کامریڈ سلطان قیصرانڑیں ایک عظیم استاد، مُدبر ، مفکر ، لٹریری شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک مثبت سیاسی سوچ رکھنے والے شخص تھے۔ ان کی فکر ایک انصاف پہ مبنی نظام کا قیام تھا تاکہ سارے انسان مل جُل کر ایک ساتھ رہیں اور اپنے معاشرے او رسماج کی ترقی بغیر کسی رکاوٹ کے کریں۔ جہاں استحصالی نظام نہ ہو اور قدرتی وسائل اور معیشت کسی مخصوص طبقہ کی ملکیت نہ ہو بلکہ یہ تمام انسان کی ضروریات کو پورا کرسکے اور سب مل جل کر اُسے استعمال کرسکیں۔
اس لیے وہ فکری طور پر کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوئے اور اس پارٹی کے باقاعدہ سرگرم ممبر رہے تھے۔
میری قیصرانڑیں صاحب سے پہلی ملاقات کامریڈ صوفی عبدالخالق کے گھر ہوئی جو کہ لوہڑ کاریز سریاب روڈ پر واقع تھا ۔ یہیں پر کامریڈ قیصرانڑیں کو ہمارے سیل کا انچارج بنایا گیا اور وہ ہفتے میں ایک دن ہمارے سٹڈی سرکل لیتے تھے اور ہماری نظریاتی اور سیاسی تربیت کرتے تھے۔ ہماری کئی نشستیں ان کے گھر کے قریب واقع باغ میں ہوئی تھیں جو کہ کئی گھنٹے جاری رہتیں۔ ہمارے سیل میں باقی چاراور کامریڈ تھے۔ ہمارا یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔
قیصرانڑیں کے ساتھ ہمارا ایک یادگار سفر بھی تھا جب قیصرانڑیں ہیڈ ماسٹر رود ملازئی تھے۔ تو ان کے ساتھ میں، شہید صبا دشتیاری ، مرحوم اشرف سربازی ( جن کا تعلق ایران سے تھا اور وہ ریڈیو زاہدان اور بعد میں ریڈیو تہران میں بلوچی پروگرام سے منسلک تھے ) کے علاوہ شاہ محمود شکیب، اور نادر کارا زئی جو کہ مغربی بلوچستان سے تھے اوران کا تعلق سازمان فدائیاں خلق اور بعد میں بلو چ راجئے زرمبشت سے تھا ) کے ساتھ رود ملازئی روانہ ہوئے ۔ہم دو دن ان کے ساتھ رہے اور مختلف سیاسی فکری و مسائل اور ادبیات پر بحث و مباحثے ہوئے جس نے اس سفر کو یادگار بنایا ۔یہ 1994 کے ایام تھے ۔
1995 میں شاہ محمد مری کی دلچسپی اور کوششوں سے لوز چیذغ ایک فورم تشکیل دی جس میں قیصرانڑیں ، شہید صبا دشتیاری اور راقم تھے ۔اور اس سلسلے میں طے پایا کہ مختلف بزرگ سیاسی اور لٹیری شخصیات سے ملیں گے اور ان کے ساتھ ایک دن گزاریں گے ۔ جس کے سلسلے میں ہم نے مستونگ کے کئی چکر لگائے جہاں ملک فیض محمد یوسفزئی، ملک سعید دہوار، ملک رمضان اور نور محمد پروانہ سے ملے اور ان کے ساتھ پورا دن گزارا اور ان سے ان کی زندگی ان کی جدوجہد اور تخلیقات پر گفتگو ہوئی۔
قیصرانڑیں اپنے درس و تدریس کے سلسلے میں مصروف رہے اور بلوچستان کے مختلف مقامات پر تعلیم دینے کے عمل میں پورے دل و جان کے ساتھ کام کرتے رہے۔
اب قیصرانڑیں ہم میں نہیں مگر ان کی سوچ و فکر اور یادیں ہمارے ساتھ ہیں جو ہمارے حوصلے بلند رکھتے ہیں اور ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ ایک استحصال سے پا ک نظام کی تشکیل کی جائے تاکہ تمام انسانیت امن و آتشی سے اس کرہ ارض پر زندگی گزارسکے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے