بلوچی زبان کے ارتقاء کو ماہرین لسانیات نے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے جسے راقم قیاسِ اولین خیال کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید ہی اس طریقہء منقسم میں احتمالیت ہو مگر تجزیے کو بروئے کار لانے میں ایک نکتہء آغاز کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے جو عِلماً مفروضہ ء اولی گُمان کیا جاتا ہے اور اس کی بِنا پر تجزیے کو پیش کیا جاتا ہے ۔
ماہرین لسانیات نے زبان کی جو درجہ بندی کی ہے اس لحاظ سے آریائی زبانوں کے انڈویوروپین کی ایرانی شاخ میں بلوچی زبان شامل ہے اور یہ قدیم ایرانی شاخ تین ادوار میں منقسم ہے ۔ دورِ اول ، ایک ہزار قبل مسیح ، جس میں اوستا شامل ہے ، دورِ دوئم تین سو اکیتس قبل مسیح ، جس میں پہلوی زبان شامل ہے ، جبکہ دورِ سوئم ، موجودہ دور ہے جس میں جدید فارسی ، بلوچی ، کُردی اور پشتو شامل ہیں ، یہ نئی ایرانی زبانیں کہلاتی ہیں۔(1)
بلوچی زبان کے ارتقاء کو ہزار قبل مسیح سے لینے کی جو حجت آثاریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مباحث کی گئی ہے اس کے کچھ آثار مروجہ زمانے میں بھی چھوٹے پیمانے پر تجربے میں آئے ہیں جسے اگر خطِ میخی سے تشبیہ دیا جائے تو شاید کسی حد تک بات بَنتی ہوئی گُمان میں آسکتی ہے اور در حقیقت یہی ایک چھوٹا احتمال ہے جسے سُمیری، بابلی اور ایرانی تہذیب سے قضیات میں بھرا گیا ہے لیکن اس کے بعد جتنی بھی زبانیں بلوچی زبان کی ارتقائی شکلیں بتائی جاتی ہیں ، ان کے آثار شاذو نادر ہی مل جائیں ۔یہاں زبان کے ارتقائی سفر کے کنایات ہمارے تجربے سے پَرے ہیں جس میں عملی سطح نہ ہونے کے برابر ہے، اس لحاظ سے گُمان ہوتا ہے کہ بلوچی زبان سینہ بہ سینہ سفر کرتی رہی اور اس سے اُس کے الفاظ معروضیت میں ڈھلتے گئے۔
در حقیقت الفاظ میں معروضیت کا دار و مدار زبانی کلامی کی طویل سفر پر ہے جس میں الفاظ کو اسمِ معروض سے اس طرح باندھا جاتا ہے کہ ان میں الجھاؤ نہ پیدا ہو۔ اس لحاظ سے ہر شے کے عمل کو ایک ایسے اِسم سے پکارا جاتا ہے جو کسی دوسرے شے کے ساتھ تمیز پیدا کرے اور اس کی معروضیت کو برقرار رکھے۔بلوچی زبان ارتقاء کے سینہ بہ سینہ طویل سفر سے ہوتا ہوا مروجہ زبان کی شکل میں جلوہ گر ہے۔ زبانی سفر میں چند چیزیں ہر زمانے میں زبان کے ساتھ ساتھ زندہ رہتی ہیں جن میں روایات کو مضبوط بنانے والی کہانیاں، ثقافت کی جہتیں اور شعر شاعری برائے رزم و شادمان۔ مگر اس سے میری مراد ہر گز یہ نہیں کہ مندرجہ بالا چیزیں صرف زبانی سفر سے آگے آتی ہیں البتہ زبانی سفر میں پروان چڑھنے والی چیزیں یہی چند ہوتی ہیں، اور بلوچی زبان میں یہی چند چیزیں ہمیں وراثت میں ملی ہیں جبکہ ان کے برعکس نہ فلسفہ ملتا ہے اور نہ ہی سائنس، کیونکہ یہ چیزیں زبانی روایت سے کبھی بر قرار نہیں رہ سکتی ہیں ۔ فلسفہ کو پروان چڑھنے میں جدلیاتی عمل درکار ہے جبکہ زبانی روایت سے دلائل سنبھالے نہیں جاسکتے اور نہ ہی سائنس کی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ کیونکہ سائنس ترمیم modificationاور کبھی کبھار قائمّقامad hoc modification کے مدارج سے گزرتا ہے جبکہ یہ عمل بھی زبانی سفر سے احتمال نہیں ہوتا۔ بلوچی زبان کے ارتقاء میں فلسفہ و سائنس اور دیگر علوم کی غیر حاضری اس کی زبانی تاریخ ہونے کی ممکنات میں اضافہ کرتا ہے ۔ اب ذرا زبانی تاریخ کا جدید تاریخی دائرے میں تجزیہ کیا جائے۔۔۔
دور جدید کے پیشہ ور مورخ صنعتی معاشروں میں رہتے ہیں ۔وہ زبانی روایات کی بِنا پر ماضی کی تشکیل سے ناخوش ہیں بلکہ اس عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو دستاویزات کے بجائے زندہ لوگوں کی شہادتوں پر منحصر ہے۔(2) عام طور پر زبانی تاریخ کے ماخذات کو اس لئے تنازع خیال کیا جاتا ہے کیونکہ انیسویں صدی میں طبعی سائنس کی برق رفتاری ترقی کی وجہ کو اثباتیت کہا گیااور اس اثباتیت سے حقیقت تک پہنچنے کے لئے کُلیے تراشے گئے جبکہ اثباتیت پسندوں نے کوشش کی کہ سوشل سائنس کو بھی کُلیے میں رکھا جائے تو اس کی ترقی بھی ممکن ہوگی ، جس سے ابہامیت ختم ہوگی اور مابعدالطبعیات کے شور سے کسی حد تک نجات ممکن ہوگا۔ اس امر سے سوشل سائنس کو کمپارٹمنٹلائزیعنی درجوں میں تقسیم کیا گیااس سے زبانی الفاظ کی قدریں مٹتی رہیں۔اس عمل سے مورخ تین قسم کے دستاویزات پر بھروسہ کرنے لگے۔ ان کے لئے سب سے اہم چیز متن کی صحت ہے ، اس کے بعد شہادت کا درست ہونا، اور پھر شہادت کو تسلیم کرنا۔جب یہ شہادتیں درست مانی جائیں تو یہ فن کا ایک نمونہ ہوتی ہیں۔ شہادت کا کسی دوسرے متن سے مقابلہ کر کے اس کی صداقت کو جانچا جاتا ہے اور تب جا کر اس پر غور کرکے اسے تسلیم کیا جاتا ہے اگر یہ پورامرحلہ طے پائے تو تقویم کو درست کرتے ہوئے اسکی روشنی میں واقعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔(3) مگر تاریخ کو پیش کرنے کا یہ عمل رانکےؔ کا طریقہ کار ہے جبکہ زبانی تاریخ کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے کی نگاہ سے تاریخ کو دیکھنے میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ رانکے کے طریقہ کار کے علاوہ تاریخ کو سمجھنے اور اسکی تشکیل کے کئی اور بھی طریقے ہیں۔(4)
زبانی تاریخ کو جدید تاریخ کے دامن میں رکھتے ہوئے آرتھر مارکؔ کا نقطہ نظر، یہ ہے کہ وہ تاریخ جو دستاویزات کی مدد کے بغیر لکھی جائے وہ نہ صرف غیر اطمینان بخش ہوتی ہے بلکہ سطحی بھی ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہ تاریخ ہی ہوتی ہے۔(5) اس نقطہ نظر کی علمبردار ژان واسیناؔ سمجھتی ہیں کہ زبانی روایت کو تاریخ کی تشکیل کی ذمہ داریاں اس وقت دی جاتی ہیں جب کوئی تحریری مواد موجود نہ ہو ۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ زبانی روایت تحریری مواد کی طرح کام نہیں کرتی لیکن زبانی روایت میں جو کمی ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کوششوں کو سراہنا چاہئے جو تاریخ کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں کی گئیں ہیں۔ اگر چہ وہ جامع تو نہیں لیکن تاریخ کی بنیاد زبانی روایت نے ہی فراہم کی۔زبانی روایت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے جانچنے کا مسئلہ ہے کیونکہ ان کا تقابلی جائزہ لینا محال ہے، لیکن علامات اور تحریری زبان انسان کا سب سے بڑا عظیم کارنامہ ہے کیونکہ جس کی وجہ سے ایک بات دوسرے تک پہنچائی جاتی ہے۔(6) مگر یہ کام کسی حد تک زبانی روایت نے بھی سر انجام دیا کیونکہ زبانی شہادتیں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہتی ہیں اور ان سے معاشرے کے ماضی اور ثقافت کی تشکیل ہوتی ہے اور یہ روایت معاشرے کی خواندگی کی شرح میں اضافے سے کمزور پڑجاتی ہیں۔(7) اگر زبانی روایات کے مواد ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیے جائیں تو اس کے لئے ذہنی کاوش کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ اس کے لئے کسی مقصد کا ہونا ناگزیر ہے بلکہ امانوئیل ڈرکھائم کے نزدیک زبانی روایات سے معاشرے کی ساخت کو اسی شکل میں برقرار رکھنے کا مقصد حاصل کیا جاتا ہے۔(8) لیکن زبانی روایات تمام تر احتیاطوں کے باوجود ماضی کے متعلق درست معلومات دینے سے کسی حد تک قاصر رہتی ہے کیونکہ انسانی یاداشت کی بھی کچھ کمزوریاں ہیں۔(9)البتہ بلوچی زبان کو تحریری تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنے کے لئے تین مارکسی نکات سے گزرنا ہوگا، اول،بلوچی زبان کو زبانی روایت سے تحریری پوزیشن میں جگہ بنانی ہوگی۔ دوئم، جب تحریری پوزیشن پیداہوگی تو زبانی روایت کسی حد تک معدوم ہوجائیں گی ۔ سوئم، اس ترقی کے مدارج کو طے کرتی ہوئی اسے مخلوط ثقافت پیدا کرنی ہوگی جس میں زبانی روایت اور تحریری پوزیشن دونوں چیزیں شامل ہوں گی۔ اس سے بلوچ اپنی تاریخ میں جدلیات کے عمل کو تلاش کرتے ہوئے فلسفے کو پروان چڑھائے ۔

حوالہ جات
1۔ ماہتاک سنگت کوئٹہ، شمارہ جنوری 2014، صفحہ نمبر18
2۔ ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس 2001)، صفحہ نمبر115
-3ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس 2001)، صفحہ نمبر 121
4۔ ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس 2001)، صفحہ نمبر 122
5۔ ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس 2001)، صفحہ نمبر 115
-6ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس 2001)، صفحہ نمبر 117, 118
-7 ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس ، صفحہ نمبر 122
-8ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس -9 ڈاکٹر مبارک علی، جدید تاریخ (لاہور: فکشن ہاؤس ، صفحہ نمبر 123

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے