کوئٹہ
سعید کرد
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ پوہ زانت نشست زیر صدارت نا مور افسانہ نگار آغا گل منعقد ہوا ۔ اس نشست میں سب سے پہلے راقم الحروف نے روس کے قومی شاعر الیکساندر پوشکن کے ایک نظم ’’ زند نا شام‘‘ کا براہوئی منظوم ترجمہ سنایا۔ اس کے بعد ڈاکٹر منیر رئیسانی نے ہیپٹائٹس کے حوالے سے معلومات اور اس موذی مرض سے بچاؤ کے طریقوں سے حاضرین مجلس کو آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایک کروڑ مریض اس خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ یعنی دنیا بھر میں ہیپٹائٹس کے سب سے زیادہ مریض پاکستان میں ہیں۔
اس کے بعد سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے ڈپٹی سیکرٹری عابد میر نے اوستہ محمد کے نوجوان افسانہ نگار اسرار شاکر کا افسانہ ’’ اِبنار مل‘‘ پڑھ کر سنایا۔ اس افسانے پر آغا گل ، وحید زہیر اور دیگر دوستوں نے تنقید کیں۔ آغا گل نے کہا کہ نوجوان اور نئے لکھاریوں کو اپنے سینئر سے سیکھنا چاہیے ۔ وحید زہیر نے بھی کہا کہ افسانہ میں کُچھ تشنگی سی محسو ہوتی ہے ۔ پلاٹ کرداروں کے حوالے سے دیگر دوستوں جیند خان جمالدینی، سرور آغا نے بھی تنقیدکی۔ انہوں نے کہا کہ افسانہ میں افسانہ نگار نے کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں جو کہ ادب کے دائرے سے باہر محسوس ہوتی ہیں۔ نشست کے آخر میں بلوچی زبان کے شاعر شاہ محمود شکیب نے موسم بہار کے حوالے سے خوبصورت اشعار خوبصورت لہجے میں سنایا۔ اس نشست میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے مرکزی سیکرٹری جیند خان جمالدینی ، ڈپٹی سیکرٹری عابد میر، ڈاکٹر شاہ محمد مری، ساجد بزدار، پروفیسر جاوید اختر، وحید زہیر، ڈاکٹر منیر رئیسانی، کلا خان، شاہ محمود شکیب، ڈاکٹر جہانگیر جبران، خالد میر، کامریڈ کلیم، مسٹرسمالانی،اور ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو نے شرکت کیں۔ جبکہ نظامت کے فرائض راقم الحروف ( سعید کُرد) نے سرانجام دیتے اور اس طرح جشن نو روز کے آخری ایام میں سنگت پوہ زانت اگلی نشست تک برخاست ہوئی۔
************************

کوئٹہ
عابد میر
سنگت اکیڈمی کی ماہانہ فکری نشست پوہ و زانت کی نشست کا اہتمام19پریل کی شام اکیڈمی کے دفتر میں ہوا۔ اس نشست کے شرکا میں شامل تھے؛ ڈاکٹر بیرم غوری، سرور آغا، شاہ محمود شکیب، جیئند خان جمالدینی، وحید زہیر، ڈاکٹر عطااللہ بزنجو، عابد میر، کامریڈ کلیم، جاوید اختر، ساجد بزدار، کلا خان،خیر جان، شاہ محمد مری،محمد اکرم لالا، اکبر نوتیزئی، عبداللہ دشتی، خالد میر، شیر دل غیب اور عابدہ رحمان۔صدارت پروفیسر بیرم غوری کے ذمے ٹھہری۔
سنگت کی اس نشست میں اس بار ایک نئی ساتھی عابدہ رحمان نے اپنا افسانہ پیش کیا۔ عابدہ رحمان کافی عرصے سے اخبارات و رسائل میں لکھتی رہی ہے، لیکن باضابطہ ادبی دنیا سے اس کا تعارف نہیں رہا۔ اس نے چند ہی افسانے لکھے ہیں اور خود کو نوآموز ہی سمجھتی ہے۔ اس مجلس میں اس نے اپنا ایک ابتدائی افسانہ ’بارش کے قطرے‘ پیش کیا۔ جو ایک کوٹھے کی طوائف اور ایک نوجوان ڈاکٹر کے درمیان جنس، گناہ، اور سماجی ضابطوں سے متعلق مکالمے اور ان کے بیچ جڑنے والے رومانوی تعلق سے ممیز تھا۔افسانے کی قرأت مکمل ہونے کے بعد اس پہ گفت گو آغاز کرتے ہوئے شاہ محمد مری نے اسے ایک میچور افسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بالکل نہیں لگتا کہ یہ کسی نئے لکھنے والے کی تحریر ہے۔ اُس بازار کی ٹرمنالاجیز کا استعمال خوب ہے۔ پھر جہاں آکرکہانی کوروکاہے، وہ تو نہایت خوب ہے۔ میرے خیال میں تو ایک اچھا اور کامیاب افسانہ ہے۔ میری طرف سے مصنفہ کو مبارک باٖد۔
جاوید اختر نے کہا کہ بالکل ایک اچھا اور کامیاب افسانہ ہے۔ بلاجھجک لکھا گیا ہے۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ جس طرح کی فضا بیان ہوئی ہے، وہ لکھنؤ سٹائل کی لگتی ہے ، کچھ مقامی نہیں ہے۔ساجد بزدار نے کہا کہ بلاشبہ خوب صورت افسانہ ہے۔ اچھی ٹریٹمنٹ ہے۔ اس موضوع پہ اردو میں بہت لکھا گیا ہے، اس لیے اس میں نیا پن لانا مشکل ضرور ہے۔ جیسے سندر بائی(کہانی کا مرکزی کردار) کے مکالمے میں بانو قدسیہ کے ’راجہ گدھ‘ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ میرا خیال ہے کہ سمیٹنے میں ذرا جلد بازی دکھائی ہے۔ اسے شاید ایک نظر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ زبان کو ذرا نرم اور مہذب بنایا جا سکتا ہے۔وحید زہیر نے کہا کہ نہایت بولڈ افسانہ ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں ایسا لکھا نہیں جاتا۔ مصنفہ کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔کہانی اصل میں معاشرے کو ٹارگٹ کرتی ہے، اسے اپنی بات پہنچانی ہوتی ہے۔ اس کے لیے زمان و مکان نہیں، تفہیم اہم ہے۔ اور یہ کہانی اپنے موضوع کی بھرپور تفہیم کرتی ہے۔ سادہ اور روایتی انداز میں لکھی گئی ہے، لیکن یہ ثابت کرتی ہے کہ لکھاری، افسانے کو سمجھتی ہے۔ اپنے اردگرد پہ زیادہ اچھا لکھ سکتی ہے۔ ڈاکٹر عطااللہ نے کہا کہ عورت اور مرد کے تعلق سے متعلق جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس میں الفاظ کا انتخاب بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اکرم لالا نے کہا کہ عمومی رحجان یہ ہے کہ عورت کو ضرورت سے زیادہ مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے،جس سے اس کا اصل تشخص مجروح ہوتا ہے۔ میرے خیال میں بہتر ہے کہ اس کے اصل کردار کو یعنی برابری کی سطح پر پیش کیا جائے۔ جیئند خان کا کہنا تھا کہ اچھا افسانہ ہے۔ البتہ اختتام کو دوبارہ دیکھنا چاہیے اور اسے بامقصد ہونا چاہیے۔ اس سے اختلاف کرتے ہوئے شاہ محمد مری نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر اختتام کو چھیڑا گیا تو کہانی کا ستیاناس ہو جائے گا۔ شاہ محمود شکیب نے مختصراً کہا کہ لکھنے والا ہمیشہ اپنے انداز میں چیزوں کو دیکھتا اور زیبِ قرطاس کرتا ہے، اسے آزاد رہنا چاہیے، جکڑنا نہیں چاہیے۔ شیر دل غیب کا خیال تھا کہ کہانی میں لکھنؤ والا ماحول ہے، بلوچستان کا پس منظر نہیں آیا۔ بہتر ہو گا کہ اپنے معاشرے پہ لکھا جائے۔
اس بحث کے خاتمے پہ صدرِ مجلس نے گفت گو سمیٹتے ہوئے کہا کہ افسانہ بنیادی طور پر افسوں سے ہے، یعنی ایلیٹ کے الفاظ میں، اس میں تاثیر ہو، تاثر ہو، فہم اہم نہیں ہے۔ کسی فن پارے کو مخصوص تہذیب اور ڈسپلن میں لایا جائے تو تاریخ کی سانسیں رک جائیں گی۔ موضوع، خود اپنی جگہ پیدا کر لیتا ہے۔ طوائف پہ اردو میں منٹو اور عصمت نے بہت لکھا۔ جدید عہد کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ رشتوں کی قید کے بغیر انسان کی شناخت ممکن نہیں۔ یہ افسانہ اسی بنیادی خیال کے گرد بُنا گیا ہے۔ طوائف کی اپنی کوئی شناخت نہیں، اسے اپنانے والا مرد بھی اسے شناخت نہیں دیتا بلکہ حقِ ملکیت کے بہ طور اپناتا ہے۔ اور یہ پوری ذات کا مسئلہ ہے، طوائف یہاں بہ طور علامت آئی ہے۔ بارش جو اس پہ برس رہی ہے، وہ سماجی قیود سے آزادی کی علامت ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔ مزید بہتر ہو سکتی ہے۔ لکھاری کو عورت اور مرد کی نفسیات کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس لیے مکالموں میں کہیں نفسیاتی کجی دَر آئی ہے۔ مجموعی طور پر قابلِ داد ہے۔
نشست کے دوسرے حصے میں شاہ محمد مری نے ہنگلاج کی سیر سے متعلق اپنا تازہ مضمون پڑھا۔ بلوچستان کے سحر انگیز حسن کا تذکرہ اور شاہ محمد مری کا جادوئی بیان؛ کان چاہئیں سننے کو، دل چاہیے محسوس کرنے کو۔ کسی کی کیا مجال کہ ایسی تحریر کی تلخیص کسی رپورٹ کا حصہ بنا سکے۔ اس جادو بیانی کا لطف لینا ہو تو ’سنگت‘ کا تازہ شمارہ ملاحظہ کیجیے۔ طویل مضمون کے خاتمے پر ،حاضرین سمیت صدرِ مجلس نے خوب داد دی اور اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ یہ بلوچستان کا پہلا رپورتاژ ہو گا، جو یہا ں کی مائتھالوجی سے گندھا ہوا ہے۔ انسانی شعور کا آغاز ہی مائتھالوجی سے ہوتا ہے، پانچ ہزار سال پرانی’رگ وید‘ اور ساڑھے تین ہزار سال پرانی ’گل گامش کی داستان‘ کے بیچ پڑا ہوا ہے یہ رپورتاژ۔ ہنگلاج کا تذکرہ ان قدیم ترین تحریروں میں بھی ہوا ہے۔ اس لیے ان حوالوں کے ساتھ یہ رپورتاژ بلوچستان کی تہذیبی شناخت سے بھرا ہوا ہے۔ میں ایک کامیاب رپورتاژ پر مری صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس سے بلوچستان کی ایک تہذیبی پرت کھلے گی، جو نامکمل ہے۔
نشست کے اختتام پر بلوچستان کے نام ور صاحبِ دانش ، اہلِ علم و قلم سلطان نعیم قیصرانی کی وفات پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے ان کے حق میں وحید زہیر کی قیادت میں دعائے مغفرت کی گئی۔ آخر میں ،آئندہ ماہ سنگت کانفرنس کے حوالے سے مرکزی ممبران کا اجلاس 20 اپریل کی شام سنگت کے دفتر میں ہونا طے پایا۔ نیز اس موقع پر ’سنگت ریڈرز‘ کلب کی وسعت کی بات ہوئی۔ کچھ ساتھیوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ کچھ نئی کتابوں کے تبادلے کے ساتھ،شال کی بھیگی ہوئی شام میں یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

************************
سنگت سنٹرل کمیٹی اجلاس
سنگت اکیڈمی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس20 اپریل ،سوموار کی شام سنگت کے دفتر میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے شرکا میں شامل تھے؛ جیئند خان جمالدینی، عابد میر، ساجد بزدار، جاوید اختر، وحید زہیر، شاہ محمد مری اور سعید کرد۔
اجلاس کا ایجنڈہ تھا ،ماہ مئی میں ہونے والی سنگت کانفرنس کا انعقاد۔ اراکین کے مابین تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد جن نقاط پر اتفاق ہوا، اس کا خلاصہ درج ذیل ہے؛
*۔۔۔سنگت کانفرنس کا انعقاد 17 مئی 2015، بہ روز اتوار کو ہو گا۔
*۔۔۔صدارت سنگت کے مرکزی سیکریٹری جنرل، جیئند خان جمالدینی کرے گا۔
*۔۔۔ کوئٹہ کا سیکریٹری جنرل ساجد نبی بزدار ،اکیڈمی کا تعارف پیش کرے گا۔
*۔۔۔ نظامت کی ذمہ داری سعید کرد اور ساتھیوں پر ہو گی۔
*۔۔۔ دو مرکزی مقالے پیش ہوں گے:
(الف) ’محنت کی تہذیب‘ کے موضوع پر وحید زہیر مقالہ پڑھے گا۔
(ب) بین الاقوامی ادب کے بلوچی میں تراجم کی ضرورت و اہمیت پہ شاہ محمدمری لکھے گا۔
*۔۔۔ اگلے حصے میں حال ہی میں وفات پا جانے والے اہلِ علم و قلم پہ مختصرمضامین پڑھے جائیں گے۔
۱۔ سلطان نعیم قیصرانی کی ادبی زندگی پہ ساجد بزدار اور سیاست پہ جیئند خان بات کریں گے۔
۲۔ غوث بخش صابر پہ آغا گل مضمون پڑھے گا۔
۳۔ عبدالصمد امیر ی پہ پروفیسر رحیم مہر لکھ کر لائے گا۔
*۔۔۔ سنگت کے مرحوم سینئر ساتھی، پروفیسر عزیز مینگل کی پینٹنگز تقریبات کا حصہ ہوں گی۔
*۔۔۔ دوسرے (شعری) حصے میں بلوچستان کی اہم زبانوں کے چار نمائندہ شاعروں سے بات چیت ہو گی اور ان کی شاعری سنی جائے گی۔
۔ بلوچی : ممتاز یوسف کریں گے۔
۔ براہوی: قاضی عبدالحمیدشیرزاد ۔
– پشتو :درویش درانی ۔
– اردو: بیرم غوری ۔
*۔۔۔بلوچستان کی روایتی میوسیقی کو تقریبات کا حصہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
*۔۔۔ مقام، بلوچی اکیڈمی ہوگا۔
*۔۔۔ اوقاتِ صبح 10تا شام 6 بجے تک ہوں گے۔ جس میں کتابوں کی نمائش صبح سے شام تک جاری رہے گی، تقریبات کا آغاز سہ پہر 3بجے ہو گا۔
*۔۔۔ انتظامی ذمہ داریاں جیئند خان کی سربراہی میں عابد میر اور کامریڈ کلیم انجام دیں گے۔
*۔۔۔ تمام متعلقہ تحریریں مجوزہ تاریخ سے ایک ہفتہ قبل تحریری صورت میں جمع ہوں گی، اور تقریبات کو حتمی شکل دینے کے لیے 10مئی کوہونے والے کو کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش ہوں گی۔

************************

خاران
ضیاشفیع
سنگت پوہ و زانت خارانے ماہانہ دیوان نوزدہ اپریل 2015 ضیا شفیع ے پاگواجہہ ای جم دارگ بوت، دیوانے دو بہر اتاں، اولی بہر ردانک و دومی شاعری۔۔۔۔ دیوانے تہا ساڑی ایں سنگت کلیم ارمان، ارمان آزگ، ظہیر زدگ و سجاد بلوچ اتاں۔ دیوانے اولی بہرے تہا ضیا شفیع ڈاکٹر شاہ محمد مریے نوکیں چھاپ بوتگیں کتاب ’’ بلوچی زبان و ادب‘‘ شہ زرتگیں مضمون ’’ بلوچی کا مستقبل‘‘ کہ بلوچیا ’’ بلوچی زبانے باندات‘‘ ے ناما بلوچیا ترجمہ کرت ات، دیوانے دیما وانتے و سنگتاں آئی وانتگیں مضمونے سراگپ جت۔ شد و پد ارمان آزگا ’’ مذہب و فرقہ واریت و مئے چاگردے‘‘ ناما یک کسانیں مضمون وانت کہ نہی تہا ارمانا چاگردے عکس کشی کرت ات و ہمے جہد کرت اتے کہ من چے وڑا چیزے لبزانی تہا وتی چاگردہ ہمے سرپدی بدیاں کہ آ فرقہ کہ انسانہ شہ یک و دومیہ پہ نفرت و جنگ و جدلہ پرمایاں آ کجا انسایت و مردم زانتیے سرپدیا دات کناں۔ ۔۔۔۔ دیونے دومی بہرے تہا کلیم ارمان، ارمان آزگ، سجاد آزگ و ضیاشفیع وتی وتی شعر وانت و دیوان آسر بوت۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے