میرے بیٹے علی نے ہمیشہ کی طرح اپنا سکول بیگ میری شاپ کے ایک کونے میں پٹخااورسٹول کھینچ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے بھی اپنا معمول کا سوال دہرایا۔’’ کھانا کھا لیا تھا ‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر ماں اپنے بچے کے کھانے پینے کے بار ے میں ہمیشہ متجسس اور فکر مند ہی رہتی ہے چاہے بچہ کتنا ہی صحتمند اور ہٹا کٹاہی کیوں نہ ہو۔ اب بچہ رہا بھی نہ رہا ہو، مگر اسے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ اُس کے بچے نے ٹھیک سے کھایا نہیں ہوگا۔ وہ یقیناًبھوکا ہی ہوگا۔
’’ ڈونٹ وری مام۔ میں نے سکول میں لنچ کرلیا تھا اور اچھی طرح خوب پیٹ بھر کے کھایا تھا ‘‘ ۔ علی بیٹھا روز مجھے مسکرا کر یہی جواب دیتا تو میں مطمئن ہوکر اپنی شاپ کے کسٹمرز کو اٹینڈ کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ جب تک میں شاپ میں رہتی علی اس بڑے سے وہائٹ مارش شاپنگ مال میں ہی گھومتا رہتا۔ کبھی کبھار اپنا سکول کا ہوم ورک بھی کسی بنچ پہ بیٹھ کر ہی مکمل کرلیتا۔ کبھی اس سٹورکبھی اس سٹور گھومتا، سیکورٹی گارڈز سے ہیلو ہائے کرتا، سٹو رمالکان اور ملازمین سے گپیں لڑاتا وقت گزارلیتا تھا ۔ سب اس سے بہت مانوس ہوگئے تھے اور اس کی موجودگی کے عادی بھی ۔ اگرکبھی ایک آدھ دن وہ ان کی طرف نہ جاپاتا تو مجھ سے پوچھنے چلے آتے کہ علی کہاں ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے ؟ نظر کیوں نہیںآرہا؟ کوئی کہتا میں نے اس کے لیے چاکلیٹ کیک کا ایک پیس بچایا ہوا ہے ، کوئی کہتا اسے کہنا، آکر فریش لیمونیڈ پی لے ، تو کوئی اس کے لیے یونہی کوئی گفٹ چھوڑ جاتا۔
شاپنگ مال سٹورز والے گورے، کالے، چینی، انڈین، پاکستانی، امریکن اب کتنے ہی سالوں سے ہماری فیملی کی طرح بن گئے تھے ، اور علی سے تو خاص طور پہ بہت ہی شفقت سے پیش آتے تھے۔ علی سکول میں بہت اچھے گریڈز لیتا تھا جس کی وجہ سے سب علی سے بہت خوش ہوتے، اُسے تھپکی دیتے اور اس کی کارکردگی کو سراہتے رہتے تھے۔
گوڈائیوا چاکلیٹ سٹور پہ کام کرنیوالا بوڑھا نیلسن تو خاص طور پر علی سے بہت پیار کرتا تھا۔ کبھی کبھی جب میں اور علی کے ابو اُسے ہنس کر کہتے ’’ لگتا ہے تم تو علی کے نانا اور دادا کی جگہ لے چکے ہو تووہ بڑا خوش ہوتا۔ علی بھی اسے گرینڈ پا کہہ کربلاتا تومجھے اپنے دل کی گہرائی میں افسوس کی ایک لہر کروٹ لیتی محسوس ہوتی کہ علی کے نانا او ر دادا اس سے اتنی دور تھے۔ وہ اسے یوں بڑھتے، پھلتے پھولتے، زندگی میں آگے کی طرف روانہ ہوتے دیکھ نہ سکتے تھے مگر پھر وطن سے دور رہنے والوں کے ساتھ ایسا تو ہوتا ہی ہے ۔
ہم لوگ قریباً پندرہ سال سے امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور ہر لحاظ سے سیٹ ہیں۔ یہاں کے اچھے نظام اور سُکھ چین دیکھ کر کئی بار دل میں حسرت جاگتی ہے کہ کاش ہمارے اپنے پیارے پاکستان میں بھی اسی طرز سے لوگ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں ۔ ہمارا وطن بھی اتنا ہی پرابلم فری ہوجائے مگر جس طرح ہمارے حکمران ایک کے بعد آتے ہیں اور ملک کے وسائل اور دولت ، اختیارات کولوٹتے ہیں اس کے بعد ان سے کسی بہتر نتیجے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
امریکہ میں رہنے والے بچوں کا ایک مسئلہ ہوتا ہے وہ جھوٹ اور منافقت کے گُرسے نا آشنا ہوتے ہیں ۔ ہمارا علی بھی ایسا ہی ہے ۔ میں اور اس کے ابّو دو تین سال بعد وطن عزیز کا ایک چکر لگاتے ہیں تو وہ بھی ہمراہ ہوتا ہے ۔ مگر پاکستان کو زوال پذیر دیکھ کر بہت حیران پریشان ہوجاتا ہے ۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ملک آخر ایسا کیوں ہے جیسا کہ ہے اور امریکہ کی طرح کیوں نہیں ہے ۔ علی سچ کہنے سے بالکل بھی نہیں ڈرتا اور جہاں موقع ملے تنقید شروع کردیتا ہے۔
ابھی دو سال پہلے ہی کی تو بات ہے ہم لوگ پاکستان گئے ہوئے تھے ۔رشتہ داروں دوستوں سے میں ملاقات میں مصروف اور خوش تھے ۔ بڑے بھیا نے ، جن کا تعلق ایک پرانی سیاسی پارٹی سے ہے ہمیں اپنے ایک جلسے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ پارٹی ایک زمانے میں اپنے انقلابی منشور اور متحرک قائدین کی وجہ سے بہت مقبول تھی مگر اب گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ اس کے لالچی ، خود غرض عہدیداروں نے ایسی خباثت بھری کرپشن کی کہ عوام کا ان پر سے اعتماد جاتا رہا۔ الیکشن کے قریب آتے ہی پارٹی پھر برسر اقتدار رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی اور یہ جلسہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ہم سب تو اس پارٹی کی نیک نیتی کے بارے میں کافی مشکوک تھے مگر بھیا کو شاید اب بھی ان سے کچھ امید تھی جومسلسل ان کے بُجھے ہوئے چراغوں کے دھوئیں کو روشنی کی پرچھائیں سمجھنے کی غلط فہمی میں گرفتار رہتے تھے ۔ بہر حال ان کے جلسے کی ہی بات ہے ، خوب زور شور سے تقریریں ہورہی تھیں۔ پاکستان کو ایک بہتر ملک بنانے کے لیے منصوبے بناتے جارہے تھے کہ یک دم کسی نے کہا ۔ ینگ بلڈ کو آگے آنا چاہیے۔ نئی جنریشن کی رائے معلوم کرنا چاہیے کہ وہ اس ملک کے لیے کیا اور کیسا سوچتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
چند نوجوان بچے سٹیج پر آئے اور پر جوش تقریروں اور جذباتی مذہبی نعروں سے پنڈال کو گرمانے لگے۔ ہر طرف تالیاں بجنے لگیں اور نوجوان مقررین پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے۔ یکایک بھیاکو کچھ خیال آیاانہوں نے علی کی طرف دیکھ کراعلان کیا ۔’’ اتفاق سے میرا نوجوان اور فیورٹ بھانجا علی اس وقت یہاں موجود ہے ۔ یہ امریکہ میں رہتا ہے ۔مگر آج کل پاکستان کا مہمان ہے اور آخر کیوں نہ ہو بھئی پاکستان میں اس کے باپ داداکی جڑیں ہیں۔ میں علی کو اظہار خیال کی دعوت دیتا ہوں۔ وہ آئے اور ہمیں بتائے کہ آج ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے اور ہمیں کس سمت جانا چاہیے‘‘۔ یہ سنتے ہی علی نے فوراً میری طرف دیکھا اور پھرمثبت اشارہ دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور سٹیج یہ جا کے مائک تھام لیا۔ کرسیوں پہ بیٹھے ہوئے گھاگ، سیاستدان، اس میدان کے پرانے کھلاڑی مزید چوڑے ہوکر کرسیوں پہ پھیلنے لگے۔
’’ ہیلو اینڈ اسلام علیکم‘‘ ۔ علی نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے چاروں طرف دیکھا۔ میں ایک امریکن پاکستانی ہوں اور میری لینڈ سٹیٹ میں ایک سرکاری سکول میں زیرِ تعلیم ہوں۔ اس کے علاوہ میں اپنی پاکستانی کمیونٹی کی پاکستان ایسوسی ایشن کا بھی اہم رکن ہوں۔ میں نے آپ سب کی تقریریں سنی ہیں اور میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہو ں کہ آپ سب لوگ منافق اور جھوٹے ہیں ۔ آپ صرف اپنے فائدے کی ہی بات کررہے ہیں۔ ملک کے وسیع تر مفاد سے آپ کو قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے‘‘۔
علی کے منہ سے یہ باتیں سنتے ہی مجمع کو سانپ سونگھ گیا ۔ چاروں طرف ایک سناٹا سا چھا گیا ۔ ایک لمحے کو تو میں بھی دل ہی دل میں کانپ کے رہ گئی۔ ’’ یا الٰہی خیر‘‘۔ یہ امریکن بچہ کہیں کچھ اور اول خول نہ بک دے ‘‘۔ میں نے گھبرا کر سوچا ۔ علی مکمل اعتماد سے بولتا چلا گیا۔
’’ ہم امریکہ میں رہتے ہیں جہاں معاشرے کی بنیاد ہی دیانتداری اور نظم و ضبط پہ ہے۔ لوگ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں جبکہ پاکستان میں ایساکچھ نہیں ہے ۔ یہاں حکمرانوں کو محض اپنی جھولیاں بھرنے کی پڑی رہتی ہے اور عوام بھوکے، ننگے، کام چور اور آسانیاں تلاش کرنے والی قوم بن چکے ہیں۔ قانون کی کوئی بالادستی نہیں اور ہر ادارہ زمین بوس ہوچکا ہے ۔ آئی ایم سوری مگر آپ لوگوں کو پہلے امریکہ کی طرح اصول پرستی، فراخدلی اور تعمیری سوچ اپنانا ہوگی۔ وہاں ہر ایک کو اپنا حق ملتا ہے ۔ کوئی کسی کا حق نہیں مارتا۔ فیصلے سفارشوں پہ نہیں، میرٹ پہ ہوتے ہیں ۔آپ لوگوں کو پہلے اپنا ذاتی اور قومی کردار ٹھیک کرنا ہوگا۔ یہ ملک تبھی ترقی کرے گا اور دنیا کی مہذب قوموں کے شانہ بشانہ چل سکے گا۔ یہ خالی خولی تقریروں کا کوئی فائدہ نہیں ۔ آپ لوگ تکلیف نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ ’’ علی یہ سب کہہ کر چپکے سے نپے تُلے قدم اٹھاتا سٹیج سے نیچے اتر آیا اور مجمع میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا میں خوش تھی یا شرمندہ ؟ ۔پھر چند ہی لمحوں بعد بھیا نے صورتحال کو سنبھال لیا۔ علی کی کمر تھپتھپاتے ہوئے بولے۔
’’ یہ نوجوان بالکل ٹھیک کہتا ہے ۔ میں خوش ہوں کہ میرا امریکہ سے آیا ہوا نوجوان بھانجا سچ بولنے کی صلاحیت اور جرات رکھتا ہے ۔ میری خواہش ہے کہ میرے ملک کا ہر نوجوان ایسی سوچ اپنائے ، تبھی اس ملک کے مقدر کا ستارہ سنورسکتا ہے ۔
بھائی جان کی یہ بات سن کر میں نے سُکھ کا سانس لیا اور ہولے سے مسکرا دی۔ میں جانتی تھی کہ میرا بیٹا کہتا تو سچ تھا مگر سچ سننے کا حوصلہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں یا حکمرانوں میں ہوتا ہی کہاں ہے؟
ڈئیر کزن ۔ شکر کر تجھے ابو کی باتوں نے بچا لیا ورنہ یہاں تو ایسی کوئی بات کرے تو اسے جوتے اور ٹماٹر کھانے پڑ جاتے ہیں۔ ’’ بھائی جان کے ٹین ایج بیٹے ارسلان نے علی کے کندھے کو ہولے سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ میں اور علی کھلکھلا کرہنس دیتے۔ وہائٹ مارش شاپنگ مال میں ہمارے سٹور کو چلتے اب بہت سے سال بیت گئے ہیں۔ ہم معاشی طور پر کافی حد تک مستحکم ہوچکے ہیں۔ علی بھی تعلیم کے میدان میں منزلیں مارتاماشاء اللہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور اب تو اس نے سکول کے ایف ایم ریڈیو سٹیشن پر بھی بطور اینکر پرسن کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ اس کو اعتماد سے گفتگو کرتے اور میوزک پلے کرتے سن کر ہم بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ امریکہ میں ہر طرح سے اپنی تخلیقی او ر تعلیمی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے مواقع حاصل کررہاہے اور اُسے کسی بھی طرح سے پیچھے نہیں رہنا پڑتا۔ وہ جو جی چاہتا ،کرتا ہے اورماں باپ کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بھلا کیا بات ہوسکتی ہے؟
سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا کہ حال ہی میں ایک واقعہ وقوع پذیر ہوا ۔ پوری دنیا یہ خبر سن کر دنگ رہ گئی کہ امریکی فوجیوں نے رات کی خاموشی میں چپکے سے ایک سیکرٹ آپریشن کیا اور ایبٹ آباد میں مقیم ’’ اسامہ بن لادن اور اس کے اہل خانہ کو ٹارگٹ کرکے مار دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی میڈیا نے اسامہ ، اس کی بیویوں، بچوں، ملازمین، کسی کو بھی ٹی وی پر دکھایا نہ ان کے بیانات سنوائے۔ آج کے میڈیاawareness دور میں یہ بڑے اچھنبے کی بات ہے۔ آج تو دنیا کے کسی کونے میں کوئی مکھی یا مچھر بھی مر جائے تو فوراً کیمرے کی آنکھ اسے محفوظ کرلیتی ہے اور میڈیا پہ نشر کردیتی ہے۔ امریکہ کا دشمن جان مارا جائے اور کیمرہ کچھ بھی نہ دکھائے۔اس سے شکوک و شبہات اورابہام تو پیدا ضرور ہوتا ہے ۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ امریکیوں کو تو جاب ویل ڈن ہونے کا اطمینان اور سکون چاہیے تھا لہٰذا وہ اسامہ کی ہلاکت اور سمندر بوس ہونے کی خبر سنتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے اور ناچتے ناچتے سڑکوں پہ نکل آئے۔ شیطان کے خاتمے کا رقص مناتے ، وہ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے اور جئے امریکہ کی ٹی شرٹس پہنے خوب اترارہے تھے ۔
علی بھی بہت خوش تھا ۔ بار بار کہہ رہا تھا ۔’’ دیکھا مام ڈیڈ‘‘ آخر امریکہ نے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کا خاتمہ کر ہی دیا نا ۔۔۔۔۔۔ وٹ اے گریٹ کنٹری۔۔۔۔۔۔ امریکہ کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ اب ساری دنیا میں امن چین ہوجائے گا۔شکر ہے آپ لوگ امریکہ چلے آئے اور میں یہاں پیدا ہوا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔ وہ ہنستا مسکراتا اٹھا اور ٹی وی پہ سی این این کی خبریں دیکھنے لگا۔
’’ اگلا دن امریکیوں کے لیے کرسمس سے بڑھ کے خوشی کا دن تھا۔ ہر طرف سیلی بریشن جاری تھی۔ آفٹر سکول ایکٹی ویٹر میں اس روز علی کا ایف ایم ریڈیو پروگرام تھا جس پہ علی نے تازہ ترین صورتحال اور خبروں کو موضوع سخن بنایا اور بار بارخوش ہوکر اعلان کیا۔’’We got him‘‘ ( ہم نے اسے پکڑ لیا )۔ ایکسائٹمنٹ کے مارے اس سے بولا ہی نہیں جارہاتھا۔ اس نے کتنے ہی خوشیوں کے نغمے پلے کیے اورجوکس سنائے۔ پروگرام بہت خوشگوار ماحول میں چلتا رہا ۔ اتنی کالز آئیں کہ ٹیلی فون کی لائنیں جام ہوکر رہ گئیں۔ کوئی امریکی فوجیوں کی شجاعت، کوئی ملٹری سٹریٹجی ، کوئی پاکستانی حکومت کی نالائقی بیان کررہا تھا اور کوئی کہہ رہا تھا کہ پاکستان ایک جھوٹا ملک ہے۔ اتنے بڑے دہشت گرد کو چھپا رکھا تھا اورہم سے امداد بھی بٹورے جارہا تھا۔
رات کھانے کی میز پر علی ہمیں یہ سب بتارہا تھا مگر میں اور علی کے ابو کچھ چپ چُپ سے تھے ۔ ہمیں اس روز پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے گھر میں تو ایک امریکن رہتا ہے ۔ ایسا جس کی سوچ ہماری سوچ سے جدا ہے اور جس کے نظریات انہی حقائق پہ مبنی ہیں جنہیں امریکی میڈیا اپنے عوام کو سپون فیڈSpoon Feed کرتا ہے ۔ ہم تیسری دنیا کے تارکینِ وطن، ہماری کیا مجال کہ ہم آقاؤں کی پالیسیوں ، ترجیحات اور حتمی فیصلوں کے آگے کچھ کہہ سکیں ۔ ہم دونوں میاں بیوی اپنے آلو گوشت اور چپاتی کو سامنے رکھے اور اجنبی نظروں سے علی کی طرف دیکھتے رہے اور علی اپنی سٹیک اور بیک پوٹیٹو کی پلیٹ ہاتھ میں لیے خبریں دیکھنے میں مصروف رہا۔
فاکس چینل پہ ان کی مشہور ٹاک شو اینکرCireta Van اپنا ٹیڑھا منہ گول گول گھما کر ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو لعن طعن اور گوروں کو دنیا کی مہذب ترین اقوام قرار دے کر اپنے دلائل پیش کررہی تھی۔ بار بارش بُش کی وہ نیوز کلیپنگ بھی دکھائی جارہی تھی جس میں اس نے کہا تھا ہم پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچادیں گے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔ عجب سرکس لگا ہوا تھا۔
’’ مگر امریکہ تو دنیا کا خود سب سے بڑا دہشت گرد ہے ۔ تیل اور طاقت کے لیے پوری دنیا پہ قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔ یہ آج کے دور کی کالونائزیشن ہے ‘‘۔ علی کے ابو رہ نہ سکے اور بے قابو ہوکر بولے۔
نوجوان امریکی کے پاس اپنے ہی دلائل تھے۔ میں نے گھبرا کر چینل ہی بدل دیا کسی انڈین چینل پہ ’’ مائی نیم از خان ‘‘ چل رہی تھی ۔ تو بہ اب انٹرٹینمنٹ کی دنیا کے بھی یہی موضوع ہوگئے ہیں۔ میں نے اپنے شوہرکی طرف دیکھ کر کہا اور کھانے کی میز سے برتن سمیٹنے لگی ۔
دنیا بدل چکی ہے ۔ اب عشق و محبت کے بجائے دہشت گردی اور عالمی صورتحال کو موضوع بنائے بغیر انٹرٹینمنٹ کی دنیا بھی کامیابی حاصل نہیں کرپاتی۔’’انہوں نے سمجھانے کے انداز میں مجھے دیا ۔
اگلے روز میں شاپنگ مال میں اپنے سٹور پہ ہی کام کررہی تھی کہ حسب معمول تین بجے علی مجھے دروازے سے آتا دکھائی دیا وہ کچھ تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا مگر میں نے اس بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا ۔ آتے ہی اس نے حسبِ معمول بستہ ایک کونے میں رکھا مگر نہیں اسے رکھنا نہیں ، پھینکنا ہی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اور منہ بسور کے بیٹھ گیا۔
’’ کیا ہوا ؟ تم ٹھیک تو ہو بیٹا؟ اتنا موڈ کیوں خراب ہے ‘‘۔ کھانا کھالیا تھا ؟‘‘۔ میں نے حسبِ معمول اس سے مادرانہ سوالات کرنے شروع کردیے۔
’’ آپ کوپتہ ہے آج سکول میں کیا ہو ا؟ ’’ علی نے آنسو بھری آنکھوں سے کہا۔’’ کیا ؟ ’’ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا اور پیار سے اسے چُھوا۔ ’’ جیسے ہی سکول پہنچا۔ سکول کے ساتھیوں نے مجھے کہا ہمیں مبارکباد دو۔ ’’ اچھا ؟ وہ کس بات پر ؟‘‘۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’ کہنے لگے ہم نے تمہارا باپ پکڑ لیا، اسے مار دیا اور پھر سمندر میں دفنا دیا اور تم کچھ نہ کرسکے ۔’’ وہ مجھ پر ہنس رہے تھے ۔وہ غصے سے بولا۔ ’’اوہ‘‘ ’’ موقعے کی نزاکت سمجھ کر میں خاموش ہوگئی ۔ میرے دل پر ایک گھونسا سا لگا ۔’’ ہائے میرا بچہ‘‘۔ میرے لبوں سے نکلا اور میرا دل ڈوبنے لگا ۔ مجھے اپنا بچہ بہت معصوم ، بے خبر اور بے ضرر سا لگا۔ اسے تو خبر ہی نہیں تھی کہ وہ ان میں سے نہیں ہے جن میں وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہے ۔ اسے تلخ حقیقتوں کا ادراک ہورہا تھا اور میرا دل ٹوٹ کر پار ہ پارہ ہوا جارہا تھا ۔
’’ بس بیٹا ۔ اب احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ہم یہاں رہتے ہیں ۔ یہ ہماری چوائس تھی کہ ہم یہاں آئیں، رہیں ، ان کے نظام اور برتر معیشت میں سے اپنا حصہ ڈھونڈیں ہمیں خاموش رہنا ہوگا‘‘۔ میں نے اس کا سراپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ مگر مام میں تو امریکہ بارن ہوں۔ مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے ؟‘‘علی اب بھی لاجک کی بات کرتا چلا جارہا تھا۔
’’ مام یہ ڈیم امریکن اتنے متعصب ، اورتنگ نظر ہوتے ہیں؟اتنی محدود سوچ ہے ان کی انہیں تو دنیا کی سیاسی ، معاشی، جغرافیائی سچوئیشن کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے ۔ بس یہ لوگ صرف اپنے آپ کو ہی صحیح سمجھتے ہیں۔ آخر ہم سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہم امن پسند ہیں۔ کیا USA میرا ملک نہیں ہے ؟۔ مام آپ لوگوں نے مجھے کیوں پیدا کیا ؟ بڑا کیا ؟’’Where do I belong Mom‘‘ علی کے سوالوں نے مجھے ہمیشہ کی طرح لا جواب کردیا تھا۔
نہ میرا رنگ گوروں کی طرح سفید ہے نہ کالوں کی طرح سیاہ ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اٹھا اور اپنے چہرے کو سامنے لگے شیشے میں بغور دیکھنے لگا۔
’’ میں جا رہا ہوں مام ! ’’ وہ یکا یک اٹھااور اپنی جیکٹ پہننے لگا ۔
’’کہاں؟‘‘ میں نے بے چین ہوکر سوال کیا۔
’’آج میں اس شاپنگ مال کے سب سٹور والوں کو جواب تک میری دوستی کا دم بھرتے تھے ۔جاکے سناؤں گا کہ تم امریکن کس قدر متعصب اور مطلب پرست ہو ۔ تم لوگ تنگ نظر ہو۔ کوئی یہاں میرا نہیں ، نہ ہی میرا دوست ہے ، وہ گرینڈیا بھی جھوٹ موٹ کا نانا دادا بنا ہوا ہے۔ یہ سب لوگ ہم کو متعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، دشمن سمجھتے ہیں۔ میں ان کو خوب سناؤں گا مام‘‘ میرے آوازیں دینے کے باوجود علی پیر پٹختا ہوا باہر چل دیا۔ اس نے میری ایک نہ سنی۔ امریکن بھلا کہاں کسی کی سنتے ہیں؟۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے