قحط الرجال کے زمانے میں ،چند ہم فکر احباب کے مل جانے اور مل بیٹھنے کی نعمتِ متبرکہ کی افادیت ان سے پوچھئے جنھوں نے یاروں کی بے وقت جدائی جھیلی ہو۔ یہ مار دینے والی جدائی ،جہاں دوستوں کی نایابی کا پیش خیمہ بنتی ہے، وہیں اس تلخ حقیقت سے بھی روشناس کرواتی ہے کہ افراد آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، قافلہ چلتا رہتا ہے۔ خیر کے قافلے کو زوال نہیں، سو اس قافلے سے وابستہ افراد ، ان کے افکار کو ‘کیوں کر زوال آ سکتا ہے۔ 
ہمارے خطے میں نیکی کے قافلے کی بنیاد ڈالنے والوں میں ایک بڑا نام یوسف عزیز مگسی کا رہا ہے۔ بھری جوانی میں اپنے دوستوں کو داغِ مفارقت دے جانے والے اس مدبر رہنما نے محض سات برس کی عملی زندگی میں اپنے کار ہائے نمایاں کے وہ بیج بوئے، کہ جن کے ثمرات سے بلوچستان کی کئی نسلیں فیض یاب ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ بلوچوں کا یہ گوہر نایاب جھل مگسی کے دُور افتادہ ویرانے میں کھلا، مگر اس کی خوشبو دیس کے اِس کونے سے اُس کونے تک پہنچی۔ سیاسی تحریک ، جمہوری جدوجہد، نیز علمی قافلے کی وہ بنیادیں رکھیں، جنھوں نے قبائلیت کے مارے بلوچ سماج کو جدید شہریت سے آشنا کروایا۔بلوچستان کی کوئی بھی سیاسی، جمہوری و علمی جدوجہد اس نام کے تذکرے کے بنا شروع ہو سکتی ہے، نا ہی تکمیل پا سکتی ہے۔
سو،ایسے فکری اکابرین کے افکار کی بازیافت کرنے رہنا، اپنے ایمان کی پختگی کے لیے بھی لازم ہے۔ یوسف عزیز کے خونی وارث تو کب کے اس راہ سے ،ان افکار سے دست بردار ہوکر دنیا داری میں غرق ہو چکے، اس کے فکری وارثوں کا بھی بھلے قافلہ منظم نہ رہا ہو، مگر کہیں نہ کہیں دو چار دیوانے اس کے نام لیوا اب بھی ہیں۔ کہیں اپنے عمل سے، کہیں اپنی آواز سے فکرِ عزیز کو تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایسے ہی کچھ فکری پیروکارگذشتہ برس سے ان کے اپنے دیس میں جمع ہو رہے ہیں۔ جھل مگسی کے ضلعی صدر مقام ،بلوچوں کے ایک اور اہم تاریخی مقام گنداواہ میں ہونے والا ادبی میلہ اس اکٹھ کا سبب ٹھہرا،جسے سجایا وہاں کے ضلعی سوشل ویلفیئر آفیسر عبدالحفیظ کھوسو نے۔ یہ مردم شناس ،ادب دوست و ادیب پرور آدمی سرکاری محکمے کے فنڈز سے ایسے اجتماع منعقد کروانے کی سعی کرتا ہے، جو یہاں کے سرکاری محکموں کی ترجیحات میں کبھی شامل ہی نہیں رہے۔ حفیظ کھوسو جیسے لوگوں سے مل کر یقین آتا ہے کہ سرکار کی نوکری کی دلدل میں بھی بندہ ’صاحبِ ایمان‘ رہ سکتا ہے ۔ 
گذشتہ برس یہیں اس مقام پہ یوسف عزیز سے منسوب ہونے والے اجتماع نے انھیں حوصلہ بخشا اور اب کے برس انھوں نے اسی تقریب کو ذرا وسیع پیمانے پر منعقد کرنے کی ٹھانی۔ سرکاری اخراجات کے چکر میں تاریخوں کی تاخیر کے باعث قہرخیز گرمی سر پہ آ پہنچی۔ بالآخر تاریخ طے پائی یوسف عزیز کا یومِ وفات:31مئی۔ سو تیس، اکتیس مئی کومحفلِ مشاعرہ، سیمینار، محفلِ موسیقی نیز طلبہ کے مابین تحریری و تقریری مقابلوں سے مزین دوروزہ تقریبات طے پا ہی گئیں۔ کوئٹہ سے بھی بعض نام ور احباب نے آنے کی حامی بھر ی۔ ہم کتب میلے کے لیے کتابیں ساتھ لیے آ پہنچے۔ پہلے ہی روز کی قیامت خیز گرمی نے مقررین و حاضرین کو نڈھال کر ڈالا، مگر خلافِ توقع حاضرین کی دلچسپی کہیں سے بھی کم نہ ہوئی، نہ کتابوں کے اسٹال پہ رش کم ہوا۔ گو کہ مفت خور زیادہ تھے، کتاب چور بھی اپنا ہنر آزماتے رہے۔ کتاب چوری خوب ہوئی، مگر کتاب خوری بھی کم نہ ہوئی۔ رات کو ہونے والی محفلِ مشاعرہ دیر گئے تک جاری رہی، حاضرین آخر تک ساتھ نبھاتے رہے۔ گنداواہ جیسے جنگل میں منگل کا سماں رہا۔ اس علاقے میں یہ بالکل نئی روایت تھی، سننے والوں کے لیے بھی اور ردِعمل کے تناظر میں شاعروں کے لیے بھی۔ 
اسی روز کوئٹہ کے قریب پیش آنے والے سانحہ مستونگ کے باعث تقریبات کو مختصر کرتے ہوئے محفلِ موسیقی کو مؤخر دیا گیا، جب کہ سیمینار کے لیے کوئٹہ سے تشریف لانے والے احباب بھی وہاں کے دگرگوں حالات کے باعث شرکت نہ کر سکے۔ یوں سیمینار کو مقامی احباب کے حوالے کر دیا گیا، جنھوں نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ غلام رسول آزاد نے کلامِ یوسف عزیز سے آغاز کیا۔ اپنے بھاری بھرکم جثے اور آواز کے ساتھ اس کا خوب حق ادا کیا۔ مولا بخش جمالی نے وہ قراردادیں پڑھ کر سنائیں جو یوسف عزیز کی سرکردگی میں ہونے والی پہلی کل ہند بلوچ کانفرنس میں پیش کی گئی تھیں۔ مقامی ہائی سکول کے ہیڈماسٹر بھی یوسف عزیز پہ مضمون لکھ کے لائے اور اچھا مضمون لکھ کے لائے۔ یہاں کے ضلعی تعلیمی افسر میر عبدالنبی مگسی نے یوسف عزیز کی زندگی اور تعلیمات پہ مختصر مگر پُرتاثیر مضمون پڑھا،اور خوب داد سمیٹی۔ پروفیسر منظور عمرانی ، یوسف عزیز کی شاعری کے پس منظر میں بولے، انھوں نے مخصوص جامعاتی انداز میں اپنا پُر مغز مقالہ پڑھا، آخری مقرر پروفیسر ایوب صابر تھے۔ انھوں نے یوسف عزیز پہ فی البدیہہ تقریر کی، مگر کیا خوب کی۔ یہ صاحب عالم ہیں، ایک دینی جماعت کے سرکردہ رہنما ہیں، غضب کے مقرر ہیں ( شاعر بھی اتنے ہی اچھے ہیں)، سو اس روز اپنے فنِ خطابت کے خوب جوہر آزمائے۔ انھوں نے ببانگِ دہل یہ دعویٰ کیا کہ میں اس پہ کسی سے بھی مذاکرہ کرسکتا ہوں کہ پچھلے سو سالوں میں اس پورے خطے میں یوسف عزیز سے بڑا رہنما پیدا نہیں ہوا۔ ان کے بقول رہنما، وژنری ہوتا ہے، اس کی نظر بڑے سے بڑے مسائل سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے معاملات کا احاطہ کرتی ہے۔ محض ستائیس ب
رس کی عمر میں وفات پاجانے والے یوسف عزیز کے عملی کاموں کی فہرست ذرا ملاحظہ کیجیے؛ پہلی سیاسی جماعت کی بنیاد، پہلی کل ہند بلوچ کانفرنس کا انعقاد، جامعہ ملیہ یوسفیہ نامی ادارے کا قیام، علاقے کو آباد کرنے کے لیے کیر تھر نہر کی کھدائی، پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے علاقے میں بھٹہ فیکٹری کی بنیاد، شاعری، افسانہ، مضمون نویسی، خطوط نگاری،عملی جمہوری جدوجہد، اور نجانے کیا کیا۔ سات برس کی عملی زندگی میں ،اس خطے میں کسی اور رہنما کا اتنا کام ہو تو دکھا دیجیے!!۔۔۔۔۔۔ہم سب کے پاس اس کا ایک ہی جواب تھا؛ تالیاں اور خوب تالیاں۔۔۔۔۔۔سو، جی بھر بجائیں۔

یوں، نڈھال کر دینے والی گرمی کے باوجود جھل مگسی میں یہ دن بھرپور رہے۔ ہم (کتب میلے میں) لُٹ کر بھی سیراب ہو کے ہنسی خوشی لوٹے۔ لٹے پٹے اور جلتے سلگتے بلوچستان میں، یہ مختصر اور گھڑی بھر کے اجتماع ہمارے اس ایمان کو پختہ کرتے رہتے ہیں کہ خیر کے قافلے کو دوام ہے۔ گر آج طالع رقیب اوج پہ ہے، تو کوئی بات نہیں۔۔۔یوسف عزیز کے افکار کا رستہ بالآخرہمیں کام یابی کی راہ پہ لے ہی آئے گا!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے