میں نے مخد وم گو ( بیل ) کی جسما نی چستی اور اس کی پہلو انی ’’ فیض آبا د ‘‘ کی سیر کے دو ران دیکھی ۔
’’نو روز‘‘ فا رسی زنا ن بو لنے و الے لو گو ں کی عمو می قو می عید ہو تی ہے ۔ اس زما نے میں بخا را میں نو روز کا بہت احتر ام کیا جا تا تھا۔یہ عیدقبل از اسلا میت ( عر بو ں کی آ مد ) قو می عا دت ہو ا کر تی تھی۔مسلما ن ہو نے کے بعد بھی لو گو ں نے اس عید کو تر ک نہیں کیا اور حتی ٰ کہ دینی علما ء بھی اسے اسلا می ، دینی رنگ دے کر اس سے فا ئد ہ اٹھا تے تھے۔۔۔۔ وہ قر آنی آیا ت سے ہفت سلا م لکھ کر غو لو نگ آ ب (جسے نو روز میں نو ش کر نا قو می ثقا فتی سر گر میو ں میں ایک اہم سر گر می تھی ) سے گیلا کر کے کھلا تے تھے اور پیسے لیتے تھے ۔ نو روز و الے دن امیر بخا را کے محل میں ایک دینی رسم ادا کی جا تی تھی ۔ جس میں لو گ ضیا فت کھا تے ، پیسے لیتے اور خلعت پہنتے تھے ۔ اور نو روز کے بعد سا ل نو کے احتر ا م میں چند روز کے لئے ادھر اُدھر سیر کرنے کے پر وگر ام بنتے ۔ مگر کئی لو گ تو سال نو سے پہلے ہی سیر سپا ٹے کے پر و گر ام بنا لیتے ۔ وہ زیا دہ تر ’’ فیض آبا د ‘‘ نکل جا تے ۔ نو روز کے علا وہ بھی وہ ہر جمعہ کو فیض آبا د جا تے اور سیر کرآتے ۔
فیض آبا د ، شہر بخا را سے شما ل مشر ق کی طر ف ایک کلو میڑ کے فا صلے پر ہے ۔ جہا ں بڑ ے بڑ ے با غا ت ہیں ، پا نی کی فر اوانی ہے اور سبز ہ ہے ۔
ہم بھی جمعہ کو فیض آبا د کی سیر کو نکلے ۔ جمعہ کو وہا ں بہت لو گ ہو تے ہیں اور خو ب میلہ جمتا ہے۔ شہر اور اطرا ف کے دیہا ت سے لو گ بڑ ے بڑ ے گر و ہو ں کی شکل میں میلے کی طر ف آتے ہیں ۔ البتہ ہما را گر و ہ اس قد ر بڑ ا نہ تھا ۔ ہما رے گر و پ میں مخد وم گو ، پیر ک ، ملا حامد صو تی ، زین الدین خو اجہ ، میں اور میر ا بھا ئی شا مل تھے ۔یعنی ہم کل چھ افر اد تھے۔
مخد و م گو اپنے حجر ے سے ایک چا ئے جو ش ، دو پیا لے اور ایک دری لا یا تھا۔ دری پیر ک نے بغل میں دا ب رکھی تھی ۔اور چا ئے جو ش اور پیا لے میں نے اٹھا ر کھے تھے ۔
ہم صبح نو بجے شہر کے دروزے ( دروازہ مز ار ) سے نکلے۔ اس دروازے سے مشر ق کی طر ف ایک چھو ٹا راستہ تھا جو کہ سید ھا بہا ء الد ین نقشبند کے مز ار تک جا تا تھا ۔(اسی لئے اس دورازے کا نام ’’مزار ‘‘ پڑ گیا۔وگر نہ اس کا تا ریخی ’’ نام دروازۂ آب ‘‘ ہے اس لئے کہ پا نی کی نہر اس دروازے کے جنو ب سے شہر کی طر ف آتی ہے)۔
اس گیٹ سے شما ل مشر ق کی طر ف ایک مختصر راستہ فیض آبا د پہنچتا ہے ۔ ہم اسی راستے پہ چل پڑے۔ جب ہم خو اجہ اسحا ق کلا با دی کے مز ار سے گز رے تو ہما رے آگے ایک چو کو ر مید ان آیا جس کے مشر ق، جنو ب، اور مغر ب کی طر ف قبر ستا ن کی دیو اریں تھی اور شما ل کی طر ف بلند ی پر گل فر وشو ں کی گلزار تھی ۔اس مید ان میں چا ئے نو شو ں کے لئے مٹی کی نشست گا ہیں تھیں جہا ں لو گ بیٹھے چا ئے پی رہے تھے ۔’’بیل ‘‘ ہمیں بھی ایک کو نے کی نشست پر لے گیا۔ ہو ٹل و الے ( سما و ا ر چی ) نے ہما رے سامنے ایک چینک چا ئے بمع پیا لو ں کے لا کر رکھ دی :
’’چر س ، چا ہیے ؟‘‘اس نے پو چھا
’’بیل ‘‘ نے ’’راہبر ی ‘‘ کے فر ائض بجا لا تے ہو ئے کہا
’’نہیں ۔درکا ر نیست‘‘
ہم چا ئے نو شی کے دوران یہا ں پہ بیٹھے ہو ئے لو گو ں کو غو ر سے دیکھتے رہے ۔ لمبی قطا روالی نشستو ں پہ کچھ قلند ر بیٹھے ہو ئے تھے ۔ جو جمعرات اور اتو ار کے دنو ں میں بڑے بڑ ے گر وہو ں کی شکل میں ذکر گو ئی کر تے ہو ئے شہر بھر میں کچکو ل گد ائی لئے پھر تے ۔
یہ لو گ یہا ں بھی قلند ری (درویشی ) لبا س میں بیٹھے تھے ۔ انہو ں نے قا لین کے ’’ کمر بند ‘‘ با ند ھ رکھے تھے جن میں ’’سنگِ قنا عت ‘‘ با ند ھا ہو تا تھاجو کہ ان کے عقید ے کے مطا بق ،انہیں بھو ک کی بر داشت عطا کر تا تھا۔وسطی ایشیا کے قلند روں کا پیر ، سمر قند کے قلند ر خا نے میں بیٹھتا تھا۔ اس پیر کی بخشش کے بغیر کو ئی یہ قا لین والا کمر بند نہیں با ند ھ سکتا تھا اور یہ بخشش بھا ری رقم دے کر حا صل کی جا سکتی تھی ’’کلا ہِ چا رتر ک ( چا رکو نو ں والی ٹو پی جو کہ یہی پیر قلند ران عطا کر تا تھا) بھی ان کے پاس تھے ۔ان کے پر یشا ں بال بیو ہ عو رتو ں کی طر ح ان کے سر اور چہر وں کے اطر اف میں لٹک رہے تھے ۔ ہر قلند ر کے پا س ایک عصا بھی تھی جس کا سر نیز ہ دار تھا۔ انہو ں نے یہ عصا ئیں قطا ر میں زمین پر زور سے ما ر کر کھڑ ے کر رکھے تھے ۔
قر یب ہی لمبے لمبے کا نو ں والے دو کتے لیٹے ہو ئے تھے ۔ جنہو ں نے اپنے پیٹ زمین سے لگا رکھے تھے اور دونو ں نے اگلی ٹا نگین لمبی کر کے اپنی آنکھیں قلند روں پر مر کو ز کر رکھی تھیں ۔وہ اس طر ح بے حر کت پڑ ے تھے کہ ایک عضو کو بھی جنبش نہ تھی اور نہ ہی قلند روں کے علا وہ ان کی نگا ہ کسی اور طر ف اٹھتی تھی ۔ وہ عین مر ید لگ رہے تھے جو اس زما نے میں اپنے پیر وں کے سا منے ا س کی تو جہ کے وقت بے حر کت مُر دوں کی طر ح بیٹھے تھے ۔
قلند روں کے درمیا ن سو لہ سے اٹھا رہ بر س کے کچھ نو جو ان بھی بیٹھے تھے جن کے سا تھ قلند ر گر مجو شی سے با تیں کر رہے تھے ۔ یہ نو جو ان خو ش لبا س اور خو ش شکل تھے ۔ان کی پر نو ر آنکھو ں سے ا ن کی قا بلیت چھلکتی تھی ۔ دوسر ے گر وہو ں میں مختلف النو ع لو گ بیٹھے تھے ۔ جن کی و ضع قطع سے ان کی گو نا گو ں طبقا ت سے و ابستگی ظا ہر ہوتی تھی ۔ کہیں ایک مدرسہ کے طا لب بیٹھے تھے ،کہیں مخدوم ،کہیں ملاٌزادے،تا جر زادے اور کہیں دستکا ر بیٹھے تھے۔
ہم ابھی تک اپنی چینک کی چا ئے ختم نہ کر چکے تھے کہ ایک قلند ر بچہ ایک حقہ لیے آیا ۔ یہ حقہ عا م تمبا کو نو شی کے حقہ کی طر ح نہ تھا بلکہ اس کا پیٹ بڑا تھا۔اس کی ٹو پی بھی دوسر ے حُقو ں کی ٹو پی بہ نسبت و سیع بھی تھی اور اونچی بھی۔
قلند ر بچہ نے حقہ کی ٹو پی کو ایک ایسی چیز سے پھر لیا جس کو میں اُس زما نے میں نہیں جا نتا تھا۔اس نے ا س کے اوپر آگ رکھی اور اسی نے ایک دو لمبے کش لئے ۔
مخد وم گو نے اس حا ل کو دیکھا تو کہا :
’’چر س نو شی شر وع ہو گئی ہے‘‘۔ اس نے جب یہ کہا تو پھر میں سمجھا کہ حقے کی ٹو پی پہ رکھی ہو ئی چیز چر س ہے۔
؂قلند ر بچہ نے خو د کش لے کر حقہ جلا نے کے بعد ا س کی نے قلند روں میں سب سے آگے بیٹھے ہو ئے قلند ر کے سامنے کر دی ۔یہ قلند ر نیا لبا س پہنے پچا س بر س کا لگتا تھا اور اس کی داڑھی میں کہیں کہیں سفیدتا ر پید ا ہو گئے تھے اور اس کی شکل و شبا ہت سے لگتا تھا کہ وہ ’’ با با ئے قلند ران ‘‘ ہے۔
جس وقت با بائے قلند ران نے چر س کے حقے کی نے ہا تھ میں لی ،کتے بے قر ار ہو نا شر وع ہو ئے۔ہر چند کہ وہ اپنی جگہو ں سے نہ ہلے مگر ا ن کے جسم کے بال ان کے اعصا ب کے بے قر ار ہو نے کی گو اہی میں لز رنے لگے ۔
با با نے حقہ کے دو تین کش لے کر نعر ۂ قلند رانہ ‘‘ حق دو ست ۔۔۔۔الاا للہ ،پیر م نقشبند دیو انہ ‘‘ کہا اور کتو ں کی طر ف مسکر اتے ہو ئے دیکھا ۔ وہ ابھی تک ہل نہیں رہے تھے لیکن با با کی مر حمت آمیز نگا ہ کے جو اب میں ان کے دم ہلنے لگے ۔اور وہ اسے زمین پہ ما رنے لگے ۔
با با نے کتو ں کی طر ف نگا ہ کی اور کہا :
’’آجا ۂ ، جا نو رو،حق گو ئی کر و‘‘
دو نو ں کتے اپنی جگہ سے اٹھے اور اس کے پا س آئے ۔ انہو ں نے اپنے اگلے پیر نشست کے کو نے پہ اٹکا ئے ۔
منہ کھو لے ہو ئے ایک دوسر ے کے پہلو میں کھٹر ے ا ن کی نگا ہیں بابا پر ٹکی ہو ئی تھیں ۔
با با نے ان کتو ں میں سے ایک کا منہ چر س کے حقے کی پشت پہ سید ھا کر دیا ، پشت کی سوراخ کو انگلی سے بند کر کے دو تین کش لئے تا کہ چر س کی آگ کو تیز کر دے، جس و قت حقے کا اند ر چر س کے دھو ئیں سے بھر گیا تو اس نے چلم کی سو راخ پرسے انگلی ہٹائی اور زور سے پھو نک مار دی ۔جس کتے کا منہ حقے کی پشت کے سوراخ کے سا منے تھا اس نے وہا ں سے نکلنے والے دھوئیں کو پورے ذوق سے کھینچ لیا ۔با با نے دو سرے کتے کو بھی اسی طر ح چر س پلا ئی ۔دو نو ں جا کے اپنی پہلی و الی جگہ پر پہلے کی طر ح دراز ہو گئے ۔
قلند ربچہ نے حقہ تا زہ کر دیا ۔ اس میں چر س اور کو ئلے تا زہ کر دیے اور قلند ر ،اور ا ن کے ہم صحبت جو ان چر س پینے لگے ۔
صحبتِ قلند را نہ گر م ہو ئی اور ’’حق دو ست ،با ہو ،با من با ہو ‘‘ کی صداسا رے قلند روں اور ا ن کے ہم صحبت جو انو ں کے منہ سے بلند ہو ئی ،حتیٰ کہ کتے بھی شا د یا نے کی مخصو ص آوازیں نکا ل نکال کر اپنے صا حبو ں کا سا تھ دے رہے تھے ۔
اسی دوران ایک اور قلند ر بچے نے دو سرا حقہ تیا ر کیا اور دیگر چا ئے نو شو ں کو دے د ی ۔ ان لو گو ں میں کچھ ایسے لو گ تھے جو چر س نہیں پیتے تھے اور ا ن کے سا تھی انہیں ’’اس کمز وری ‘‘ پہ طعنے دیتے اور مذ اق اڑاتے تھے ۔ ہر گر و ہ چر س پینے کے بعد اپنے گر وہ کے بڑے یا چھو ٹے ہو نے کی نسبت سے قلند ر بچہ کو دو سے لے کر چا نچ تنگہ د ے دیتا ۔ قلند ر بچہ وقفہ وقفہ سے جا تا اور حقہ تا زہ کر کے لا تا۔
ہما رے گر وہ نے شر وع ہی سے ‘‘ چر س درکا ر نیست ‘‘کہا تھا۔ پھر بھی قلند ر بچہ نے ہما رے احتر ام میں تا زہ کیا ہو ا چلم ہما رے سامنے لا کر رکھ دیا۔مخد وم گو نے سر کے اشا رے سے انکا ر کر دیا ۔ قلند ر بچہ دوسر ے گر وہ کی طر ف گیا۔
ملا حا مد نے مخد وم گو سے کہا:
’’ہم نے تو پو ری عمر چرس نہیں پی ۔مگر آپ نے پہلے ایک ہی با ر بہت چر س پی لی تھی اور پیا ز کو قر وت کہہ کر کھا رکھا ہے ۔ پھر اب کیو ں نہ پیا ؟‘‘۔
مخد وم گو کا چہر ہ د گر گو ں ہو ا۔ میں نے پہلی با ر دیکھا کہ اس کی پیشا نی پہ شکنیں پڑ گئیں ۔ مگر ا س کی عا دی مسکراہٹ پھر بھی لبو ں سے دور نہ ہوئی اور ملا حا مد کے سوال کے جو اب میں ا س کی طرف دیکھ کر بو لا :’’آ پ کا کیا خیال ہے کہ میں چر س کی قبا حت کو نہیں جانتا ؟ ۔اور اگر جانتا ہو ں تو بھی ان بے کا ر مخد و مو ں کی صحبت میں مسر ت کے لئے میں نے چر س پی تھی ؟ ۔اگر آپ نے یہی سو چا تو غلط سو چا ‘‘۔
مخد وم گو نے اپنے سامنے رکھی ہو ئی پیا لی کی چائے پی اور پھر اپنی با ت جا ری رکھی :
’’احمق مخد وم چا ہتے ہیں کہ مجھے مغلو ب کر کے میر ا مذاق اڑا ئیں ۔ میں ان کے سامنے دھت ہو نے کو عا ر سمجھتا ہو ں ۔ اس لئے میں نے ان کا چیلنج قبو ل کیا ۔میر ا یہ کا م ان احمقو ں کے سا تھ ایک مبا ر زہ تھا اور نتیجے میں خو دوہ مسخر ہ بن گئے ‘‘۔
قلند ر و ں نے ایک با ر پھر حقے میں چر س بھر ی ، خو د بھی پیا اور کتو ں کو بھی پلا یا۔ان کی قلند رانہ نعر ہ با زی مز ید بلند ہو گئی ۔ان کے ہم صحبت جو ان کبھی ہنستے کبھی روتے ،اپنے پیر ا ہن چا ک کر دیتے اور خو د یہا ں و ہا ں گر پڑتے ۔کتے دو با رہ چر س پی کر پھر اپنی سا بقہ جگہوں پر مُر دوں کی طر ح دراز ہو گئے ۔
مخدوم گو نے با ت جا ری رکھی ۔’’ان قلند روں کو دیکھتے ہو ، یہ وہ لوگ ہیں جو ہفتے میں دو دفعہ شہر میں گھو م کر بنا م خد ا ، بنا م پیغمبر،بنا م بھاؤ الد ین اور دو سر وں کے نا م پر مسلما نو ں سے پیسہ ما نگتے ہیں اور تم لوگو ں نے خو د دیکھا کہ وہ یہ پیسہ کس راہ پر صر ف کر تے ہیں ۔ یہ نہ صر ف خو دمر دار اور خر اب ہیں بلکہ دو سر وں کو بھی مردارا و ر خر اب بنا تے ہیں ۔ یہ جو اُن کی صحبت میں بیٹھے ہیں ، نا دان پر ند ے ہیں جو بے رحم صیا د کے دا م میں پھنس گئے ہیں ۔ان کی عا قبت ان قلند روں کے ہا تھو ں ہلا کت ہے ۔اگر یہ جو ان کسی کا م یا ہنر میں لگ جا تے تو اچھے بھلے انسا ن بن جا تے ۔ اب اگر قسمت انہیں اجا زت دے تب بھی اپنے پیر وں کی طر ح قلند رہی بن پا ئیں گے ۔ یہ بے خبر اور بے رحم قلند ر نہ صر ف انسا نو ں کی اولا د کو خر اب کر تے ہیں بلکہ حیو انو ں کو بھی کا م سے نکا ل دیتے ہیں ۔ تم نے خو د دیکھا کہ دو ہو شیا ر اور تا زی کتے دو دفعہ چر س پینے سے کس حا ل کو پہنچے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
مخد وم گو کا گلہ زیا دہ با تیں کر نے سے خشک ہو گیا۔ چینک سے ایک پیا لہ چا ئے بھر ی ، پی اور پھر گو یا ہو ا۔
’’میں عبر ت حا صل کر نے کے لئے تمہیں یہا ں لایا ہو ں تا کہ یہ حا ل دیکھ سکو ۔ یہ تو ان قلند روں کا ظا ہر ی احو ال تھا۔ راتو ں کو ان کے پو شید ہ احو ال تو بہت نفر ت انگیز ہیں ۔وہ عصا جو ز مین پر قطا رسے گڑ ے ہیں ،ان کے ہتھیا ر ہیں ۔ بیشتر قلند ردن کے وقت لو گو ں کی ، اپنی رضا سے دیے ہو ئے صد قہ پر قنا عت نہیں کر تے ۔و ہ راتو ں کو شہر کے اطر اف میں سنسا ن راستو ں پر تنہا چلنے والے راہگیر وں کو لو ٹتے بھی ہیں اور اگر وہ راہگیر مز احمت کر ے تو عصا کے نیز ہ والے سر ے کو انکے پیٹ میں گھو نپ دینے سے دریغ نہیں کر یں گے ۔یہا ں یہ روزانہ لو گو ں کے سامنے ’’ با ادب ‘‘ مست اور بیگا نہ بنے بیٹھے ہیں ۔مگر یہ لو گ جب راتو ں کو چر س کشی کی مجلس کر تے ہیں تو
اُن کی با تو ں اور کر تو تو ں کو بیا ن کر نا شر منا ک ہے ۔ اگر کو ئی شا ئستہ شخص ان کے کا مو ں کو دیکھے تو ان مر دار لو گو ں کو زند ہ نہ چھو ڑے ‘‘۔
قلند روں کی محفل جو ش میں تھی مگر ان کے با رے میں ہما ری محفل اکتا گئی ۔ہم جا نا چا ہتے تھے ۔ سا رے دو ستو ں نے چا ئے کے پیسے دینے کے لئے ہا تھ جیبو ں میں ڈالے مگر مخد وم گو نے قبو ل نہ کیا :
’’اِس سیر کی چا ئے کے پیسے میں دو ں گا‘ ‘۔ یہ کہہ کر اس نے چا ئے کے پیسے دیے اور ہم سیر گا ہ کی طر ف روانہ ہو گئے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے