تحریر: ( بلوچی) غوث بخش بزنجو
تلخیص وترجمہ:۔ محمد یوسف اسسٹنٹ پروفیسر بلوچی

گل خان نصیرؔ سے میری شناسائی اُن دنوں ہوئی جب سال1928ء کو میں حصولِ تعلیم کیلئے کوئٹہ گیا۔ میَں پرائمری سیکشن میں جبکہ گل خان مڈل سیکشن میں زیر تعلیم تھا۔ بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے گئے اورایک دوسرے سے قریب تر ہوتے گئے۔
گل خان نصیرؔ ایک پیدائشی اور فطری شاعر تھا، اُس کی سیاست ،جدوجہد اور شاعری ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ گل خان نصیرؔ خود کہا کرتا تھا کہ شاعر کو عوام کے ساتھ جُڑا ہونا چاہئے۔ عوام جو ایک بہتر زندگی کیلئے جدوجہد کررہے ہوں شاعر کو اُن کے شانہ بہ شانہ چلنا چاہیے۔اُس کے مطابق عوام سے کٹ کر شاعرشاعر نہیں رہتا اور اُس کی شاعری ناکارہ شے بن جاتی ہے۔ گل خان نصیرؔ کی پوری زندگی اور شاعری عوام کے ساتھ وابستہ رہی۔
میں نے اُسے بارہا کہا کہ وہ سیاست کی جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے اپنی شاعری پر مکمل دھیان دے لیکن وہ قدیم بلوچی شاعری سے مثال دے کر کہا کرتا:
؂ شیئراں ہما مرد جننت
(کہ) وت موہری دعویٰ کننت
میرے خیال میں وہ صحیح تھا واقعی شعر وہ لوگ ہی کہہ سکتے ہیں جو جنگوں کے دوران ہراول دستے میں شامل ہوں ،بلاشبہ ہمارے قدیم شعراء نے قومی اور عوامی موضوعات پر کافی کچھ کہا ہے لیکن گل خان نصیرؔ بلوچ شعراء میں پہلا شاعر ہے جس نے ایک باقاعدہ صنف کی شکل میں قومی اور عوامی شاعری کی صورت گری کی۔
گل خان نصیرؔ نے بلوچوں کے قومی تشخص کو اُبھارا،اس نے بلوچوں کو گراں خوابی سے بیدار کرتے ہوئے قومی شعور سے آراستہ کیا۔ بلوچستان میں حقیقی قومی شاعری کی ابتداء گل خان ہی سے ہوئی۔ اُس کی پوری شاعری اپنی قوم اور عوام کیلئے ہے۔
گل خان نصیرؔ کے بعد کے شعراء نے ہر چند کہ خود کو الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ گل خان نصیرؔ کی شاعری کے اثرات سے خود کو نہ بچاسکے۔ اوّل تو یہ دور قومی سیاست کا دور تھا، دوم یہ کہ گل خان نصیرؔ کو اس میدان میں کماندار کی حیثیت حاصل تھی۔ اس نے اپنی شاعری کے ذریعے قومی فکر کو ترقی دی۔ شاعر کے ساتھ ساتھ وہ ایک صابر اور بُردبار سیاستدان بھی تھا۔
سیاست کے میدان میں گل خان نصیرؔ اور میَں سال1939ء میں ایک ساتھ ملے ۔اُن دنوں میں علی گڑھ میں زیر تعلیم تھا۔ اس دوران میں کراچی چلاآیا۔ کراچی میں انہی دنوں’’بلوچ لیگ‘‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی قائم کی گئی تھی۔ مجھے اس پارٹی کا نمائندہ بنا کر مستونگ بھیجا گیا۔ جہاں قلات نیشنل پارٹی کا جلسہ ہونے والا تھا یہاں اس امر کی وضاحت کرتا چلوں کہ اُن دنوں بلوچستان کے متعلق تمام سیاسی تحاریک کا محور و مرکز کراچی ہوا کرتاتھا۔ سیاسی معاملات کے سلسلے میں کسی شخص کو اندرون بلوچستان جانے کی اجازت نہیں تھی۔1935ء سے قبل بلوچستان میں اخبارات تک لے جانے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی ہندوستان کے کسی سیاسی رہنماء کو بلوچستان میں داخلے کی ا جازت تھی۔ ایک دو مرتبہ خان عبدالغفار خان نے بلوچستان جانے کی کوشش کی تو اسے جیکب آباد سے واپس کیا گیا۔ مختصراً یہ کہ سال1927ء کے بعد بلوچستان کے بارے میں شروع ہونے والی تمام تحاریک کا مرکز سندھ و کراچی ہوا کرتا تھا۔ پہلی اور دوسری ’’بلوچ کانفرنس‘‘ سندھ میں منعقد کئے گئے،’’بلوچ لیگ‘‘ کا تعلق بھی بلوچستان ہی کے سیاست سے تھا، میں’’بلوچ لیگ‘‘ کے نمائندے کی حیثیت سے قلات نیشنل پارٹی کے جلسے میں شریک ہونے مستونگ پہنچا۔ جب میں جلسہ گاہ پہنچا تو دیکھا کہ جلسے کو روکنے کیلئے سرداروں کا لشکر لیویز اور پولیس کے ہمراہ موجود تھا چونکہ جلسے کے شرکاء مسلح تھے اس لئے سرداروں کے لشکر کو جلسہ روکنے کی ہمت تو نہ ہوسکی البتہ لیویز اور پولیس نے پارٹی کا جلسہ روک لیا۔ پارٹی پر پابندی لگ چکی تھی اور کچھ رہنماء گرفتار کرلئے گئے اور کچھ کو ریاست بدر کیا گیا جو کوئٹہ چلے گئے۔ ریاست کے وزیر تعلیم میر فاضل خان،انسپکٹر تعلیم مرزا فیض اﷲ، پارٹی صدر ملک عبدالرحیم، مولانا عرض محمد، مولانا محمد عمر بھی ریاست بدر ہونے والوں میں شامل تھے۔ میں قلات جاکر خان صاحب سے ملا اور اُس سے کہا کہ بلوچستان کی واحد سیاسی تحریک تھی جو آپ نے انگریزوں کے کہنے پر ختم کردی لیکن وہ کچھ سننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ نتیجتاً مجھے چند دن نظر بند کرکے رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد میں نے پارٹی کیلئے کام شروع کردیا۔ ہماری کوشش تھی کہ پارٹی کے حامی ریاستی ملازمت چھوڑ دیں ۔دوستوں نے مجھے یہ ذمہ داری سونپ دی کہ میں پارٹی حامیوں سے ملوں۔ میں اس سلسلے میں نائب وزیر مکران عبدالعزیز کسٹم آفیسر جیونی میر گل خان نصیرؔ ،پسنی میں میر حمل خان اوربہرام خان سے ملا اسی دوران مجھے مکران بدر کیا گیا میں جلاوطن ہوکر کوئٹہ چلا آیا۔ کچھ مہینے بعد ہمارے دوست نوکریوں سے استعفیٰ دیکر کوئٹہ میں یکجاہوئے۔ جلاوطنی کی وجہ سے دوستوں میں قربت مزید بڑھ گئی۔ میری اور گل خان نصیرؔ کی دوستی آخر دم تک برقرار رہی۔ وہ میرے اس قدر قریب رہا کہ دوبھائیوں کے درمیان شاید ہی اتنی قربت ہو۔
اس دوران ہماری پارٹی اور علاقائی سیاست میں کافی اُتھل پُتھل ہوئی۔ نیشنل پارٹی پر پابندی عائد تھی کہ قلات کی آزادی کا اعلان ہوا۔
جناح صاحب نے خانِ قلات سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کو کہا۔ اس دوران الیکشن ہوئے، دارالعوام کے ممبران کی اکثریت کا تعلق ہماری قلات نیشنل پارٹی سے تھی۔ قلات نیشنل پارٹی نے ’’دوستی کا سمجھوتہ‘‘ کرنے کی تجویز دی جس کی وجہ سے نیشنل پارٹی والوں پرعتاب نازل ہوا،اور سینکڑوں پارٹی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔
1954ء کے بعد میر گل خان نصیرؔ اور ہم نے ایک نئی پارٹی’’ استمان گل‘‘ کی بنیاد رکھی ایک سال بعد پاکستان کی تمام قوم پرست جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا فیصلہ کیا ۔پنجاب سے میاں افتخار الدین، صوبہ سرحد سے خان عبدالغفار خان ،سندھ سے جی ایم سیّد، عبدالمجید سندھی اور میر حیدر بخش جتوئی اور بلوچستان سے میَں، گل خان نصیرؔ ، خان عبدالصمد اچکزئی،اور عبدالرحیم یکجا ہوئے۔ کافی بحث ومباحثے کے بعد ایک ایسی پارٹی تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا، جس میں بائیں بازو کی تمام پارٹیاں مدغم ہُوں۔پارٹی کا نام’’ پاکستان نیشنل پارٹی‘‘ رکھ دیا گیا ، یہ سال1955ء کی بات ہے، خان عبدالغفار خان کو نئی پارٹی کا سربراہ چُن لیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں سہروردی اور بھاشانی کے مابین’’سویز‘‘ کے مسئلے پر جھگڑا ہوا۔ بھاشانی عوامی لیگ سے الگ ہوکر ہمارے ساتھ مل گیا اُس کی آمد کے بعد پارٹی کا نام بدل کر’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ رکھ دیا گیا۔
اس دوران گل خان نصیرؔ میرے ہمراہ تھا ہم کبھی جیل میں ہوتے اور کبھی جلاوطن، انسان باہم جتنے قریب ہونگے اتنی ہی ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ایک دوسرے پریقین پُختہ ہوگا۔ میَں اور گُل خان نصیرؔ ویسے تو دو بدن تھے لیکن ہماری جان ایک تھی، ہماری فکر ایک تھی۔اپنی سیاسی خیالات کی وجہ سے ہم کبھی جیل میں ہوتے اور کبھی جیل سے باہر ۔ایوبی دور میں ہم تقریباً نومہینے تک قلی کیمپ میں اور دوسال حیدر آباد جیل میں ساتھ رہے۔
گل خان نصیرؔ کی تمام زندہ شاعری جیلوں میں ہی تخلیق ہوئی۔ اُس کی بہترین نظمیں قُلی کیمپ، کوئٹہ جیل یامنٹگمری(ساہیوال) جیل میں لکھے گئے۔
1970ء میں عام انتخابات ہوئے ہم نے انتخابات میں حصہ لیا ۔میر گل خان نصیرؔ نے چاغی کے حلقے سے بلوچستان کے سب سے بڑے سرمایہ دار نبی بخش زہری کا مقابلہ کیا۔ گل خان نصیرؔ کا میاب ہوکر بلوچستان اسمبلی میں سینئر وزیر کے عہدے پر متعین ہوا، میَں گورنر، سردار عطاء اﷲ مینگل وزیراعلیٰ ، اور نواب خیر بخش مری پارٹی صدر بنا ۔اس دوران بھٹو نے شاہِ ایران اور امریکی سازش سے بلوچستان پر حملہ کردیا، جس سے بے حد تباہی اور بربادی پھیلی اس عرصے میں گل خان نصیرؔ مچھ جیل میں جبکہ، میَں،سردار عطاء اﷲ مینگل، اور خیر بخش مری سہالہ میں قید تھے، بعد میں’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ پر پابندی لگادی گئی اور پارٹی کے اکثر رہنماء گرفتار ہوئے، جن میں خان عبدالولی خان، ارباب سکندر خلیل، اجمل خان، غلام محمد بلور، اور دیگر شامل تھے۔ بعدازاں ہم سب کو مختلف جیلوں سے لاکر حیدر آباد جیل میں یکجاکیا گیا، تقریباً کوئی ڈیڑھ سال تک حیدر آباد میں قید رہے۔
؂حیدر آباد گوں یاگیاں پداآباد اِنت
(ترجمہ:۔ حیدر آباد باغیوں سے پھر آباد ہوا)
گل خان نصیرؔ کی یہ تازہ نظم ہم بڑے شوق سے سُنتے۔ اس سلسلہ داروگیر میں گل خان نصیرؔ کی شاعری پر ترقی پسند رجحانات غالب ہوتے جارہے تھے۔اُس کی اِس دور کی شاعری میں دہقان، مزدور اور محنت کشوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔اُس کی شاعری کی ابتداء گل وبلبل سے شروع ہوکر(Aggressive Nationalism)میں تبدیل ہوئی لیکن بعد میں اس کے کلام میں پختگی آتی گئی اور اس کی شاعری پر سوشلسٹ اور ترقی پسند رجحانات غالب ہوئے۔ البتہ اُس کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اُس کا اپنا رنگ ہے ،یعنی نصیرؔ کا رنگ۔
بعد میں ہم جیل سے رہا ہوکر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی(NDP) میں شامل ہوگئے لیکن (NDP) میں افغان انقلاب پر ہمارے اور ولی خان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ ہم افغان انقلاب کے حامی تھے۔ اس مسئلے پر اس قدر تلخی پیدا ہوئی کہ ہمارا پارٹی میں رہنا مشکل ہوگیا۔ نتیجتاً میں، سردار عطاء اﷲ مینگل اور گل خان نصیرؔ نے کراچی میں کنونشن بُلا کر ’’پاکستان نیشنل پارٹی‘‘ بنالی۔ بعد میں سردار عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری نے جلاوطنی اختیار کی۔ ملک میں بدستور مارشل لاء نافذ رہا۔
وہ ایک مخلص انسان اور بہادر دوست تھا اس نے کسی بھی مقام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ البتہ گل خان نصیرؔ کو اس امر کا بے حد احساس تھا کہ ہمارے تباہ حال عوام نے بے انتہا ظلم سہے ہیں اور ہمیں اپنی پالیسیوں میں نرمی لانی چاہئے۔جس کے لئے ہم نے اسے منع کردیا تو اس نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دے دی۔ اس واقعے کے بعد وہ زیادہ عرصے تک نہ جی سکا اور تقریباً کوئی پانچ چھ مہینے بعد وفات پاگیا اِن دنوں میں مشکے جیل میں قید تھا۔ جس کی وجہ سے میں اُس کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکا اور نہ ہی اُس کی مزاج پرسی کیلئے جاسکا۔ البتہ اُس کی بیماری کے دوران میرابیٹا بیزن اسپتال میں اُس کے پاس ہی رہا ۔۔۔ ہماری رفاقت کا ہرہرلمحہ آج تک میرے آنکھوں کے سامنے ہے میَں اُسے کسی صورت نہیں بھول سکتا۔
اُس نے اپنی شاعری کا یہ مجموعہ لکھ کرمجھے بھیج دی جسے میں چھاپنے کی غرض سے سید ہاشمی اکیڈمی کراچی کوپیش کررہا ہُوں تاکہ وہ گل خان نصیرؔ کی یہ امانت بلوچ عوام تک پہنچائیں۔
غوث بخش بزنجو
کراچی،اکتوبر1988ء
(نوٹ:۔ یہ تحریر گل خان نصیرؔ کی شاعری کے مجموعے’’گُلگال‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر میر غوث بخش بزنجونے بلوچی زبان میں لکھی)

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے