’’شیدو۔۔۔ اوئے شیدو چل۔۔۔ چل ماسٹر جی بلا رہے ہیں‘‘سورج سوانیزہ پہ آن پہنچا تھا۔ پر وہ ابھی تک صحن میں رکھی ہوئی پرانی چارپائی پہ خود کو پھٹی ہوئی بوسیدہ رلی میں لپیٹے اپنے اردگرد جماعت کے لڑکوں کے مچے ہوئے شور سے بے پرواہ میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہا تھاجو باری باری اور کبھی مل کر ایک ساتھ اسے پکارے جارہے تھے:
’’یہ ایسے اٹھنے والا نہیں۔ چلو ماسٹر جی کو ہی یہاں بلا لاتے ہیں‘‘ اب کہ کرخت لہجے میں دھمکی سننے کے باوجود وہ پہلے جیسی حالت میں بے سدھ پڑا تھا اور مچے ہوئے شور سے اس کے کان پہ جوں تک نہ رینگی تھی۔ سارے جماعتی اسے گھورتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک نے ہمت کرکے اوپر ڈالی ہوئی رلی کو جھٹک کر اک طرف کردیا تو شیدو بیزارگی کے عالم میں آگ بگولہ ہوتے کہنے لگا’’جا جا ۔۔۔ جاکر کہہ دے اپنے ماسٹر سے میں نہیں آنے والا۔۔۔ ہاں بالکل بھی نہیں آؤں گا‘‘ ۔وہ خود کو دوبارہ رلی سے اس طرح ڈھانپ کر سوگیا کہ سارے جماعتی لڑکوں کے چہروں پہ مایوسی بکھر گئی اور وہ واپس جانے لگے تھے۔
’’غفور کا بچہ تو بہت حرامی ہے۔ وہ باز نہیں آنے والا اور بڑھا چڑھا کر ماسٹر جی کو بہت کچھ سنائے گا‘‘۔ رلی کے اندر بظاہر تو شیدو پھر سے سوگیا تھا پر اس کے دل میں طرح طرح کے خیال پانی کے بلبلوں کی طرح اٹھنے لگے تھے۔ ’’کالو بھی بات بات میں نمک مرچ ملانے کا عادی ہے اور کریم۔وہ بھی کم شیطان نہیں۔۔۔ ماسٹر جی کو جاتے ہی کہہ دے گا کہ شیدو آپ کو بہت برا بھلا کہہ رہا تھا‘‘ ۔خیالوں کے اس جال سے خود کو چھڑاتے کروٹیں بدلتے آخر وہ اچاٹ دل سے اوپر ڈالی ہوئی رلی کو ہٹا کر اٹھ بیٹھا اور چارپائی سے اتر کر نیچے رکھے مٹکے سے پانی کا کٹورا بھرنے لگا تو غنودگی والی کیفیت کے باعث مٹکا گرتے ہی سارے کا سارا پانی کچے صحن میں بہہ جاتا ہے۔ تب وہ چڑ کر اپنے منہ بولنے لگتا ہے
’’یہ کیا مصیبت ہے۔۔ مٹکے کو بھی ابھی ٹوٹنا تھا ‘‘ بس اگلے لمحے ایک اور خیال اس کے دل کو جکڑ لیتا ہے۔
’’کاش! کاش کہ آج اماں ابا زندہ ہوتے‘‘ ۔ماں باپ کی یاد سے شیدو کا دل اداس ہوجاتا ہے اور اُس کی آنکھوں میں بھر آئے۔ آنسو اس تیزی سے بہنے لگتے ہیں جیسے اس کے ہاتھ سے چھوٹتے ہی مٹکے سے پانی بہہ چلا تھا ۔ پھر وہ آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آنکھوں کو ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے چہرے پہ ملتے چہرے کو صاف کرتے جیسے اٹھنے لگتا ہے تو اک اور جھٹکے کے ساتھ منہ کے بل زمیں پہ گرتے ہی اس کی لونگی مٹی سے لدھ جاتی ہے۔ وہ خود کو سنبھالتے ابھی پھر سے اٹھا ہی تھا کہ وہی جماعتی لڑکے شور و غل مچائے تیز پانی کے ریلے کی مانند پھر صحن میں داخل ہوجاتے ہیں جن سب کے پیچھے پیچھے صدر دروازے پہ ماسٹر اندر پاؤں رکھنے کے ساتھ یہ حکم صادر کرنے لگتا ہے۔
’’لے آؤ پکڑ کر اس بدمعاش کو۔۔۔!‘‘ بس پھر کیا ہوا پلک جھپکتے ہی سارے جماعتی شیدو کے وجود پہ ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں مل کر حملہ کردیا کرتی ہیں۔ کسی نے بازوؤں سے تو کسی نے کولہوں سے پکڑا۔ کوئی ٹانگوں کو کس کے کھڑا ہوگیا تو کوئی کمر میں بانہوں کی رسی ڈالے کھڑا ہوگیا۔ مطلب سارے کے سارے اس نیکی کے کام میں مل جل کر شیدو کو ایسے گھسیٹتے ہوئے ماسٹر کی طرف لانے لگے تھے جیسے کسی مرے ہوئی کیڑے کو چونٹیاں اٹھائے اپنے بل کی طرف لے جایا کرتی ہیں۔
’’اُسے اٹھائے اسکول لے چلو‘‘ یہ ماسٹر کا نیا حکم تھا۔ جس کو سنتے ہی جتنے بھی وہاں تھے سارے کے سارے اسے اس انداز سے اٹھائے کھڑے ہوگئے جیسے کسی مردے کا جنازہ ہو۔
’’ماسٹر جی! تھوڑی دیر کے لیے چھوڑدیں۔۔۔ میں کیچڑ میں خراب ہوا ہوں تالاب سے نہا دھوکر خود ہی آجاؤں گا‘‘۔
’’اچھا؟!! تو پہلے صاحب بہادر نہلائے گا؟!‘‘ ماسٹر جی نے طنزیہ لہجے میں چابک کا وار شیدو کی پشت پہ کرتے ہوئے کہا۔ پھرسکول میں داخل ہوتے ہی ماسٹر کے رعب دار چہرے پہ ناگواری کے تاثرات پسینے کی طرح سے ابھرتے رہے جن سے بے نیاز ہوکر وہ اب تک غصے کی حالت میں شوخی دکھاتے ایک اور جماعتی کو زور سے پکار کر کہنے لگا :
’’حمزہ‘‘
’’ جی۔۔۔ ماسٹر صاحب!‘‘
’’پانی بھرنے والی موٹی رسی لے آؤ‘‘ پلک جھپکتے ہی بھاری رسی حمزہ کے ہاتھوں میں تھی اور نظریں ماسٹر کے اگلے حکم کا تعاقب کر رہی تھیں۔
’’اسے باندھ دو رسی سے‘‘ پھر وہ شیدو کی طرف ہاتھ گھماتے حمزہ سے کہنے لگا
اس نئے حکم کی تکمیل میں حمزہ نے اسکول بینچ پہ لیٹے ہوئے شیدو کو پہلے نہایت ہوشیاری سے باندھا اور جب اطمینان کرلیا تو ادب سے ماسٹر سے رجوع ہوا ’’یہ اب قابو ہے ماسٹر جی‘‘
’’ہونہہ‘‘ بڑبڑاتے ہوئے ماسٹر شیدو کو گھورنے لگا اور ساتھ کہنے لگا ’’جاکر کہہ دو اپنے باپ سے میں نہیں آنے والا! کیوں ایسا ہی کہا تھا تم نے؟! ‘‘ ماسٹر کی آنکھوں میں غصے کو انگاروں کی طرح دہکتے دیکھ کر اب سارے جماعتی سہم کر رہ گئے تھے۔ پھر ماسٹر گالی گلوچ کرتے تھک گیا تو اس کے ہاتھ میں تھمی چابک نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ شیدو کی دل ہلا دینے والی چیخیں آسمانی بجلی کی مانند کڑکتی رہی اور آنکھوں سے برستے آنسوؤں کی بارش اس وقت تک نہ رکی جب تک ماسٹر کے ہاتھ میں لیا ہوا چابک رکا نہ تھا۔ جو اب جوش اور غصے کی حالت سے نکلتے ہی ایسے تھک ہار کر ڈھیلا پڑ گیا تھا جیسے کوئی کسان صبح صادق سے دوپہر تک کھیت میں کام کرتے نڈھال ہوجائے۔
ایک دونی دونی
دو دونی چار
تین دونی۔۔۔۔
’’نالائقو! خاموش ہوجاؤ‘‘ کلاس میں داخل ہوتے ہی ماسٹر جماعت کے لڑکوں پہ گرج پڑا جو کورس کے انداز میں پہاڑے یاد کرنے میں لگے ہوئے تھے، پھر سب پر ترچھی نظر گھماتے ہوئے جاکر اپنی کرسی پہ بیٹھا اور معمول کے مطابق حاضری رجسٹر کھول کر حاضری لینے لگا
’’حمزہ۔۔۔‘‘
’’جی۔۔۔ جی ماسٹر جی‘‘
’’قالو۔۔۔ حاضر جناب‘‘
’’غفور‘‘ جی جناب
’’کریم۔۔۔‘‘
(۔۔۔۔۔) اب کہ ماسٹر نے ذرا تیز لہجے میں کہا
’’شیدو۔۔۔۔ سب کے سب بہرے ہو کیا؟‘‘ماسٹر زور سے چلایا اور دوبارہ پکارنے لگا
اب بھی کوئی جواب نہ پاکر ماسٹر کا پارہ چڑھنے لگا تو ڈرتے ڈرتے دھیمے لہجے میں حمزہ نے صفائی پیش کی’’ماسٹر جی! کریم اور شیدو دونوں ہی آج غیرحاضر ہیں‘‘
’’کل گدھے کی طرح سے پیٹا ہے اور آج پھر غیرحاضر۔۔۔۔ کتے کی اولاد سدھرنے والی نہیں ہے‘‘ ۔غصہ نکالتے ماسٹر کچھ سوچتے پھر دریافت کرنے لگا
’’تم لوگوں میں سے کسی نے دیکھا ہے ان دونوں کو؟‘‘
’’ہاں ماسٹر جی!‘‘ ڈرتے ہوئے گھبرائے لہجے میں شبیر بتانے لگا‘‘ دونوں ہی صبح میوے کی دوکان سے چیزیں لے کر میخانے والے کنوے کی طرف جا رہے تھے۔۔۔ جب میں نے سکول چلنے کے لیے کہا تو دونوں نے مل کر میری خوب پٹائی کی اور چلے گئے‘‘
’’چیزیں خریدیں؟!!‘‘ ماسٹر جی اپنے آپ سے متعجب ہوکر پھر ہوکر جماعت سے دریافت کرنے لگے
’’مگر ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟!‘‘ اور پھر شبیر کو دیکھ کر اس کو پکڑلیاتھا
’’چل۔ سچ سچ بتا۔۔۔ کیا ماجرا ہے؟‘‘
وہ۔ وہ کل ہم سب نے مل کر نورے کے گھر سے گندم چرائی حوبارہ آنے کی ہوئی۔ پر ان دونوں مکاروں نے مجھے ایک ٹکہ تک نہیں دیا سارے پیسے دونوں نے آپس میں ہڑپ لیے‘‘۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ نہ ماں باپ ہیں اور نہ کوئی آگے پیچھے۔۔۔ حرامی چوری، لوٹ مار ہی کرے گا۔ پڑھے گا خاک؟ مجھے تو اس بات کی حیرانی ہے کہ یہ کھانا کہاں سے کھاتا ہے‘‘
’’ماسٹر جی! ہم دیا کرتے ہیں‘‘ جماعت سے قاسم درزی کا بیٹا اٹھ کر ماسٹر کے جملے کی تشریح کرنے لگا
’’اور ہم لوگ بھی‘‘ یہ وڈیرے کا بیٹا انور تھا
’’وہ اگر اب ادھر ادھر کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے توبڑا ہوکر چھین کرکے کھائے گا اور کیا‘‘۔ اپنے وجود کی مکمل نفرت کو ایک ساتھ باہر نکالتے ماسٹر جی نے منہ بناتے کہا اور پھر روز کے کام میں مصروف ہوگیا۔
پورے علاقے میں شیدو کا ڈر چھایا ہوا تھا۔ بڑے سے بڑے تیس مارخاں بھی شیدو کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے تھے۔ ایسا کوئی نہ تھا جو اب اسے ’’شیدو‘‘ کہہ کر پکارتا جس شیدو کو ماسٹر جی نے بچپن میں روئی کی مانند کوٹا تھا وہ اب قاسم درزی۔۔۔ وڈیرا عبدل خاں کے علاوہ دوسروں کے ٹکڑوں پہ پل کر گھبرو جوان ہوچکا تھا۔ اس کی جماعت کے بہت سے لڑکے کسان بن گئے تو کچھ محنت، مزدوری کے صلیب پہ جالٹکے تھے۔ مگر کریم جو بچپن سے لے کر ہر دکھ سکھ اور مشکل میں شیدو کا دم بھرتا تھا اب بھی اس کا رازدار بنا ہوا تھا۔۔۔ بدلتے وقت کی کروٹوں نے شیدو کو ’’شیدو ڈاکو‘‘ بنا دیا تھا اور اسی نام سے ہر کوئی اسے بلاتا، یاد کرتا تھا۔ شیدو سچ میں لگتا بھی ڈاکو ہی تھا۔ چٹان کی طرح مضبوط بھاری جسم۔۔۔ فولادی بازو۔۔۔ آنکھوں میں جلتے ہوئے انگارے اور کولہے میں لٹکتی ہوئی تیز چمکیلی کلہاڑی ہونے کے باعث وہ اب مکمل ڈاکو ہی نظر آتا جس کی سانولی رنگت والا چہرہ رات کے وقت ہیبت ناک صورت اختیار کرجایا کرتا۔ بہت عرصہ گزرا تھا کہ اپنے گاؤں کو وہ لوٹ آیا تھا اور وہ بھی فقط دو لوگوں کی خاطر ایک کریم دوسری زیبو جس کا نام شیدو کی دل کی دھک دھک کے ساتھ دھڑکتا رہتا۔ زیبو اسی کے گاؤں کی حسین و جوان بیوہ تھی جس کے لیے سب نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس نے فقط شیدو کی محبت میں اپنے شوہر کو ہاتھوں سے زہر دے کر ماردیا تھا۔ شیدو بھی زیبو کو دیوانہ وار چاہتا اور چاہتا بھی کیوں نہیں۔۔۔! زیبو کی شکل و صورت کسی حسین اپسرا سے کم جو نہ تھی۔۔۔ یہ بڑی بڑی کالی آنکھیں۔۔۔ باریک سے سرخ ہونٹ۔۔۔ نوکیلی ناک۔۔۔ نرم و نازک گال اور بل کھاتی کمر سے لپٹے ہوئے گھنے سیاہ بال ایسے نظر آتے جیسے سانولی رت میں موجیں مارتے ہوئے دریا پہ امڈ آئے ہوئے بادل ہوں۔ پورے گاؤں میں زیبو کا وجود حسن و شباب کا حسین سنگم بنا ہوا تھا جس پہ شیدو کے فدا ہونے کے بعد کسی دوسرے میں اجرت نہ تھی کہ ایک پل کے لیے وہ زیبو کی جانب چور نظر بھی اٹھاکردیکھے۔۔۔پورے پانچ ماہ کے بعد آج شیدو گاؤں کو لوٹاتو کریم کے گھر کھانا کھا کر اب زیبو کی بانہوں میں چارپائی پہ لیٹا اس کی چاہت کے نشے سے سرور لے رہا تھا۔
’’جانو! تم آنے میں بہت دن لگاتے ہو؟!‘‘
’’تو اب سمجھا اسی لیے تو پرندوں کو بار بار اڑاتی رہتی ہو‘‘ شیدو نے ہنستے ہوئے مذاق اڑائی۔
’’ہاں تو پھر اور کیا کروں۔۔۔ سب تم جیسے تو نہیں ہیں نہ۔۔۔ تمہارے اندر دل ہے ہی نہیں پتھر ہے پتھر‘‘۔
’’اچھا؟!! زیبو کو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے شیدو نے پیار سے پھر کہا ’’اور تمہارا دل۔۔۔‘‘
محبت کی مستی میں دونوں ڈوبے جا رہے تھے کہ اچانک دروازے پہ ہونے والی ٹک۔۔ ٹک کی آواز اس عالم میں رخنہ لے آئی تھی۔۔۔ پھرتی کے ساتھ شیدو نے خود کو بجلی کی تیزی سے سنبھالا اور مضبوط ڈگ بھرتے ہوئے جیسے دروازے کو کھولا سامنے وڈیرے کا کمدار کھڑا تھا۔
’’شیدو! تمہیں وڈیرے سائیں نے بلایا ہے؟‘‘
’’صبح کو آؤں گا‘‘ دروازہ زور سے بند کرتے ہوئے اسی مضبوط قدموں سے وہ مڑکر زیبو کے پہلو میں لیٹا تھا
’’کون تھا باہر‘‘
’’وڈیرے کا کمدار‘‘
’’اس وقت کیوں آیا تھا؟!!‘‘
’’وڈیرے کا بلاوا لے آیا تھا‘‘ شیدو نے مختصر جواب دیتے ہوئے اس معاملے کو دفع کرکے اپنے آپ سے کہا’’ہوگا کوئی کام۔۔۔ خیر۔۔۔ صبح کو جاؤں گا‘‘
دو پیاسے۔۔۔ تڑپتے ہوئے وجود پھر سے محبت سے سرشار ایک ہونے کو تھے کہ پھر سے وہ ہی ٹک۔۔۔ٹک کی صدا بڑھنے لگی تو شیدو نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھا اور بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے اپنے دل میں موجود غصہ دبائے جیسے دوبارہ دروازے کو کھولا تو وڈیرے سائیں کو خود اپنے سامنے پاکر ششدر رہ گیا۔
’’سرکار آپ؟!!۔۔۔ آپ نے خود تکلیف کیوں اٹھائی ہے؟‘‘
’’کوئی بات نہیں خیر ہے۔۔۔ میری بیٹھک پہ رئیس ڈھنگانو آیا ہوا ہے اور تم سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔۔۔ بس! ابھی ملنا چاہتا ہے۔
رئیس ڈھنگانو کا سنتے ہی شیدو کچھ پل کے لیے خاموش رہ گیا۔ اس کے ذہن میں یہ خیال بار بار سمندر کی موجوں کی طرح اٹھنے لگا تھا کہ اتنا بڑا رئیس مجھ سے کس لیے ملنا چاہتا ہے۔ آخر کچھ تو دال میں کالا ہے۔پھر زیبو کو وہیں چھوڑ کر شیدو وڈیرے کے ساتھ ہولیاتھا۔
رئیس ڈھنگانو جدی پشتی زمیندار تھا جس کے نام کا ڈنکا دور دور تک بجتا تھا۔ سپاہی سے لے کر تھانیدار تک سب جی۔۔۔جی۔۔۔ حضوری کے ساتھ جھک کر ملتے تھے اور جو اس کی نہ مانتا اس کا تبادلہ ایسے علاقے میں کرادیا کرتا جہاں دو گھونٹ پانی کے لیے وہ ترستا رہتا۔ چھوٹے بڑے افسروں سے لیکر بالا افسروں تک اس کی رسائی تھی۔ وہ ایسے دبنگ زمیندار کے حوالے سے مشہور تھا جس کے سائے سے علاقے کے سب ہی لوگ خوف کھاتے رہتے تھے۔ رئیس ڈھنگانوکے شوق شباب بھی انتہا کے تھے کوئی الڑ جوانی بھاجائے اور اس کی عقابی نظروں سے بچ نکلے یہ ناممکن تھا۔ دن دہاڑے راہ چلتے کا کام تمام کرانا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ رئیس ڈھنگانو کی بیٹھک بڑے بڑے رہزنوں۔۔۔ خونی ڈاکوؤں اور قانون سے بھاگے ہوئے روپوش مجرموں کی پناہ گاہ اور ٹھکانہ تھی۔ مطلب کہ رئیس کو خود پہ جہاں ناز ہوتا وہیں اس کی طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا دکھائی دیا کرتا تھا وہ اکثر کہا کرتا ’’میں ایک ایسا جوگی ہوں جس کی گودڑی کالے زہریلے سانپوں سے بھری ہوئی ہے۔۔۔ عام جوگی تو سانپوں کو دودھ پلاکر پالتے۔۔۔ دانت توڑکر ان کا تماشہ دکھایا کرتے ہیں پر میرے دل کو تب قرار ملتا ہے جب میرے سانپ میری آنکھوں کی سامنے کسی کو ڈسیں اور وہ وہیں ختم ہوجائے‘‘۔گاؤں کا ایک ایسا ہی واقعہ آج تک مشہور ہے کہ ایک بار رئیس ڈھنگانو بیٹھاکتوں اور ریچھ کی لڑائی کا مزا لے رہا تھا کہ کسی دوسرے علاقے کا کوئی بندہ اپنی فریاد لے کر پہنچا اور رئیس کے تماشے میں خلل پیدا کرتے یہ عرض کی ’’سرکار! میرے پاس وہ ایک ہی بھینس تھی جس کا بچے دودھ پیا کرتے تھے پر اب اس کی چوری کے بعد پاؤں کے نشانات لے کے آپ تک آن پہنچا ہوں۔۔۔ آپ مالکی کریں نہ کریں بس آپ کے بس کی بات ہے‘‘۔’’پکڑو اس سوئر کے بچے کو اور بوری میں ڈال کر لے آؤ میرے پاس۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں کیسے لے جاتا ہے جناور۔۔۔ حرامی کا بچہ نشان لے کے آیا ہے‘‘۔ آسمانی بجلی کی مانند غصے میں کڑکتا ہوا رئیس کانپنے لگا۔ بس رئیس کے حکم کی دیر تھی۔۔۔ اور پھر کیا ہوا کہ کارندوں نے اس بے قصور کو پکڑ کر رسیوں سے جکڑ کر بوری میں ڈالے رئیس کے سامنے زمین پہ پٹخ دیا ۔تب رئیس کا اگلا حکم قہر خدائی سے کم نہ تھا ’’اس حرامی پہ خونخوار کتے چھوڑدو۔۔۔‘‘
’’خوش آمدید شیدو‘‘ اپنے قریب آتا دیکھ کر رئیس ڈھنگانو نے عزت کا لقمہ شیدو کے منہ میں ڈالا اور پھر رازداری کے انداز میں بولنے لگا
’’کہاں پہ تھے اتنے عرصے سے میرے شیر‘‘۔
’’سرکار! مولا کی دنیا میں شیدو کے لیے کوئی کمی نہیں ہے جہاں گیا ٹھکانہ مل گیا‘‘۔
’’چھوڑدے۔۔۔ چھوڑدے بابا پردیس‘‘ رئیس ابھی تک اسی لہجے میں تھے ’’آ آ۔۔۔ میرے پاس آجا۔۔۔ تمہارے بھلے کے لیے کہہ رہا ہوں۔۔۔ اور بھی تو ہیں بہت سارے نہ کوئی آنچ۔۔۔نہ ڈر نہ دھمکاؤ۔۔۔ کہیں پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو مفت ماردیئے جاؤگے۔۔۔ اس لیے کہتا ہوں پردیس بسانا چھوڑدے اور میری چھتر سایہ میں آجا‘‘۔
الجھے ہوئے دھاگوں کی طرح ساری باتوں کے گانٹھ کھولتے ہوئے رئیس اور شیدو اک دوجے کے من کے ورق پلٹتے سوچ سمجھ کے دو راہے پہ ایک ہوگئے۔ یوں شیدو نے رئیس کی پناہ گاہ کو اپنے سرکی مستقل چھپرچھاؤں بناڈالا اور اس کے ہر حکم کی بجاآوری میں نہ جانے کتنے گھر جلا ڈالے، کتنوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کتنے باغی۔۔۔ سرکش مخالفوں کو کچل کر رئیس کے قدموں میں لاکر ڈال دیا تھا اور اپنی ان ہی خوبیوں کے طفیل قلیل عرصے میں دیکھتے ہی دیکھتے شیدو باقی ساروں سے بڑھ چڑھ کر رئیس کا منظورِ نظر بن تو گیا مگر قسمت کو کچھ اور ہی قبول تھا۔ دھیرے دھیرے دونوں کے بیچ شک و نفرت کی بُو بڑھنے لگی اور فاصلے بڑھتے گئے۔ دونوں کی ان بن کی خبر چاروں اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جبکہ قیاس آرائیاں ہر ایک زبان پہ الگ تھیں۔ سچ کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا اور اگر کسی کو کچھ بھی علم تھا تو وہ فقط کریم ہی تھا جو بچپن کی یاری کو اب تک شیدو سے ہر دکھ سکھ اور راز و نیاز میں نبھائے آ رہا تھا۔
’’رات کے پہلے پہر بعد اٹھ کر کھانا تیار کرنا ہے‘‘ ایک شام کو روایتی حکم والے لہجے میں کریم بیوی سے کہنے لگا
’’پہلے پہر کے بعد کھانا‘‘ بیوی اچنبھے میں آتے پہلے حیران رہ گئی پھر دریافت کرنے لگی’’پر کیوں؟!‘‘
’’شیدو آئے گا اور پھر ریل گاڑی سے چلا جائے گا‘‘۔
’’کہاں جائے گا‘‘ بیوی اب تک حیران تھی
’’یہاں سے دور۔۔۔ بہت دور۔۔۔ ہمیشہ کے لیے‘‘
’’وہ کس لیے؟!‘‘
’’شیدو اور رئیس کے بیچ پیدا ہونے والی دشمنی اب اور بڑھ گئی ہے‘‘
’’کس بات پہ۔۔۔ اور کیوں؟‘‘ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کریم کی بیوی اب حقیقت جاننا چاہتی تھی ۔
’’وہ اس بات پہ کہ زیبو جو شیدو کی محبوب ہے رئیس ڈھنگانو کے دل میں بس گئی ہے۔ اوپر سے زیبو بھی شیدو کو چھوڑ کر اس کی حویلی جا بیٹھی ہے جس کو لے کر شیدو بہت غصے میں ہے اور کہتا ہے کہ وہ رئیس کا خون کرکے اپنی محبت کا انتقام لے گا‘‘۔ اچانک کریم کہتے کہتے رک جاتا اور اسے اپنے یار کی رازداری فاش کرنے کا احساس ستانے لگتا ہے۔ تب وہ شوخی کے انداز میں بیوی کے قریب آکر کہنے لگتا ہے
’’دیکھو تم یہ سب کسی کو مت بتانا کیونکہ رئیس بھی اس کے خون کا پیاسا بن چکا ہے۔ اپنے کارندوں کو چاروں طرف پھیلا رکھا ہے تاکہ شیدو کا معاملہ ہمیشہ کیلئے ختم کرڈالے۔۔۔ جانے ان دونوں کی دشمنی کا کیا انجام نکلے، مجھے تو اپنے سر کی لگی ہے۔ کل ہی تھانیدار نے بلاوا بھیج کر سختی سے پوچھا تھا۔ کیا کروں بچپن کا دوست ہے چاہتا ہوں کہ وہ یہاں سے خیر و عافیت سے نکل جائے۔۔۔ سو آج رات اس نے نکل ہی جانا ہے‘‘۔
رات نے کالی چادر اتارکر جیسے ہی کروٹ بدل کر صبح ازل کی سفیدی اوڑھے دن کی نوید سنائی تو شیدو بھی ہوشیاری سے سنبھلتا چلتا کریم کے در پہ آ نکلا اور پہلی دستک کے ساتھ ہی گھر کی پناہ میں آگیا۔ دونوں چار پائی پہ آ بیٹھے تو کریم کی بیوی نے کھانا لاکر رکھ دیا۔ شیدو نے ابھی دو ہی نوالے لیے تھے کہ پھر سے کریم کے صدر دروازے پہ دستک ہوئی جس کے ساتھ ہی ایک ڈر نے شیدو کے دل کو گھیر لیا۔ کریم گھبراتے ہمت کے ساتھ اٹھا اور جیسے دروازہ کھولا تھانیدار اپنے اٹالے کے ساتھ بجلی کی تیزی سے اندر داخل ہوکر شیدو کے سر پہ آن پہنچا اور ہاتھوں ہاتھ اُسے اپنے قابو میں کرنے کی فتح یاب مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا
’’اوئے شیدو! بہت چھپ لیے اب چل تیری گرفتاری کے وارنٹ لے کہ آیا ہوں‘‘
سورج کی پہلی کرنیں اپنے ساتھ یہ خبر دو ردور کے گاؤں تک پھیلا چکی تھیں کہ بدنام ڈاکو شیدو پکڑا گیا۔۔۔ جس کے بعد کچھ دنوں کے اندر ہی دھیرے دھیرے شیدو کی دہشت کے ساتھ اس کا نام بھی لوگوں کی دلوں سے مٹنے لگا اور پورے پانچ سال بعد ایک دن کی صبح شیدو کا نام اپنے اجالے کے ساتھ لے آئی ۔ہر جگہ، ہر کوئی شیدو کی بھولی بسری وارداتوں کی مالا جپنے لگا۔ اسکول کے دروازے پہ اسی ماسٹر جی کے ہاتھ میں اخبار تھی جس نے بچپن میں شیدو کو روئی کی مانند کوٹا تھا جس کے گرد بہت سارے گاؤں والے ایسے ہجوم ڈالے کھڑے تھے جیسے مداری کے گرد تماشائی۔سب کی
آنکھوں کا تجسس شیدو کے بارے میں جاننے کو بے تاب تھا نظر آ رہا تھا۔ ماسٹر جی ابھی تک شیدو سے نفرت کرتا تھا اور اس کی خبر بڑی حقارت سے پڑھنے لگا ۔نامی گرامی ڈاکو شیدو جس کو پندرہ ڈاکے اور چھ خون کرنے کا الزام ثابت ہونے پہ پھانسی دے دی گئی۔ شیدو بہت عرصے سے روپوش تھا جس کو کچھ سال پہلے رئیس ڈھنگانو کی مدد سے پولیس نے ایک دوست کے گھر سے گرفتار کیا تھا ۔اسی لیے دس ہزار روپے کی رقم بطور انعام سرکار نے رئیس ڈھنگانو کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے