقلابیوں اور قوم پرستوں نے جدوجہد کی تھی۔ تقسیم کی تپش کو کامریڈ نے 1945 میں ہی محسوس کرلیا تھا، ’’ میں نے 1945 کے بعد کمیونسٹ پارٹی میں کوئی عہدہ کبھی قبول نہیں کیا کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ ہندو ہونے کے باعث یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ہندو کو کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکریٹری قبول کیا جائے‘‘۔ اور بعد میں جب نیا ملک پاکستان وجود میں آیا تو یہاں ہندو ہونے کے ساتھ ساتھ سندھی ہونا بھی جرم بن گیا ! ۔تبھی کامریڈ کہتا تھا ، ’’ میرے تین جرائم ہیں، ایک ہندو ہونا، دوسرا سندھی اور تیسرا کمیونسٹ ہونا۔۔۔۔۔۔دو جرائم پیدائشی ہیں جبکہ ایک شعوری‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے