۔۔۔۔۔۔بڑھیا خاموش ہوئی اور میں اس کے پاس بیٹھا غمگین ہونے لگا۔ مگر وہ آپ ہی آپ کچھ بڑبڑا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اونگھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ شاید وہ دعا پڑھ رہی تھی۔
سمندر سے بادل کا ایک ٹکڑا اوپر اٹھا جو کالا‘ گھنا اور بھاری تھا۔ جسکے کنارے کسی پہاڑی سلسلہ کی چوٹیوں کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ وہ بادل صحرا کی طرف بڑھنے لگا۔ اور جُوں جوں وہ بڑھتا اس کے سر سے کئی ٹکڑے علیحدہ ہو کر بڑی تیزی سے آگے کی طرف بڑھتے اور یکے بعد دیگرے ان کے پیچھے تارے چمکنے لگتے۔ سمندر زیادہ زور سے شور مچانے لگا۔ ہم سے کچھ دور فاصلے پر انگور کے جھنڈوں میں سے بوسوں سر گوشیوں اور آہوں کی سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بہت دور صحرا میں ایک کتّا چیخ رہا تھا۔ ہوا اعصاب کو ایک عجیب بُو سے متاثر کررہی تھی جس سے نتھنے میں گدگدی پیدا ہورہی تھی۔ جوں جوں بادل آسمان پر سے گزتے زمین پر لا تعداد پر چھائیاں نمودار ہوتیں جو پرندوں کے غول کی طرح کبھی غائب ہوجاتیں اور کبھی نموادار ہوجاتیں ۔ چاند کی حیثیت تو محض ایک پھٹے پرانے پیوند کی سی رہ گئی جسے کبھی کبھی بادل کا ایک بہت بڑا ٹکڑا اپنے آپ میں جذب کرلیتا ۔ دور صحرا میں جواب سیاہ اور بھیانک ہوچکا تھا اور اپنے اندر کچھ چھپاتا ہوا معلوم ہورہا تھا، ننھی پیلی چنگاریاں چمک اُٹھیں۔ یہ چنگاریاں کبھی یہاں اور کبھی وہاں لمحہ بھر کے لئے روشن ہوتیں اور پھر غائب ہوتیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بہت سے لوگ صحرا میں اِدھر اُدھر تیلیاں جلا جلا کر کوئی چیز تلاش کررہے ہیں اور ہوا اُن تیلیوں کو بجھا بجھادیتی ہے۔
’’ کیا تمہیں چنگاریاں نظر آرہی ہیں؟‘‘ آرزو گل نے مجھ سے پوچھا۔
’’ کیا تمہارا مطلب ان نیلی چنگاریوں سے ہے؟‘‘ دور فاصلے کی طرف اشارہ کرکے میں نے کہا۔
’’ہاں وہی نیلی چنگاریاں۔ وہ اب تک اڑرہی ہیں۔ مگر میں اب اُنہیں نہیں دیکھ سکتی ۔ میں بہت ساری چیزیں نہیں دیکھ سکتی‘‘۔
’’ وہ چنگاریاں کہاں سے نکل رہی ہیں؟‘‘۔ میں نے بڑھیا سے دریافت کیا۔اگر چہ میں نے ان چنگاریوں کے بارے میں پہلے بھی کچھ سنا تھا۔ لیکن میں اب بڑھیا سے معلوم کرتا رہا تھا کہ وہ ان سے متعلق جانتی ہے۔
’’ وہ چنگاریاں ڈانکوؔ کے جلتے ہوئے دل سے نکلتی ہیں‘‘۔ وہ بولی۔’’ کسی زمانے میں ایک دل ہوا کرتا تھا جس سے ایک روز شعلے بڑھکنے لگے۔۔۔۔۔۔ وہ چنگاریاں اُس دل کے شعلوں سے نکلتی ہیں۔ جس کے متعلق میں تمہیں بتا ؤں گی ۔۔۔۔۔۔یہ ایک پرانی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔پرانی! بالکل پرانی! دیکھو پرانے زمانے میں کیا کچھ ہوا کرتا تھا ۔ آج کل ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ کوئی بڑا آدمی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کہانیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔کیوں ؟ ہاں تو مجھے بتادو ۔۔۔۔۔۔ لیکن تم مجھے نہیں بتاسکتے۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا معلوم ہے ؟ ۔نوجوانوں میں سے کوئی بھی کچھ نہیں جانتا؟ اُف !۔۔۔۔۔۔اُف ۔۔۔۔۔۔ اگر ہم ماضی کا بغور مطالعہ کرتے تو تمہیں تمہارے تمام معموں کا حل مل جاتا۔۔۔۔۔۔ مگر تم ایسا نہیں کرتے ہو ۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمہیں معلوم نہیں زندگی کیونکر گزار ی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ لوگ کس طرح سے جی رہے ہیں ۔میری نظر اب پہلے کی طرح تیز نہیں رہی مگر اس کے باوجود میں سب کچھ جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔ اور میں دیکھ رہی ہوں کہ لوگ جی نہیں رہے بلکہ معاش کی فکر میں گھل رہے ہیں۔ اور اس فکر میں ان کی زندگیاں گزر جاتی ہیں۔ وہ ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو محروم رکھتے ہیں جو اُن کے لئے ضروری نہیں۔ وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور قسمت کارونا روتے ہیں۔ بھلا قسمت کا ان باتوں سے کیا تعلق؟ ۔ہر انسان اپنی قسمت کا آپ فیصلہ کرتا ہے ! مجھے آج کل ہر قسم کے انسان نظر آتے ہیں مگر بہادر اور مضبوط ارادے والے انسان نہیں ملتے! نہ معلوم اچھے اور بہادر خوبر و انسان کیوں روز بروز کم ہوتے جارہے ہیں‘‘۔
بڑھیا انہی خیالات میں کھوگئی اور اس بات پر حیرت زدہ ہوئی کہ اچھے اور خوب رو مرد اور عورتیں کیوں نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ وہ تاریک صحرا کی طرف اس طرح سے گھورنے لگی گویا وہاں اس کا جواب تلاش کررہی ہو۔ میں اس کہانی کے سننے کے لئے خاموش بیٹھا رہا جو وہ سنانا چاہتی تھی کیونکہ مجھے خوف تھا کہ اگر میں مزید کچھ پوچھتا تو وہ پھر موضوع سے آگے گذر جاتی۔
بالآخر وہ بول اُٹھی اور اس بڑھیا نے مجھ سے ذیل کی کہانی بیان کی!
’’بہت زمانے کی بات ہے کہ یہاں اس صحرا میں ایک قبیلہ آباد تھا جو تین طرف سے ایک بہت گھنے جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ قبیلہ کے لوگ خوش مزاج ، مضبوط اور بہادر تھے۔ لیکن ایک دن بدقسمتی نے انہیں آن گھیرا۔کسی نامعلوم علاقے سے بیرونی قبیلے حملہ آور ہوئے اور انہیں جنگل کی طرف بھگادیا۔ جنگل تاریک اور دلدلی تھا کیونکہ جنگل کے درخت بہت اونچے اور پرانے تھے اور ان کی شاخیں آپس میں ایسی ملی ہوئی تھیں کہ آسمان بالکل نظر نہیں آتا تھا اور سورج کی شعاعیں بہ مشکل گھنے پتوں سے ہو کر زمین کو چھوتیں ۔ اور جب سورج کی شعاعیں زمین تک پہنچتیں تو زمین سے اس قسم کی بو اٹھتی جس کی وجہ سے اکثر لوگ مر جاتے۔ تب سے قبیلے کی عورتیں اور بچے رونے لگتے اور مرد شکستہ دل ہوجاتے۔ اب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ اگر انہیں زندہ رہنا ہے تو جنگل چھوڑ دینا چاہیے ۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے اُن کے آگے صر ف دو ہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی سابقہ بستی کو لوٹ جائیں اور دوبارہ اپنے قوی اور بدطینت دشمن کا مقابلہ کریں ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ جنگل میں آگے نکل جائیں ۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کے راستے میں دیوؤں اور جنّوں جیسے درخت حائل تھے جن کی لمبی لمبی شاخیں آپس میں اس طرح گتھّی ہوئی تھیں اور جڑیں اور ریشے دلدلی زمین میں ایسے پیوست تھے جنہیں علیحدہ کرنا بے حد مشکل تھا ۔ دن کے وقت یہ درخت بے حس اور خاموش تاریکی میں استادہ رہتے اور رات کو جبکہ قبیلہ کے لوگ آگ جلاتے تو وہ انکے گرد زیادہ تنگ حلقہ بنا کر سمٹے ہوئے معلوم ہوتے ۔ قبیلہ کے لوگ جو وسیع و عریض صحرا کے عادی تھے رات دن اس تاریک اور بدبودار جنگل میں جو انہیں کچلنے کے لئے تلا ہوا تھا سکڑے ہوئے پڑے رہتے۔ جب کبھی ہوا ان اونچے درختوں کو چھوتی تو تمام جنگل ایک خوفناک سرسراہٹ سے بھر جاتا جس میں موت کا نغمہ گونج اُٹھتا اور اس طرح جنگل اور زیادہ بھیانک ہوجاتا۔ اگرچہ قبیلہ کے لوگ توانا اور مضبوط تھے اور اُس دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے جس نے انہیں تباہ کیا تھا۔ لیکن چند روایات کے بچانے کے لئے وہ جنگ میں کٹ مرنے کی جرات نہیں کرتے تھے کیونکہ اگر وہ مارے جاتے تو ان کے ساتھ ان کی روایات بھی مٹ جاتیں۔ اس فکر میں وہ جنگل کی سرسراہٹ اور زہریلی بدبو میں لمبی راتیں سوچتے سوچتے گزارتے۔ جو نہی وہ آگ کے گرد بیٹھتے ان کے آس پاس خاموش پر چھائیاں ناچنے لگتیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ یہ پرچھائیاں نہیں بلکہ جنگل اور دلدل کی بری روحیں فتح کی خوشی میں رقص کررہی ہیں۔ اس طرح یہ لوگ بیٹھے رہتے اور سوچتے رہتے ۔ مردوں کی روح اور جسم کو تباہ کرنے والی چیز نہ مشقت ہے نہ عورت، البتہ غم اور اندوہ ہیں، جو گھن کی طرح انسانی روح کو چاٹ جاتے ہیں۔
اس طرح قبیلہ کے لوگ اپنے غم کی وجہ سے کمزور ہوتے جاتے تھے۔ خوف نے ان میں جنم لے کر ان کے بازوؤں میں ہتھکڑیاں ڈال دی تھیں ۔ زہریلی بدبو سے مرنے والوں کی لاشیں اور جینے والوں کے بازوؤں میں ہتھکڑیاں دیکھ کر عورتیں چیختی رہتیں اور اس نظارے سے خوفزدہ رہتیں۔ جنگل میں ہر طرف بزدلانہ اورپست ہمتی کے الفاظ سنائی دینے لگے۔ پہلے تو یہ الفاظ دھیمے اور کمزور تھے لیکن رفتہ رفتہ اونچے سنائی دینے لگے۔۔۔۔۔۔ اب لوگ اس بات کے لئے آمادہ تھے کہ وہ جا کر دشمن کو اپنی آزادی نذرانہ کے طور پر پیش کریں ۔ سب کے سب موت کے خوف سے دہشت زدہ تھے ۔ اور اس زندگی پر غلامی کوترجیح دیتے تھے ۔۔۔۔ عین اس وقت ڈانکوؔ جیسا بہادر نمودار ہوا اور اس نے بغیر کسی کی مدد کے سب کو بچالیا ‘‘۔
بڑھیا کے روان اور مترنّم لہجہ سے عیاں تھا کہ وہ ہمیشہ سے ڈانکوؔ کے جلتے ہوئے دل کی کہانی سناتی چلی آئی تھی۔ اس کی آواز نے جو مدھم اور مسلسل تھی میرے ذہن میں واضح طور پر اس جنگل کاتصورپیدا کیا جس میں قبیلہ کے بد قسمت لوگ دلدل کی بدبو سے جان دے رہے تھے۔
’’ ڈانکوؔ جو خوب رو جوان تھا‘ اسی قبیلہ کے لوگوں میں سے ایک تھا۔ خوب رو انسان ہمیشہ بہادر ہوتے ہیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’ تم محض سوچ سوچ کر پہاڑ کو راستے سے نہیں ہٹا سکتے۔ جو لوگ کچھ نہیں کرتے انہیں حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا۔ ہم کیوں اپنی توانائی غم اور فکر میں گنوارہے ہیں؟۔ اٹھ کر کھڑے ہوجاؤ! ۔آخر اس جنگل کی کوئی انتہا بھی ہوگی۔ آؤ اسے کاٹ کر اپنا راستہ بنالیں! ۔۔۔۔۔۔ دنیا میں ہر ایک چیز کی انتہا ہوتی ہے! آؤ چلیں! چلے آؤ‘‘ ۔
ان سب نے اس کی طرف نظریں اٹھالیں اور معلوم کیا کہ وہ ان میں سے بہترین انسان ہے۔ کیونکہ اس کی نگاہوں سے قوت اور جذبہ کے شعلے برس رہے تھے۔
’’ تم ہماری رہبری کرو‘‘۔ انہوں نے التجا کی۔
’’ اور اس نے ان کی رہبری کی ۔۔۔۔۔۔‘‘
بڑھیا رک گئی اور صحرا کو جہاں تاریکی اور زیادہ ہوتی جارہی تھی گھورنے لگی ۔ بہت دور صحرا میں ڈانکوؔ کے جلتے ہوئے دل سے چنگاریاں اُن نیلے پھولوں کی طرح اُڑتی رہیں جو صرف لمحہ بھر کے لئے کھلتے ہوں۔
’’اور اس طرح ڈانکو نے انکی رہبری کی ۔ سب مل کر ایک وجود کی طرح اس کے پیچھے چلتے رہے ۔ کیونکہ انہیں اُس پر اعتماد تھا۔ راستہ بے حد دشوار گزار اور تاریک تھا۔ قدم قدم پر دلدل اپنا حریص شکم کھولتی اور انسانوں کو نگل جاتی۔درخت جن کی شاخیں ایک دوسرے میں گتھی ہوئی تھیں اور جن کی جڑیں سانپ کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں انکی راہ فولادی دیوار کی طرح روک لیتے۔ ہر قدم پر ان کا بے حد خوف اور پسینہ صرف ہوتا ۔ وہ اپنی راہ صاف کرنے کے لئے بہت عرصہ تک لڑتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے جنگل زیادہ گھنا ہوتا جاتا اور ا ن کی طاقت جواب دینے لگتی! اس لئے وہ ڈانکوؔ کے خلاف بڑ بڑانے لگے اور اس کی نو عمری اور نا تجربہ کاری کی شکایت کرنے لگے۔ وہ کہتے کہ اسے معلوم نہیں وہ ہمیں کہاں لے جارہا ہے۔ لیکن ڈانکوؔ ان کے آگے آگے خوش اور سنجیدہ جارہا تھا۔
’’ ایک روز جنگل میں آندھی آئی اور درخت آپس میں رازدارانہ انداز میں سر گوشی کرنے لگے اور دھمکی دینے لگے۔ جنگل میں ایسی تاریکی چھا گئی گویا جب سے جنگل وجود میں آیا تھا اُس وقت سے لے کر اب تک جتنی راتیں تھیں وہ سب اس ایک جگہ میں جمع ہوگئی تھیں۔ اور یہ حقیر انسان طوفان کے شوروغل میں قوی ہیکل درختوں میں سے اپنا راستہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر آگے بڑھتے جارہے تھے اور اونچے اور جھومتے ہوئے درخت ان کے اوپر قہر آلود انداز میں ٹوٹ ٹوٹ کر شور مچا رہے تھے۔ بجلی ان درختوں کی ٹہنیوں پر کڑک کر اپنی نیلی روشنی سے انہیں راستہ بتلاتی اور جس تیزی سے وہ چمکتی اتنی ہی تیزی سے غائب ہوجاتی۔ لوگ گھبراتے ۔ اور درخت بجلی کی سرد روشنی میں ایسے معلوم ہوتے گویا جاندار ہوں اور اپنے بھدّے بازوؤں سے ان کے گرد زیادہ تنگ حلقہ بنا کر ان کا راستہ روک رہے ہوں اور انہیں اپنی بھیانک گرفت میں جکڑنا چاہتے ہوں۔ شاخوں کی اس تاریکی میں سے کوئی خوفناک سرد اور بھیانک چیز انہیں گھورہی تھی۔ راستہ بے حد دشوار گزار تھا جس کی وجہ سے لوگ چور ہو کر دل شکستہ ہوچکے تھے۔ اپنی کمزوری کے اعتراف کی شرمندگی سے بچنے کے لئے وہ اپنا تمام غصہ ڈانکوؔ پر اُتارنا چاہتے تھے جو آگے آگے جارہا تھا ۔ اور وہ شکوہ کررہے تھے کہ اسے ان کی رہبری کرنا نہیں آتی۔
’’ وہ جنگل کی بری آوازوں اور کپکپاتی ہوئی تاریکی میں غصہ اور تھکاوٹ سے چور یکایک رک گئے اور ڈانکوؔ کو کوسنے لگے!
’’ تم نے خود کہا تھاہماری رہبری کرو!‘ اور میں نے تمہاری رہبری کی‘‘ ۔ڈانکوؔ نے بہادری سے ان کا مقابلہ کر تے ہوئے جواب دیا۔’’ مجھ میں تمہاری رہبری کی جرات تھی۔ اس لئے میں نے تمہیں راستہ بتایا!۔ مگر تم ؟۔ تم نے اپنی مدد کے لئے کیا کیا؟ ۔تم محض چلتے رہے ہو۔ اور اس لمبے سفر کے لئے تم اپنی طاقت بھی برقرار نہ رکھ سکے! تم بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح چلتے ہی رہے !
’’ مگر ان الفاظ سے انکے غصے کی آگ کے بھڑک جانے کے سوا کچھ بھی نہ ہوا۔
’’ تمہیں مرنا ہوگا! تمہیں مرنا ہوگا‘‘ وہ چلاّئے۔
’’ جنگل شور مچاتا رہا اور اس میں ان کی آواز گونجتی رہی، بجلی تاریکی کی دھجّیاں اڑاتی رہی۔ ڈانکوؔ نے ان کی طرف دیکھا جن کے لئے اس نے یہ تمام مصیبتیں برداشت کی تھیں اور دیکھا کہ وہ سب وحشی درندے بن چکے تھے۔ڈانکوؔ کے گرد حلقہ بنا کر جمع ہوگئے تھے ۔ کسی کے چہرے پر کوئی انسانی جذبہ نہ تھا جس سے کہ رحم کی توقع کی جاتی۔ یہ دیکھ کر ڈانکوؔ کے دل میں غصہ کی آگ بھڑک اٹھی لیکن یہ آگ اُس نے اپنی محبت پر غالب نہ آنے دی۔ وہ ان سے محبت کرتا تھا اور اُسے یقین تھا کہ اس کے بغیر وہ تباہ ہو جائیں گے ۔ اس لئے اُس کی دلی تمنا تھی کہ وہ انہیں بچائے اور انہیں کسی آسان راستے پر لگائے۔ اس عظیم تمنا کی جھلک اس کی نگاہوں میں پائی جارہی تھی ۔ مگر لوگوں نے یہ سمجھا کہ اُس کی نگاہوں میں غصے کے شعلے چمک رہے ہیں۔ وہ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے بھیڑیوں کی طرح تیار تھے۔ وہ اس کے قریب ہونے لگے تاکہ اسے پکڑ کر قتل کردیں ۔ ڈانکوؔ نے ان کے ارادے کا اندازہ لگالیا۔ جس کی وجہ سے اس کے دل کی آگ اور زیادہ شعلہ زن ہوگئی اور ان کے اقدام نے ڈانکو ؔ کو غمگین کردیا۔
’’ جنگل اپنا ماتمی نغمہ سنانے میں مصروف تھا۔ بادل گرجے اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ میں ایسے لوگوں کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟ ڈانکوؔ اس طرح سے چلاّیا جس سے گرج کی آواز مدھم پڑ گئی‘‘۔
’’ اچانک اُس نے اپنے سینے پر وار کیا ۔ اور چیر کر اپنا دل باہر نکال دیا اور اسے اپنے سرسے اوپر اٹھالیا۔
’’ وہ سورج سے بھی زیادہ چمک رہا تھا۔ تمام جنگل پر سکتہ چھا گیا۔ اور انسانی محبت کی اس مشعل سے روشن ہوگیا۔ تاریکی جنگل کی گہرائی کی طرف بھاگ گئی اور کانپتی ہوئی بدبودار دلدل کے شکم میں غائب ہوگئی ۔ لوگ حیرت سے جم گئے۔
’’ آؤ چلیں! ڈانکوؔ آگے بڑھ کر چلاّیا اور اس کے جلتے ہوئے دل سے راستہ روشن ہونے لگا۔
’’ وہ مسحور ہوکر اس کے پیچھے دوڑے۔ جنگل پھر شور مچانے لگا۔ درخت حیرت سے لرزنے لگے۔ لیکن جوں ہی لوگ دوڑے یہ تمام شور ان کے قدموں کی آواز میں مدھم پڑ گیا۔ وہ تیزی اور دلیری سے دوڑے۔ اور جلتے ہوئے دل کی معجزانہ روشنی میں کھنچتے چلے گئے۔ اب بھی لوگ مر رہے تھے مگر بغیر آنسو اور شکوہ کے ۔ڈانکوؔ اب بھی آگے آگے تھا اور اس کا دل جلتا ہی رہا۔
اچانک ان کے آگے جنگل ختم ہوا ۔ انہیں باہر نکلنے کے لئے راستہ مل گیا ۔ گھنا اور خاموش جنگل پیچھے رہ گیا۔ ڈانکوؔ اور تمام لوگ سورج کی روشنی اور صاف ہوا کے سمندر میں کود پڑے ۔ ان کے پیچھے جنگل پر آندھی یلغار کرتی رہی۔ مگر یہاں سورج چمک رہا تھا اور صحرا سانس لے رہا تھا۔ گھاس کے پتوں پر بارش کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے اور دریا سونے کی طرح درخشاں تھا۔۔۔۔۔۔ اب شام ہوچکی تھی اور دریا جس پر ڈوبتے ہوئے سورج کی شعائیں منعکس ہورہی تھیں خون کے اس گرم نالے کی طرح سرخ نظر آرہا تھا جو ڈانکوؔ کے چیرے ہوئے سینے سے بہہ رہا تھا۔
بہادر اور سرکش ڈانکوؔ اپنے آگے پھیلے ہوئے صحرا کو طے کرنے لگا ۔ وہ مسرت سے اس آزاد سرزمین کی طرف دیکھتا اور ہنستا ۔ اور اس کی ہنسی میں فخر گونج رہا تھا اور اس کے بعد وہ زمین پر گر کر مر گیا۔
’’ لوگ جو خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور امید سے بھرے ہوئے تھے یہ نہیں دیکھ سکے کہ ڈانکوؔ مر چکا ہے ۔ اور نہ ہی انہوں نے یہ دیکھا کہ اس کا بہادر دل اب تک اس کی لاش کے پہلو میں جل رہا ہے ۔ ان میں سے صرف ایک نے جو زیادہ قوتِ مشاہدہ رکھتا تھا اسے دیکھ لیا اور خوف زدہ ہو کر اس نے اس سرکش دل کو روندڈالا۔۔۔۔۔۔ اور وہ دل چنگاریوں میں بدل کر بجھ گیا۔۔۔۔۔۔
’’ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی صحرا میں طوفان آتا ہے تو اس کے آگے نیلی نیلی چنگاریاں اڑنے لگتی ہیں‘‘۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے