اپنی قسمت میں کہاں کوئی گھڑی آرام کی
داستاں کیسے بیاں ہو رنج کی آلام کی

اس لیے بھی میں نے نظروں کو چرایا قصداََ
کچھ تو صورت ہو سنبھلنے کی دل ناکام کی

پیار کی حدت بہت تھی اور ہم نازک بہت
ڈال دے چادر ہمارے سر پہ اپنے نام کی

کہہ دیا اس نے سرمحفل جو اس کے دل میں تھا
فکر ہے کیا اس کو اپنے حسن کے انجام کی

کچھ تو میرے شہر کی آب و ہوا بے چین تھی
اور امیرِ شہر بھی بولے ہے بولی رام کی

چشمِ گریہ کیا کرے اور آنسوں کا ذکر کیوں
جب حقیقت کھل گئی اس کے حسیں پیغام کی

اب دل مضطر کو خاورؔ یاد رکھنا ہے عبث
دل ہے ترے کام کا نہ جاں ہے تیرے کام کی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے