بلوشی کئی دنوں سے بھوکی اپنے چھوٹے سے مٹی اور پھونس کی جھونپڑی کے کچے صحن میں اوندھی پڑی تھی ۔ پیٹ کے بل لیٹنے سے بھوک کی شدت میں تھوڑی دیر کے لیے کمی ہوجاتی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور سارا جسم ساکت سا جاگے اور سوتے ہوئے انداز میں تھا ۔ بھوک کا ایک عجیب سا خمار تھا۔ جو اس کے سارے وجود کو گھیرے ہوئے تھا حالانکہ اس کے لیے یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے۔کچھ نہیں بھی ہو تو وہ بھوک اور سانس پر زندہ رہ لیتی تھی۔ مگر اس بار و ہ شکست کھا گئی تھی۔
وہ اسی طرح زمین پر پڑی ہوئی اپنی آنکھیں جو جو کے انتظار میں ٹکائے ہوئے تھی ۔جو جو اس کا جوان بیٹا تھا جو اس کے لیے کئی کوس دور گاؤں سے جنگلی پھل اور پتے لانے گیا تھا۔ پتوں کو وہ ابال کر پیتی اور پھل کھا کر تازہ دم ہوجاتی مگر وہ اب تک نہیں آیا تھا۔
سورج ویسے ہی آگ برسا رہا تھا۔ ساری دھرتی نہ جانے کب سے پیاسی تھی ۔ بارش کا ایک قطرہ بھی آسمان سے نہیں ٹپکتا تھا ۔ بارش کا دیوتا شاید ناراض تھا۔ وہ بادلوں کے ساتھ آسمان سے کہیں دور سورج کی جلتی وادیوں میں کہیں روپوش ہوگیا تھ۔بنجر دھرتی۔دن بھر سسکتی اور رات کو خاموش ہوجاتی۔ بوڑھا آسمان بہرہ اور بے حس ہوگیا تھا۔
درخت سوکھ چکے تھے۔ پتے مر جھا مرجھا کر گر چکے تھے۔ دھوپ کی شدت سے زمین تخرے تخرے ہورہی تھی۔
بلوشی نے کروٹ بدلی اور لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر مٹکے سے پانی نکال کر چند قطرے حلق میں ٹپکائے۔ تھوڑا سا پانی ہونٹوں سے نکل کر گردن پر گر گیا۔
جو جواب تک کیوں نہیں آیا۔
گھر سے نکلتے وقت اس نے کہا تھا۔
ماں! روٹی میں کتنی طاقت ہے ، نرم ملائم سفید روٹی۔کائنات کی سب سے عظیم شے روٹی ہی تو ہے ۔ محبت اور ممتا سے بڑھ کر۔
لیکن آج پانچواں دن تھا اور دونوں ماں بیٹے بھوک سے کلبلا رہے تھے۔ کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ خالی چولہا، خالی برتن، خالی جسم۔۔۔۔۔۔ جب سے جو جو کا باپ مرا تھا ۔ کبھی ایسی حالت نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو کئی سالوں کی خشک سالی کے باوجود بھی اپنے گھر میں چولہا بجھنے نہیں دیتا۔ وہ اپنے قبیلے کا بے حد طاقت ور اور سب سے لمبا تڑنگا جوان تھا۔ بلوشی کو تو وہ اپنے بازوؤں میں ایسے جکڑتا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی گڑیا ہو ۔ اس کی سانسوں کی حدت سے بلوشی کا سارا وجود پگھل پگھل کر ایک نقطہ سا بن جاتا پھر وہ ہانپتی ہوئی اس سے الگ ہوجاتی۔
وہ ہر شام جب شکار سے گھر لوٹتا تو اس کے کاندھے پر کبھی ہر ن اور کبھی دوسرے جانور ہوتے۔ بلوشی اسے بھون کر اس کے سامنے رکھتی۔ دن رات کیسی خوشبو اس کے جھونپڑے میں بسی رہتی۔
وہ لیٹے لیٹے منہ چبانے لگی ۔ اور آنکھیں بند کیے خواب کے آخری سرے تک پہنچ گئی ۔ ایک رات جب اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا اور جنگل کے گھنے لمبے درخت خاموش ہوئے اور جنگل جانوروں کی خوفناک آوازوں سے گونجنے لگا۔ جو جو کا باپ گھر نہیں لوٹا وہ انتظار کرتی رہی۔ گاؤں کے آخری درخت کے نیچے کھڑی سورج کے طلوع ہونے تک۔
مگر بے سود۔ وہ کبھی نہیں لوٹا۔
آج جو جو بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔ رات ہونے والی تھی۔ لیٹے لیٹے اس نے کھجور کے چھجوں سے آتی ہوئی کر نوں کو اپنی نظروں میں سمیٹنا چاہا مگر باہر اندھیرا پھیلنے والا تھا دیے جلا لینا چاہیے ماں کہتی تھی ۔ گھر میں اندھیرا ہونے سے قبل دیے ضرور جلایا کر و ورنہ گھرمیں ہمیشہ اندھیرا رہے گا ۔ اس نے کہنی کے بل اٹھنا چاہا اور اپنے سارے جسم کو سمیٹ کر کھڑے ہونے کی کوشش سے پہلے وہ بیٹھ گئی۔
ہر طرف تو اندھیرا ہے۔ میری زندگی میں اندھیرا میرے گھر اور میری آنکھوں میں اندھیرا میرے پیٹ میں اندھیرا۔ پھر میں کیوں روشنی سے کرن کا قرض مانگوں۔ وہ پھر لیٹ گئی اچانک اس نے آہٹ سنی جو جو گھر میں داخل ہوا تھا۔ وہ خاموشی سے نظریں جھکائے ایک کونے میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس کے ہاتھ خالی تھے۔ مگر پیٹ بھرا تھا۔ بلوشی نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا اس نے ماں کی طرف نہیں دیکھا پھر اس نے بلوشی کی طرف دیکھا، ماں نے اس کی طرف نہیں دیکھا۔
اس کی آنکھوں میں پیٹ بھر جانے کا خمار سا تھا۔
جو جو نے اکیلے ہی۔۔۔۔۔۔ سہم کر حسرت ویا س سے اس نے آنکھیں بند کرلیں ۔بھوک سارے رشتے توڑ دیتی ہے ۔آخری سہارا بھی ختم ہوگیا۔ رونے کے لیے اس کے ہونٹ کھلے لیکن آواز اندر ہی گھٹ کر رہ گئی۔
ایک بار پھر اس کے پیٹ میں اینٹھن شروع ہوئی۔ اور درد کی شدید لہر پورے جسم میں پھیل گئی۔ آہستہ آہستہ وہ لہر اس کے جسم سے نکل کر آسمان کی وسعت میں کھوتی جارہی تھی ۔ اور اس کی بھوک ختم، ہورہی تھی۔ وہ اندھیرے میں ڈوبنے لگی۔ اس کے ہونٹ خشک اور سفید ہوچکے تھے۔ اندر کی طرف دھنسی ہوئی آنکھوں میں بجھتی ہوئی روشنی کی لہریں ماند ہونے لگی تھیں۔ اس کا پیٹ پیٹھ سے لگ گیا تھا۔ لیٹے لیٹے اس نے اپنے پیٹ پرہاتھ پھیرا ۔
وہاں پیٹ تو نہیں تھا۔ صرف ایک دلدل میں دھنسی ہوئی وادی تھی۔
میرا پیٹ کہاں گیا۔ اس نے ایک لمحہ کو سوچا۔
اگر پیٹ نہیں ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔
بے پیٹ کے لوگ کیسے ہوں گے۔ سر ، گردن، کمر اور بس۔
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی لکیرابھری۔ اس کی نظروں کے سامنے بستی کے سارے لوگ ویسے ہی تھے ۔ بونے بونے سے جھکے جھکے سے لیکن وہ سب لوگ بے حد خوش تھے۔ بھوک جو نہیں تھی روٹی کی طلب جو نہیں تھی۔ ان کے چہرے پر خوشیوں کی کہکشاں اور آواز میں مسرتوں کے گیت تھے۔ ہر طرف ہنسی ، خوشیاں اور مسرتیں۔
رات برف کی طرح پگھلتی ہوئی دھیرے دھیرے اپنا وجود صبح کی آغوش میں سونپ رہی تھی۔
جو جو باہر جا چکا تھا ۔ آج بستی کے سارے لوگ بارش کے دیوتا کو منانے کے لیے مشعل کے رقص میں کسی ایک کی قربانی دیں گے ۔ جس کی طرف بھی سردار کی انگلی اٹھ جائے گی۔
رات کے خاموش سناٹے میں رقص کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا تھا۔ خوف سے جانور جھاڑیوں سے نکل کر ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ بستی کے لوگوں کی نظریں سردار کی انگلی کی جانب مرکوز تھیں۔ ایک لمحے کو رقص رکا۔ سکوت ہوا۔ رات ٹھہر گئی اور سردار نے جو جو کی طرف انگلی اٹھا دی ۔ فوراً ہی مبارک اور خوشی کا شور بلند ہوا۔ رقص ، شور اور مشعل کی تیز روشنی میں جو جو کا سر کاٹ کر دیوتا کے قدموں میں ڈال دیا گیا۔
اب بارش کا دیوتا خوش ہوگا۔ اسے زندگی کے لیے موت چاہیے ۔ انسانی تازہ گرم گرم لہو پی کر وہ پھر بادل بھیجے گا اور بارش ہوگی اور ندی نالے ، ساری دھرتی جل تھل ہوجائے گی اور درختوں پر پھل اگیں گے اور کھیتوں میں دانے۔
دوسری صبح سورج زمین پر جھک آیا تھا۔ سب کی نگاہیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ مگر بادل کا کوئی بھی بھولا بھٹکا ادھورا سا ٹکڑا بھی موجود نہ تھا۔
بلوشی کے جھونپڑی کے گرد بستی کے لوگ موجود تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس نے موت کے سیاہ سائے کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس سائے نے اسے سختی سے دبوچ لیا۔ اس کی سانس بند ہونے لگی۔ ایک جھٹکا سا جسم میں لہرایا ۔ چند عورتیں اس کی سانسیں گن رہی تھیں۔ اس کے ہونٹ ہلکے ہلکے ہل رہے تھے۔
میرے جو جو کو لوگوں نے مار ڈالا۔ اسے مار کر کھا گئے اور مجھے ۔۔۔۔۔۔ ایک نوالہ بھی نہیں دیا، مجھے بھوک لگی ہے ۔ میں بھوکی ہوں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے